مشفقِ مجسم حضرت مولانا محمد شفیق عالم نیموی قاسمی

از :محمد خالد حسین نیموی قاسمی
یہ ہیں ضلع بیگوسرائے میں دارالعلوم دیوبند کے سب سے قدیم فاضل ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ اجل حضرت مولانا محمد اللہ معروف بہ "حافظ جی حضور” کے پروردہ وپرداختہ، حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی کے خصوصی فیض یافتہ اور عارف باللہ حضرت قاری محمد قدیق باندوی کے دست گرفتہ ، بیگوسرائے کے قدیم دینی تعلیمی مرکز جامعہ رشیدیہ جامع مسجد بیگوسرائے کے بانی و مہتمم حضرت مولانا محمد شفیق عالم نیموی قاسمی…..
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
قہاری و غفاری قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہ چار صفات تو ہرمرد مومن کے لیے لازم ہیں لیکن اضافی صفات میں اگر محبت و شفقت، خدمت خلق، سیاست، حسن تدبیر وانتظام اور جہد مسلسل کو یکجا کیاجاءے تو اس کی پیشانی پر آپ جلی حروف سے لکھ سکتے ہیں ” شفیق عالم قاسمی "آپ کی شخصیت بہت سی متنوع صفات کی جامع ہے،آپ کی متنوع خدمات کی علامت یہ ہے کہ آپ مختلف اوقات میں جمعیت علماء متحدہ مونگیر، بیگوسراءے کھگڑیاکے جنرل سیکریٹری ، کانگریس پارٹی ضلع بیگوسراءے کےشعبہ اقلیت کے صدر ،، بیگوسرائے بیوپار مہاسنگھ کےصدر، قدیم تر مرکز علم مدرسہ بدرالاسلام بیگوسراءے کے کءی ٹرم صدر رہ چکے ہیں. تاہنوز کءی دینی وملی اداروں کی سرپرستی فرما رہے ہیں.. ضلع بھر میں آپ کی خدمات کا باب اتنا وسیع ہے کہ اسے کسی مختصر مضمون میں نہیں سمیٹا جا سکتا ہے،
بلکہ اس کے لئے ایک دراز نفس کتاب کی ضرورت پڑے گی.
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیےاس بحر بیکراں کے لیے
اگراللہ نے چاہا تو آپ کے سوانح و خدمات سے متعلق ایک مستقل کتاب بھی مرتب کی جائے گی. نصف صدی سے زائد پر مشتمل ضلع بھر میں ملت اسلامیہ کے لیے دی جانے والی عظیم متنوع خدمات کے بارے میں تو بس یہی کہا جاسکتا ہے.
اٹھائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
عمر کی اسی(80) بہاریں مکمل کرنے کی مناسبت سے چند سطور اعتراف خدمت کے طور پر سپرد قلم کیے جارہے ہیں.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ:
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے.
