مسجد کی جماعت وار دعوتِ طعام میں حافظ صاحب کو نہ بلانے پر مسجد میں نماز کاحکم

دارالافتاء شہر مہدپور

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
میں نے مسجد میں مسجد وارجماعت کی دعوت رکھی، اپنے نجی خرچ سے، کسی سے کوئی چندہ وغیرہ نہیں کیا۔ لیکن ایک حافظ صاحب جو دنیادار ہیں، جن کا نہ تو مسجد وارجماعت سے کوئی تعلق ہے، نہ ہی دین داری سے کوئی تعلق ہے،اوراس مسجد کے نمازی بھی نہیں ہیں، دوسری مسجد میں نماز پڑھتے، دکان داری کرتے ہیں، داڑھی بھی شرعی نہیں ہے، صرف برائے نام حافظ ہیں۔ میری ان سے ذاتی ان بن ہے، اس لیے میں نے ان کو دعوت میں نہیں بلایا۔ اب ان کے کوئی رشتہ دار اس بات کا فتنہ کھڑا کررہے ہیں کہ اس مسجد میں نماز نہیں ہوگی جس میں ایک حافظ کو دعوت میں نہیں بلایا۔حضرت میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس بات پر مسجد میں نمازنہیں ہوگی؟
براہ کرم شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
فقط
حاجی محمد شکیل منصوری
شام گڑھ ،ضلع:مندسور
(ایم پی)

