حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری کی وفات حسرت آیات سے ہندوستان کے ایک شاندار علمی سلطنت کا خاتمہ ۔ محمد شاہد الناصری الحنفی ۔ مدیر ادارہ دعوت السنہ مہتراشٹرا

حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری کی وفات حسرت آیات سے ہندوستان کے ایک شاندار علمی سلطنت کا خاتمہ ۔
محمد شاہد الناصری الحنفی ۔
مدیر ادارہ دعوت السنہ مہتراشٹرا۔
اردو قارئین کو اس حادثئہ جانکاہ کی خبر مل چکی ہوگی کہ روایات سلف کے محافظ وامین اورعصرحاصر کے عظیم متواضع فقیہ ومتبحر عالم دین حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری نے بھی بالآخر اپنی جان جان آفریں کے زبان حال سے یہ کہتے ہوئے سپرکردی کہ ۔
جان ہی دے دی جگر نے آج کوئے یارپر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
آہ ۔ کیا نظام عالم ہے کہ کسی پل اس کو استحکام و استقرار اوردوام حاصل نہیں بلکہ یہ ہمہ وقت رواں دواں ہے ۔
کو ئ آرہاہے توکوئ جارہا ہے جس میں کسی انسان کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ ثبات وقرار صرف اسی یکتا وبے نظیر وبے مثیل ذات باری کو ہے جس نے اپنے بارے میں خود ارشاد فرمایا ہے
الا یعلم من خلق وھو الطیف الخبیر ( سورئہ ملک )
اس کا حکم نافذ ہوا اور اوراس کے خلیفہ اوراس کے محبوب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اس کے قرآن وسنت کے شارح مفسر محدث اورفقیہ مولانا محمد قاسم مظفر پوری اپنی حیات مستعار کی مشغولی کو سمیٹ کر اپنے رب کے بارگاہ میں حاضر ہوگئے ۔
ابھی چندروز پہلے ہی تو اس خاکسارنے جب مولانا کی حالت بہت غیر تھی تو دعائے صحت کی درخواست کی تھی احباب سے مولانا کی طرف سے صدقات نکالنے کی بھی ترغیب دی تھی اوربرابر عزیزم مولانا اسرار مظاہری پاکٹولوی سے خبرخیریت بھی لے رہاتھا اورانہوں نے غالیا 25 اگست کو یہ مسرت کن اطلاع بھی دی تھی کہ مولانا الحمداللہ اب بستر علالت سے اٹھ کر بستراستراحت پر گھر میں آچکے ہیں ہم لوگوں نے اللہ کاشکر اداکیا
مگر پھر اسی اللہ کا حکم ملک الموت نے مولانا محمد قاسم کو آکر گوش گذار کیا کہ
ارجعی الی ربک راضیتہ مرضیہ الخ
توپھر کس کو اختیارہے کہ آہ وفغاں کرے یاحکم عدولی کرے بلکہ اس موقع پر بھی حکم ربانی کی تعمیل میں اپنی اپنی موت کا استحضار کرنے میں ہی بھلائ ہے کہ کسی درجے میں جزوقتی ہی سہی یہ ھاذم الذات تو ہوگاہی اوردنیا ئے بے ثبات کی حقیقت سے تو ہم مزید آشنا ہی ہوں گے جو ہم زندوں کیلئے ازدیاد عمل بالطاعات بنے گا سو ہم نے بھی مولانا کے انتقال پر صبر کو افضل واولی جانا ۔
واقعہ یہ ہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری پر ایک علمی عہد کا خاتمہ ہوگیا
ایسا علم جس کا تعارف قرآن نے علم کے باب میں الراسخون سے کیا ہے ۔ چناں چہ مولانا مرحوم جس طرح رسوخ علوم فی القرآن والحدیث میں ممتاز تھے اسی طرح اپنی بے نظیر سادگی تقوی خشوع وخضوع فی العبادات اور خاکساری میں بھی اس زمانے میں جہاں دوسرے اہل علم کے اندر خود نمائ وخود ستائ وخود رائ در آئ ہے مولانا مرحوم طاق تھے اور اس کو ناپسند فرماتے تھے ۔
مولانا اشتغال علم خدمت خلق اوراصلاح معاشرہ کا کام کرتے کرتے بہت تھک چکے تھے مگر ان کا عزم ان کا دل جوان تھا ان کی گفتگو سے بھی تعب یا تھکن نہیں جھلکتا تھا مگر شب وروز کی ان کی مشغولیات کہ صبح کہیں دوپہر کہیں شام کہیں کے مشاغل سے اہل احساس پر یہ باور ہوجاتا کہ مولانا اب بہت تھک چکے قوی مضمحل ہورہے ہیں مگر ان سب پر ان کا تبسم اوران کے بے مثال صبروشکر اورحلم کی کیفیت کا اس طرح غلبہ رہتا کہ وہ اس تھکاوٹ کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کے والد مرحوم جناب معین الحق صاحب کوئ عالم وفاضل نہیں تھے مگر وہ دیندارتھے علم اورعلماء کے قدردان تھے اس لئے اس کا اثر یہ ہوا کہ ان کا فرزند ملک اور اپنے علاقے کا ایک عظیم فرزند اوربڑا عالم دین بن کر منظر عام پر آیا ۔
مولانا محمد قاسم صاحب کا ہندوستان کے علمی اداروں اور کبار علماء سے بھی خصوصی تعلق رہا ۔
مولانا کا سب سے گہرا رشتہ ہرسنگھ پور سے رہا جو جامع العلم والعرفان قطب الاقطاب حضرت مولانا محمد عارف صاحب ہرسنگھ پوری قدس سرہ خلیفہ اعلی حضرت گنج مرادآبادی و قطب عالم حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رح۔ کا مسکن تھا ۔