ولادت اور ابتدائی تعلیم :
آپ کی ولادت ضلع بیگوسراءے کی مردم خیز بستی نیما چاند پورہ میں سن انیس سو چالیس میں ہوئی. آپ نے ابتدائی تعلیم مدر سہ بشارت العلوم نیما سے حاصل کی… وہاں جناب قاری حافظ محمد صدیق سے دینیات اور ناظرہ کی تعلیم حاصل کی، حافظ صدیق صاحب سبعہ عشرہ کے جید فنی قاری تھے اور آپ نے لکھنو عرفانیہ سے قراءت وتجوید کی تعلیم حاصل کی تھی، جس کی وجہ سے سے طلبہ پر آپ کے گہرے فنی اثرات مرتب ہو تے تھے… ناظرہ اور دینیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تقریباً دس سال کی عمر میں آپ مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ تشریف لے گئے. جہاں آپ کے والد بزرگ وار جناب مقصود علی مرحوم بر سر روز گار تھے، وہاں کے بزرگ ترین عالم دین حضرت مولانا محمد اللہ صاحب معروف بہ "حافظ جی حضور” خلیفہ اجل حکیم الامت حضرت تھانوی سے ان کے گہرے مراسم تھے، حضرت اس وقت لال باغ شاہی جامع مسجد کے امام وخطیب تھے اور بڑا کٹرہ کے بڑے دینی ادارہ جامعہ اشرف العلوم کے شیخ الحدیث اور ذمہ دار تھے. جناب مقصود علی مرحوم نے اپنے ہونہار صاحب زادہ کو حافظ جی حضور کے سپرد کیا… حضرت نے ہی آپ کا حفظ قرآن کریم شروع کروا یا اور انھیں سے لال باغ کی جامع مسجد میں ہی آپ حفظ کی تعلیم حاصل کرتے رہے. اللہ کی شان کہ جب آپ نے چند پارے کا حفظ مکمل کیا تو حضرت حافظ جی حضور بعض اختلافات کی وجہ سے بڑا کٹرہ مدرسہ سے علحدہ ہوگئے، اور لال باغ شاہی مسجد میں جامعہ قرآنیہ عربیہ کی بنیاد رکھی. آپ کے ساتھ حضرت تھانوی کے دوسرے بڑے خلیفہ حضرت مولانا شمس الحق فرید پوری اور متعدد جید علماء کرام اس ادارے سے جڑ گءے، اب مزید بہتر انداز میں آپ کی تعلیمی پیش رفت جاری رہی. .جب آپ آٹھویں پارہ میں تھے تو آپ حضرت حافظ جی حضور کو آیت کریمہ :والی مدین اخاھم شعیبا میں مشابہت لگنے پر لقمہ دیا.. حضرت نے آپ کے اس حوصلہ کو بہت سراہا.. آپ کے والد جناب مقصود علی صاحب اپنے پیشہ ورانہ مصروفیت کے علاوہ زیادہ تر حافظ جی حضور کی خدمت میں رہتے، ان کے پانی لکڑی، راشن ودیگر حواءج کی تکمیل کرتے.. ذاکر وشاغل اتنے تھے اور اس عاجزی والحاح وزاری سے مسجد کے ایک گوشے میں دعا کرتے کہ آپ کی بلکنے کی آواز سن کر دوسروں کو بھی ترس آنے لگتا .والد کی دعاءے نیم شبی کے فیوض بھی مولانا شفیق عالم کو حاصل ہوتے رہے .اس درمیان آپ نے چودہ پارہ حفظ قرآن مجید مکمل کرلیا…
جامعہ رحمانی مونگیر میں :ایک عرصہ ڈھاکہ میں گذارنے کے بعد مولانا کو اپنے گھر اور وطن کی یاد آنے لگی، جو ایک کم عمر طالب علم کے لیے فطری بات تھی… چنانچہ حضرت حافظ جی حضور سے اجازت لے کر مولانا اپنے وطن نیما بیگوسراءے آگءے…. چھٹی کے ایام مکمل ہونے کے بعد کوئی مناسب آدمی ڈھاکہ لے جانے والا نہیں مل سکا اور وہاں سفر کی کوئی ترتیب نہ بن سکی، تعلیمی انقطاع کی اس صورت حال سے آپ کے اہل خانہ خَانہ کو بڑی بے چینی ہوءی… آپ کے خالو مولوی یعقوب صاحب نیموی حضرت مولانا محمد علی مونگیری رح کے خاص مرید اور ان کے شیداءیوں میں سے تھے،، ذاکر وشاغل اور خدا رسیدہ انسان تھے.(مونگیر کے زلزلے پر بطور مرثیہ ایک طویل نظم کہی تھی) انھیں سب سے زیادہ فکر مندی تھی انھوں نے حضرت مولانا محمد ادریس نیموی صاحب سے اس مسئلے پر بات کی، اور ان سے مولانا شفیق کو مونگیر لے جانے کی خواہش ظاہر کی. .. حضرت مولانا ادریس نے ایک مدت تک جامعہ رحمانی کے درجات علیا میں تدریسی خدمات انجام دی تھی اور اس وقت مدرسہ تجوید القرآن مونگیر میں حضرت مولانا سعد اللہ بخاری کے دست راست بنے ہوئے تھے، مولانا ادریس صاحب انھیں اپنے ساتھ مونگیر لے گئے اور چند ایام مدرسہ تجوید القرآن میں رکھ کر انھیں حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی کے سپرد کر دیا.. ان کا داخلہ جامعہ رحمانی میں ہوگیا،، اس وقت کے رفقاء میں حضرت امیر شریعت کے صاحبزادے مولانا وصی حمانی، حضرت مولانا ولی رحمانی اور مولانا صبغت اللہ سرجاپوری، مولانا شفیق عالم پورنوی، حافظ رضی بگھیلی شامل ہیں…اس وقت کے ناظم حضرت مولانا عارف رحمانی صاحب تھے .درجہ دینیات کے مدرس ماسٹر فضل الرحمن نور پوری تھے.