*الجواب حامدا و مصلیا و مسلماامابعد*

صرف دعوتِ طعام میں نہ بلائے جانے کی وجہ سے یہ کہنا کہ اس مسجد میں نماز نہیں ہوگی؛ بے دلیل اور بے سند بات ہے، ایسا کہناغلط ہے۔ (1)
البتہ پیش آمدہ معاملے کے تعلق سے شرعی ہدایات کو سمجھنا ضروری ہے۔
تبلیغی جماعت کے 6؍ نمبرات کی محنت میں اکرامِ مسلم اور احترامِ علماء بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ اکرامِ علماء و فضیلت میں جزوی لحاظ سے حفاظِ قران بھی شریک ہیں۔(2)
بعض موقعوں پرعام لوگ عالم کو "حافظ صاحب” اور حافظ کو "عالم صاحب” کہہ دیتے ہیں۔ اور مدھیہ پردیش کے کچھ علاقوں میں ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ عالم کے لیے مخصوص "مولانا”لقب سےدینی وضع قطع والوں کو بھی پکاراجاتا ہے ۔جب کہ انہیں "مولانا” کے بجائے احترام کے ساتھ ان کے نام سے پکارنا چاہیے اورعالم کو "مولانا صاحب ” اور حافظ کو "حافط صاحب” کہنا چاہیے۔(3)
جو لوگ صرف حافظِ قرآن ہوتے ہیں وہ بالعموم شرعی احکام ومسائل کو تفصیل کے ساتھ نہیں جانتے ہیں اور لاعلمی کی وجہ سے بہت ساری ایسی کوتاہیاں اور غلطیاں وہ کرتے ہیں جو غیرحافظ شخص کرتا ہے۔
اس لیے ان کی کاروباری مصروفیات اور چھوٹی موٹی کمزوریوں کی وجہ سے ان سے اس قدر بدظن نہیں ہونا چاہیے۔(4)
بعض حالات میں ایسے حفاظ کی اصلاح میں جماعت کے چھے نمبرات کافی مؤثر و مفید ہوتے ہیں۔ اس لیے جماعت کے چھے نمبرات کے دائرے میں ان کی بھی اصلاح کی کوشش کی جانی چاہیے۔
تبلیغی جماعت کے نظام کے تحت مسجدوں میں جو کھانے کی دعوتیں کی جاتی ہیں وہ سنت سے ثابت ہیں۔
"وانذرعشیرتک الاقربین” آیت نازل ہونے کے بعد حضرت رسول اللہﷺ نے خاندان و قبیلہ کے لوگوں کو دین کی طرف بلانے کے لیے تین مرتبہ اپنے گھر پرکھانے کی دعوت دی، جب تیسری مرتبہ کھانے کے لیے بلایا تو کھانے سے فراغت کے بعد آپ نے انہیں ایمان واسلام کی دعوت دی۔ (5)
اس سنت اورجماعت کے اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے تبلیغی جماعت کے نظام کے تحت محلہ اور پاس پڑوس کے ایسے حفاظ کو بھی مسجد میں کھانے کی دعوتوں میں بلاناچاہیے۔ تاکہ ان کی بھی دینی رہنمائی اور اصلاح ہوسکے۔
کیوں کہ جماعت کے نظام کے تحت مسجدوں میں جو کھانے کے انتظامات ہوتے ہیں وہ صرف محلے میں جماعت کے نام پر کام کرنے والے افراد کے لیے نہیں بلکہ جولوگ مسجد و دین سے دور ہیں، ان کو مسجد و دین سے جوڑنے کے لئے سنت واصولِ جماعت کے مطابق کھانے پینے کی دعوتیں کی جاتی ہیں۔ اس زمرے میں وہ حفاظ بھی داخل ہیں جو دینی کاموں میں تساہلی و کمزوری کا شکار ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے اندر کوئی کمزوری دیکھتے تو اس کی اصلاح کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کا طریقہ ایسا ہوتا تھا کہ: اس کا نام لیے بغیر مجمع میں اصلاح اور تنبیہ فرماتے، جس سے اس کی اصلاح ہوجاتی اور ساتھ ہی وہ سبکی و رسوائی سے محفوظ رہتا ۔ (6)
اگر محلے میں کوئی شخص اخلاقی ودینی لحاظ سے کمزور ہے اور اس کی دینی کمزوری و کوتاہی کی وجہ سے جماعت کی دعوتِ طعام میں اس کو نہ بلایا جائے۔ تو یہ جہاں جماعت کے اصول کے خلاف ہوگا وہیں خلاف سنت بھی ہے۔ اس طرح متروک شخص اخلاقی ودینی کمزوری کے لیے بدنام ہوسکتا ہے؛ اس لئے تبلیغی جماعت کے نظام کے تحت جو کھانے کی دعوتیں کی جاتیں ہیں وہ اسی صورت میں باعثِ ثواب
سنت کے مطابق ہوں گی جب ان دعوتوں کے ذریعے دین سے دور لوگوں کو دین سے جوڑنا مقصود ہو۔ جو کھانے کی مجلس مسجد میں منعقد کی گئی وہ ٹھیک تھی، لیکن ذاتی رنجش واختلاف یا یا اخلاقی ودینی کمزوری کی بنیاد پر کسی متعین شخص کو نظر انداز کر دینا تبلیغی جماعت کے اصول اور سنت کے خلاف ہے۔بریں بنا جب مسجد میں تبلیغی جماعت کے نظام کے تحت کھانے کا نظم ہو تو خواہ ذاتی خرچ سے انتظام کیا گیا ہو یا مشترکہ پنچایتی نظام سے انتطام ہواہو، اس میں کسی ایک مسلمان کو اس کی دینی و اخلاقی کمزوری یا ذاتی رنجش کی بنا پر نظر انداز کرنے سے ہونے والی بدنامی کی وجہ سے اس شخص کے اندر ضد پیدا ہو کر اختلافات بڑھ سکتے ہیں اور اس کے اندر دین سے مزید دوری پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لیے مساجد کمیٹیوں اور تبلیغی جماعت کے رفقاء کو ایسی دعوتوں اور مجالس کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔
اگرحافظ صاحب کے اندر فسادو اختلاف کی خُو زیادہ ہے اور اصلاح کی تمام تدبیریں ناکام ہوجائیں، دعوت میں ان کو بلانے سے فتنہ وفسادکا اندیشہ ہو تو مسجد کمیٹی یاجماعت کے نظام کے تحت باہم مشورہ کے بعد دعوت طعام میں کسی کو بلانے نہ بلانے کا فیصلہ لیاجائے۔(7)
اورایسا ہرگز نہیں ہوناچاہیے کہ مسجد جوکہ مرکزِ اتحاد ہے وہاں کے اجتماعی نظام میں کوئی اکیلا شخص دعوت طعام یا کسی مجلس کے ذریعے ذاتی اختلاف کی وجہ سے کسی مسلمان کے مقاطعے یا بائیکاٹ کی کوشش کرے۔
۔(1) عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ،قال :قال رسول اللہﷺ: الصلوۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم برا کان او فاجرا، وان عمل الکبائر۔(سنن ابی داود ج2 ص343 رقم الحدیث،2533)
قال رسول اللہ صلی الله عليه وسلم: صلواخلف کل بر وفاجر، (سنن الدار قطنی، رقم الحدیث 1768، السنن الکبری للبیہقی، رقم الحدیث، 6832)