ان کے بڑے صاحبزادے قطب ربانی حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب قدس سرہ ہرسنگھ پوری کے کشف وکرامات اوران کےاعمال تمسک بالسنتہ سے بہت متاثر تھے اوربرابر اس کا ذکر بھی فرماتے تھے ۔
حضرت ہرسنگھ پوری رح کے ساتھ دعوت وارشاد کیلئے آپ ان کے ساتھ سفر بھی فرماتے تھے ۔
وہ میرے والد ماجد شیخ القرآن حضرت مولانا قاری محمد ابوعمر ناصری قاسمی قدس سرہ کے رفقاء درس میں تھے اورتازندگی حضرت والد صاحب قدس سرہ اوران کے درمیان والہانہ اورمخلصانہ اخوت ومودت اورمحبت کا رشتہ رہا۔
والد صاحب رح مدرسہ عارفیہ سنگرام اوراپنے حلقئہ ارادت وتعارف میں مولانا قاسم صاحب رح کا بیان کرواتے اورلوگوں سے اپنے نزاعی معاملات میں مولانا کی طرف رجوع ہونے کا حکم فرمایا کرتے تھے
ہرسنگھ پور کے بعد آپ خانقاہ رحمانی سے بھی بہت متاثر تھے امیرشریعت حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی قدس سرہ خلیفہ حضرت قطب الاقطاب ہرسنگھ پوری سے خصوصی تعلق تھا اورانہوں نے آپ کی صالحیت وصلاحیت کے پیش نظر دربھنگہ ضلع کے دارالقضاء واقع مدرسہ رحمانیہ سوپول بیرول کا قاضی مقرر فرمایاتھا
فقیہ الامت حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمت اللہ علیہ سے خصوصی رفاقت حاصل تھی اوران کا بہت اعتماد حاصل تھا ۔
اسی طرح امارت شرعیہ سے فطری اورقلبی تعلق تھا وہ مفکراسلام ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد علیہ الرحمتہ کی فکر سے بہت متاثر تھے اسی لئے امارت اورامارت کے تمام اکابر کے مولانا منظور نظر رہے ۔
حالیہ سابق امیرشریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب مرحوم سے بھی مولانا کا گہرا ربط تھا ۔ اور وہ آپ کے علم وتفقہ پر حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی رح کے بعد مرجع قراردیتے تھے ۔
الغرض مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری ایسے عہد ساز باکمال انقلاب آفریں جامع الکمالات شخصیت کا نام ہے جن کے ابواب حیات کے اتنے درخشاں پہلو ہیں کہ
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کیلئے ۔
دعا ہے کہ اللہ پاک مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ان کے حسنات کو قبول فرمائے اوران کے پسماندگان کو صبر جمیل مرحمت فرمائے آمین
ذیل میں اپنی معلومات کی حدتک ان کا مختصر سوانحی خاکہ ملاحظہ فرمائیں
مختصر سوانحی خاکہ
نام :(حضرت مولانا) محمد قاسم صاحب مظفر پوری
والد ماجد :جناب معین الحق صاحب
مولود :1937
وطن :مادھوپور، ڈاکخانہ :انگواں، وایا ججوارہ، ضلع :مظفرپور بہار
تعلیم
ابتدائی :خانگی
متوسطات :مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ بہار
اساتذۂ کرام :حضرت مولانا عبدالجبار صاحب مونگیری، حضرت مولانا مقبول احمد خان صاحب
مدرسہ امدادیہ لہیریا سرائے دربھنگہ
اساتذۂ کرام :حضرت مولانا قاری محمد احسن صاحب نستوی ۔حضرت مولانا ریاض احمد صاحب چمپارنی، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب، حضرت مولانا محی الدین صاحب. حضرت مفتی عبدالحفیظ صاحب سیدھولی ۔
عالمیت و فضیلت :دارالعلوم دیوبند فراغت :1957
حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب و حضرت مولانا شیخ فخرالدین صاحب مراد آبادی.
تدریس :مدرسہ امدادیہ لہیریا سرائے دربھنگہ بہار. 1/سال
مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ. 46 سال
عہدے اور ذمہ داریاں
ناظم :مدرسہ طیبہ منت نگر مادھوپور، انگواں، ججوارہ، مظفرپور بہار
رکن :مسلم پرسنل لا بورڈ
رکن مجلس عاملہ و شوریٰ و قاضی شریعت :امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
رکن :اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی
سرپرست :مختلف دینی مدارس و ادارے
تالیفات
1.رشتہ داروں کا احترام کیجئے اور یتیموں کا اکرام کیجئے
2. بینک سے متعلق چند مسائل
3.مسجد کے آداب اور اس کے احکام
4.مکاتیب رحمانی
5.تذکرہ عثمان
6.رہنمائے قاضی
7.رہنمائے مفتی زیر طبع
8.قرآنی سورتوں کا تعارف زیر طبع
Comments are closed.