حضرت شیخ الاسلام مدنی سے ملاقات :
مجاہد جلیل اسیرمالٹا شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کا خانقاہ رحمانی سے گہرا تعلق تھا، جب کبھی دیار مشرق کا سفر ہوتا تو لازمی خانقاہ رحمانیہ تشریف لاتے. چنانچہ مولانا شفیق عالم کی زمانہ طالب علمی میں حضرت مدنی نے خانقاہ رحمانی میں قدم رنجہ فرما ہوءے…. حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے لیے یہ انتہائی اہم موقع تھا، حضرت رحمانی کو حضرت مدنی سے والہانہ عقیدت ومحبت تھی، ان مہمان نوازی کا اعلی پیمانے پر اہتمام کیا گیا.. حسن اتفاق ناظم جامعہ مولانا عارف رحمانی نے مولانا شفیق عالم کو حضرت مدنی کی خدمت کے لیے مقرر کیا… حضرت مدنی طلبہ پر بے انتہا مشفق تھے انھوں نے نہ صرف یہ ہے کہ مولانا شفیق کو قیمتی نصیحتیں فرماءیں بلکہ انہیں چنا کا حلوہ بھی پیش کیا جو آپ کے کسی اہل تعلق نے دوران سفر آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا.. اس سفر میں جامعہ کی جامع مسجد میں حضرت کا انتہائی موثر خطاب بھی ہوا، جس سے مولانا شفیق عالم کو مستفید ہونے کا موقع ملا…
جامعہ رحمانی مونگیر میں آپ نے تقریباً ایک سال کا عرصہ گذارا تعلیمی سال مکمل کرنے کے بعد اپنے گھر نیما آگیے. خدا کی شان کہ نیما سے پھر ڈھاکہ جانے کی ترتیب بن گءی.. چنانچہ آگے کی تعلیم جامعہ عربیہ قرآنیہ لال باغ ڈھاکہ میں حضرت حافظ جی حضور کی سرپرستی میں ہونے لگی.. اور بہت جلد مستقل اساتذ قاری مفیض الرحمن نواکھالی اور حافظ نورالھدی کی نگرانی میں حفظ قرآن مجید اور دور کا مرحلہ پورا ہوگیا اب مرحلہ تھا آپ کی دستار بندی کا.
حضرت مفتی شفیع عثمانی اور علامہ ظفر عثمانی نے آپ کی دستار بندی کی.