ولو صلی خلف مبتدع وفاسق فھو محرزا ثواب الجماعۃ (الفتاوی الھندیۃ ج1 ص84)
(2) قال رسول اللہﷺ: لیس من امتی من لم یجل کبیرنا ویرحم صغیرنا ویعرف لعالمنا حقہ۔(مجمع الزوائد ج1ص338)
وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:ان اجلال اللہ اکرام ذی شیبۃ المسلم، و حامل القرآن غیر الغالی فیہ والجافی عنہ، واکرام ذی السلطان المقسط۔ (ابوداود، رقم الحدیث، 4843)
(3)قال رسول اللہﷺ:انزلوا الناس منازلھم (ابوداود، باب فی تنزیل منازلھم، رقم الحدیث، 4202)
(4)و اکثر العلماء علی ان الظن القبیح لمن ظاھرہ الخیر لایجوز۔ (تفسیر قرطبی ج16ص232)
(5) عن ابن عباس ، عن علي بن أبي طالب ، رضي الله عنه ، قال : لما نزلت هذه الآية على رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : ( وأنذر عشيرتك الأقربين واخفض جناحك لمن اتبعك من المؤمنين ) ، قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : ” عرفت أني إن بادأت بها قومي ، رأيت منهم ما أكره ، فصمت . فجاءني جبريل ، عليه السلام ، فقال : يا محمد ، إن لم تفعل ما أمرك به ربك عذبك ربك ” . قال علي ، رضي الله عنه : فدعاني فقال : ” يا علي ، إن الله قد أمرني [ أن ] أنذر عشيرتي الأقربين ، فعرفت أني إن بادأتهم بذلك رأيت منهم ما أكره ، فصمت عن ذلك ، ثم جاءني جبريل فقال : يا محمد ، إن لم تفعل ما أمرت به عذبك ربك . فاصنع لنا يا علي شاة على صاع من طعام ، وأعد لنا عس لبن ، ثم اجمع لي بني عبد المطلب ” . ففعلت فاجتمعوا له ، وهم يومئذ أربعون رجلا يزيدون رجلا أو ينقصون رجلا . فيهم أعمامه : أبو طالب ، وحمزة ، والعباس ، وأبو لهب الكافر الخبيث . فقدمت إليهم تلك الجفنة ، فأخذ رسول الله – صلى الله عليه وسلم – منها حذية فشقها بأسنانه ثم رمى بها في نواحيها ، وقال : ” كلوا بسم الله ". فأكل القوم حتى نهلوا عنه ما يرى إلا آثار أصابعهم ، والله إن كان الرجل منهم ليأكل مثلها . ثم قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : ” اسقهم يا علي ” فجئت بذلك القعب فشربوا منه حتى نهلوا جميعا ، وايم الله إن كان الرجل منهم ليشرب مثله . فلما أراد رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أن يكلمهم ، بدره أبو لهب إلى الكلام فقال : لهد ما سحركم صاحبكم . فتفرقوا ولم يكلمهم رسول الله – صلى الله عليه وسلم – . فلما كان الغد قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : ” يا علي ، عد لنا بمثل الذي كنت صنعت بالأمس من الطعام والشراب ; فإن هذا الرجل قد بدرني إلى ما سمعت قبل أن أكلم القوم ” . ففعلت ، ثم جمعتهم له ، فصنع رسول الله – صلى الله عليه وسلم – كما صنع بالأمس ، فأكلوا حتى نهلوا عنه ، وايم الله إن كان الرجل منهم ليأكل مثلها . ثم قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : ” اسقهم يا علي ” . فجئت بذلك القعب فشربوا منه حتى نهلوا جميعا . وايم الله إن كان الرجل منهم ليشرب مثله .فلما أراد رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أن يكلمهم بدره أبو لهب بالكلام فقال : لهد ما سحركم صاحبكم . فتفرقوا ولم يكلمهم رسول الله – صلى الله عليه وسلم – فلما كان الغد قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – : ” يا علي ، عد لنا بمثل الذي كنت صنعت لنا بالأمس من الطعام والشراب ; فإن هذا الرجل قد بدرني إلى ما سمعت قبل أن أكلم القوم ” . ففعلت ، ثم جمعتهم له فصنع رسول الله – صلى الله عليه وسلم – [ كما صنع ] بالأمس ، فأكلوا حتى نهلوا عنه ، ثم سقيتهم من ذلك القعب حتى نهلوا عنه ، وايم الله إن كان الرجل منهم ليأكل مثلها ويشرب مثلها ، ثم قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: ” يا بني عبد المطلب ، إني – والله – ما أعلم شابا من العرب جاء قومه بأفضل مما جئتكم به ، إني قد جئتكم بأمر الدنيا والآخرة ".( تفسیر بن کثیر۔ سورہ شعرا آیت 214)
(6) وینبغی للامر بالمعروف والناھی عن المنکر ان یرفق لیکون اقرب الی تحصیل المطلوب، فقدقال الامام الشافعی: من وعظ اخاہ سرا فقد نصحہ وزانۃ ، ومن وعظ علانیۃ فقد فضحہ وشانہ، (شرح النووی علی مسلم ج1 ص 51)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: مابال اقوام یرغبون عما رخص لی فیہ؟ ( مسلم برقم الحدیث، 2356) قال النووی تحت ھذا الحدیث: وفیہ حسن المعاشرۃ بارسال التعزیر والانکارفی الجمع، ولا یعین فاعلہ، فقال: مابال اقوام، ونحوہ۔ ( المناھج شرح صحیح مسلم مکمل۔ برقم الحدیث فی الشرح 1442تحت رقم الحدیث، 2356)
(7) ھل یکرہ رفع الصوت بالذکر والدعا، قیل: نعم ،مما صح عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ:انہ اخرج جماعۃ من المسجد یھللون ویصلون علی النبی ﷺجھرا، وقال لھم مااراکم الامبتدعین۔ (الدرالمختارمع الردالمحتار ج9ص570زکریا)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: (مفتی) محمد اشرف قاسمی

[email protected]
۱۰؍ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ
30؍ اگست 2020ء

تصدیق:
*(مفتی) محمد سلمان ناگوری*
ناقل:
*(مفتی) محمد توصیف صدیقی*
(معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور)

Comments are closed.