صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
انسانی سماج کو نظم اور قانون کے ساتھ چلانا سیاست ہے، اور یہ سیاست انسانی سماج کی ضرورت ہے۔۔ یہی انسانی فطرت ہے، اور یہی حکومت ہے ۔۔ انسانی آبادی میں یہ قدیم سے موجود ہے، اور تجربات اس کی شکلیں بدلتے رہتے ہیں۔۔۔
تو اس کے اثرات سب پر مرتب ہوتے ہیں، اور اس کی فکر سب کو رکھنی ہوتی ہے۔۔ انھیں بھی جو اس میں شامل ہیں، اور ان کو بھی جو کنارہ کش ہیں۔۔۔
اسلام نے انسان کی بہتری چاہی، اور سب کی بھلائی اپنائی۔۔ تو اس نے سیاست کے اصول دئے، اور اس کے نمونے پیش کئے۔۔ یہ اصول بھی دین کا حصہ ہیں، اور ان کو سامنے لانا اور برتنا بھی مذہبی فریضہ ہے۔۔۔
حاکم کا مقام محکوم کے برابر ہے، ابوبکر وعمر نے خلافت کے پہلے خطاب میں یہ کہہ دیا تھا۔۔ قانون کی حکمرانی دونوں پر برابر ہے، عمر وعلی نے کورٹ میں کھڑے ہوکر یہ دکھا دیا تھا۔۔ خزانہ حاکم کی ذاتی ملکیت نہیں ہے، محکوم کے برابر ہی حاکم کا بھی حصہ ہے، عمر کی چادر پر بھری محفل میں ایک خاتون نے یہی سوال کرلیا تھا۔۔ رعیت کے ہر فرد کی بہبودی حاکم کی جوابدہی ہے، آقائے مدنی ﷺ نے فرما دیا تھا کہ جو بھی گذر جائے اس کا مال وارثوں کےلئے، اور اس کا قرض مجھ پر ہے۔۔ اور عمر نے مملکت کے ہر مرد عورت نوجوان ضعیف معذور محروم دیہاتی شہری بلکہ پیدا ہونے والے بچہ کا وظیفہ مقرر کررکھا تھا۔۔ راتوں کو گشت اور علاقوں کا دورہ کرکے ہر فرد کی ضرورت معلوم رکھی تھی۔۔ انصاف بے روک اور بے خرچ حاکم کی ذمہ داری ہے، آقا ﷺ نے ہر علاقہ میں قاضی مقرر فرمایا، چاروں خلفاء نے یہی کیا، اور عمر نے حج کے مجمع میں کھلی شکایت سن کر وہیں فیصلہ دینے کی سہولت پیدا کردی۔۔ اور ۔۔ ہر فرد کی تعلیم، ضروریات اور مواقع کی فراہمی حاکم کی ذمہ داری ہے۔۔۔
تو حکمرانی منفعت نہیں ذمہ داری، اور اختیار نہیں امانت بتائی گئی۔۔ اور قیامت کے دن عادل حاکم کےلئے بڑی نعمت اور ظالم کےلئے بڑی حسرت قرار دی گئی۔۔۔
اب سیاست منفعت کی تجارت، اختیار کی لذت، جھوٹ کی منڈی اور فریب کا حربہ ہے۔۔ حکمراں عوام سے بالا، قانون سے محفوظ، اور نعمتوں کا پروردہ ہے۔۔ خزانہ عوام کا حق نہیں، حاکم کی مرضی کا احسان ہے۔۔ تو اب دبنگوں اور مخصوص گٹھ جوڑوں کا دبدبہ ہے، اور کمزوروں اور سادہ لوگوں کی محرومی ہے۔۔۔ یہ پہلے بھی ہوتا رہا، اور اب نئے ناموں اور پر فریب عنوانوں سے کیاجاتا ہے۔۔۔
تو یہ سب اسلام کے نمونے نہیں ہیں، اور انسان کی راحت کے اصول نہیں ہیں۔۔ تو کیا دنیا کو اسلام کی یہ رحمت نہیں جاننی چاہئے، اور عوام تک یہ نمونے نہیں آنے چاہئے؟ تو اس پر بھی لکھا اور بولا جائے، یہ بھی بتایا اور سمجھایا جائے، اسے بھی برتا اور اپنایا جائے۔۔۔
یہ بھی وقت کی ضرورت ہے، اس سے نا آشنائی انسان کی بڑی محرومی ہے، یہ قدریں انسانی سماج کےلئے عظیم تحفے ہیں۔۔ اہل علم یہ بتا اور دکھا سکتے ہیں، اور ایسے افراد بنا سکتے ہیں۔
خدا حافظ
30 اگست 2020
10 محرم 1442
Comments are closed.