شعبان میں ادارہ نے بڑے پیمانے پر جلسہ دستار بندی کا اہتمام کیا گیا. اس کے لیے مغربی پاکستان سے اس وقت کی نابغہ روزگار ہستی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع احمد عثمانی اور اعلاء السنن جیسے نابغہ روزگار حدیث وفقہ کے انسائیکلوپیڈیا کے مصنف علامہ ظفر احمد عثمانی اور حضرت تھانوی کے جانشین حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی کو دعوت دی گئی… ان حضرات نے بشاشت کے ساتھ شرکت بھی فرماءی، مولانا ودیگر طلبہ کے سروں پر دستار فضیلت باندھی اور طلبہ، علماء اور عوام وخواص کو اپنے روحانی پیغامات سے مستفیض فرمایا…. جلسے میں نعت خوانی کے لیے بھی آپ کا انتخاب ہوا، اس لیے کہ بنگالی طلبہ اردو نعت کو بنگلہ لب ولہجہ میں پڑھتے تھے،، چنانچہ ذمہ داران ادارہ کے حکم پر آپ نے مندرجہ ذیل نعت پڑھ کر مجمع پر گریہ وزاری طاری کردیا
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پر تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے.
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی سے ملاقات
1953ء میں سید ابو الاعلیٰ مودودی نے "قادیانی مسئلہ” کے نام سے ایک مختصر سی کتاب تحریر کی.. قادنیت کے خلاف بلند ہونے والی اس آوازکو حکمران ٹولہ برداشت نہیں کر پایا اور انہیں گرفتار کر لیا گیا اور پھرفوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنادیا گیا ۔ البتہ رحم کی اپیل کرنے کا اختیار دیا گیا..
سید مودودی نے اپنے احباب، تحریکی ساتھیوں اور اہل خانہ کو رحم کی اپیل کرنے سے منع کر دیا۔ آپ نے اپنے پندرہ سالہ بیٹے فاروق کو تسلی دیتے ہوئے کہا:بیٹے اگر خدا کو یہی منظور ہے تو پھر شہادت کی موت سے اچھی موت اور کون سی ہے، اور اگر اللہ ہی کو منظور نہیں تو پھر خواہ یہ خود الٹے لٹک جائیں مگر مجھے نہیں لٹکا سکتے ‘‘
البتہ سزائے موت سنانے کے خلاف ملک کے علاوہ عالم اسلام میں بھی شدید رد عمل ہوا۔ جن میں مصر کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے رہنما علامہ حسن الہضیبی، کابل سے علامہ نور المشائخ المجددی، فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی کے علاوہ الجزائر اور انڈونیشیا کے علما نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے سید مودودی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جبکہ شام کے دار الحکومت دمشق میں ان کی سزائے موت کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہاکہ: ”پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے ۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے“۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی احتجاج کیا ۔ اس احتجاج کانتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں یعنی چودہ سال کی قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔
وہاں وہ مزید دوسال اور گیارہ ماہ تک زندان میں رہے.قید کا یہ عرصہ لاہور، میانوالی اور ملتان کی جیلوں میں گزرا.
جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ‘ چنانچہ مولانا مودودی صاحب ۲۸ مئی ۱۹۵۵ءکو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے….
اس کے بعد فورا بعد مشرقی پاکستان کے اہل محبت سے ملنے کے لیے آپ نے ڈھاکہ کا سفر کیا،وہاں سے مستقل تقاضے آرہے تھے. وہاں علماء کی طرف سے آپ کا زبردست استقبال ہوا.. تیزگام ایر پورٹ ڈھاکہ میں طلبہ وعلماء وتنظیمی شخصیات کا ہجوم تھا،،، اس موقعے پر مولانا شفیق عالم بھی موجود تھے جو اگر چہ چھوٹے تھے مگر ختم نبوت پر اپنی جان نچھاور کرنے والی اس شخصیت سے ملاقات کے شوق میں دیگر اکابر کے ہمراہ ایر پورٹ پہنچ گئے تھے.. بہرحال مولانا مودودی جیسی تحریکی وتاریخی شخصیت سے سلام مصافحہ و معانقہ کیا، ان کی دعائیں لیں اور ان کے خطاب سے فیضیاب ہوئے…
(جاری)
Comments are closed.