جنگ بندی کا استعماری فریب: مزاحمت کے گرد گھیرا

✍۔مسعود محبوب خان (ممبئی)

09422724040

 

اُمّتِ مسلمہ اس وقت تاریخ کے ایک نازک ترین مرحلے سے گزر رہی ہے، جہاں ہر طرف آگ اور بارود کی بو، مظلوم بچّوں کی چیخیں، ماؤں کے بین، اور معصوموں کے بہتے ہوئے خون سے آسمان گواہ بن چکا ہے۔ فلسطین، بالخصوص غزہ، صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ اُمّت کے ضمیر کا وہ زخمی ٹکڑا ہے، جس پر ہر بار ظلم کی ضرب پڑتی ہے تو پوری ملّتِ اِسلامیہ کا دل لہو لہان ہوتا ہے۔ استعماری قوتیں بظاہر امن و انسانی ہمدردی کے علمبردار بنتی ہیں، مگر عملاً وہی قوتیں مسلم عوام کے خلاف استبداد، فریب، اور ظلم کا نیٹ ورک چلاتی ہیں۔ ایسے میں مزاحمت کرنے والی قوتیں، خواہ وہ حماس ہو یا دیگر اسلامی تنظیمیں، محض عسکری ادارے نہیں بلکہ ملّت کی غیرت و حمیت کا علامتی استعارہ ہیں۔

 

جب دشمن مذاکرات کی میز سجاتا ہے اور امن کی بات کرتا ہے، تو ہمیں تاریخ کے آئینے میں جھانک کر دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا یہ واقعی صلح کی کوشش ہے یا صرف نئی چال کا آغاز۔ رسول اللّٰہﷺ نے حدیبیہ میں بھی صلح کے ہر لفظ کو اس کی روح کے مطابق جانچ کر اُمّت کو حکمت، بصیرت اور استقامت کا درس دیا۔ آج کے حالات میں بھی یہی درکار ہے کہ ہم امن کے نام پر پیش کی جانے والی ہر "پیشکش” کو اس کی اصل نیت، پوشیدہ اہداف، اور ممکنہ اثرات کی روشنی میں پرکھیں۔

 

جنگ بندی کا اعلان یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی زخمی پرندے کو پنجرے میں بند کرکے کہا جائے کہ ہم نے اسے "محفوظ” کر دیا ہے مگر اصل مقصد یہ ہو کہ وہ دوبارہ اُڑان نہ بھر سکے۔ درحقیقت، موجودہ جنگ بندی کی تجویز کو محض ایک "انسانی اقدام” سمجھنا خودفریبی ہوگی، جب تک ہم اسے استعمار کے دیرینہ عزائم، جغرافیائی و نظریاتی تسلّط، اور مسلم مزاحمت کو ختم کرنے کی مسلسل کوشش کے تناظر میں نہ دیکھیں۔ یہ محض بندوقوں کی خاموشی نہیں، بلکہ ایک ایسی چالاکی سے بُنی گئی خاموشی ہے جو بہت کچھ کہتی ہے۔ بس اسے سننے کے لیے اُمّت کو بیدار ضمیر، گہرا شعور اور مضبوط ایمان درکار ہے۔

 

تاریخ کے صفحات اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ سامراجی قوتیں جب بھی امن کا پرچم بلند کرتی ہیں، اس کے پیچھے مفادات کی بھیانک گونج چھپی ہوتی ہے۔ آج جب امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ثالثی سے غزہ میں ممکنہ 60 روزہ جنگ بندی کی بات کی جارہی ہے، تو یہ کوئی سادہ سی سفارتی پیش رفت نہیں بلکہ تہہ در تہہ سازشوں کا ایسا جال ہے جس میں طاقتور فریق اپنے مفادات کے تحفّظ اور کمزوروں کی مزاحمتی قوت کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

 

بظاہر یہ جنگ بندی انسانی ہمدردی، امن پسندی اور خیر سگالی کا مظہر دکھائی دیتی ہے، مگر درحقیقت اس کے پس پردہ سیاسی تدبر، عسکری منصوبہ بندی اور سفارتی چالاکی کی ایک پیچیدہ بساط بچھی ہوئی ہے۔ یہ کوئی خالص انسانی اقدام نہیں، بلکہ ایک ایسی منظم حکمت عملی کا حصّہ ہے جس کا مقصد امریکہ اور اسرائیل کے علاقائی تسلط کو مضبوط کرنا، عالمی سطح پر مجروح ساکھ کو مرمت کرنا، اور طویل المدتی مفادات کو نئی توانائی بخشنا ہے۔ یہ جنگ بندی، دراصل امن کی نہیں بلکہ طاقت کے توازن کو ازسرنو ترتیب دینے کی ایک خاموش کوشش ہے، جس میں الفاظ نرم اور عزائم سخت ہیں۔

 

امریکہ کے مفادات:

 

عالمی ساکھ کی بحالی کا ڈھونگ: عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کی پشت پناہی کرنے والے امریکہ کو، مسلم دنیا، عالمی رائے عامہ، اور حقوق انسانی کے اداروں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان گویا اس دباؤ سے نجات حاصل کرنے اور اپنے آپ کو "امن کا پیامبر” ظاہر کرنے کی کوشش ہے—حالانکہ زمینی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

 

داخلی سیاسی ضروریات: امریکی انتخابات سر پر ہیں، اور ریپبلکن جماعت خاص طور پر مسلم ووٹ بینک اور نوجوان معتدل طبقے کو مطمئن کرنے کی کوشش میں ہے۔ جنگ بندی کو ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی "کامیابی” قرار دے کر اسے انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 

اقتصادی و جغرافیائی استحکام کی خواہش: مشرق وسطیٰ کی کسی بھی جنگ کا مطلب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اتھل پتھل اور خطے میں امریکی تنصیبات کے لیے خطرات کا بڑھ جانا ہے۔ جنگ بندی دراصل اس غیر یقینی صورتِ حال کو عارضی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش ہے تاکہ عالمی اقتصادیات میں امریکہ کے مفادات محفوظ رہ سکیں۔

 

اسرائیل کے مفادات:

 

اخلاقی زوال سے وقتی بچاؤ: غزہ میں بچّوں، عورتوں، اسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں پر بمباری نے اسرائیل کو اخلاقی طور پر عالمی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ جنگ بندی کی صورت میں اسرائیل کو ایک مہلت ملے گی تاکہ وہ اپنی سفارتی پوزیشن کو دوبارہ سنوار سکے۔

 

عسکری صف بندی اور ازسرنو تیاری: 60 روزہ وقفہ اسرائیلی فوج کو سانس لینے، اسلحہ کی فراہمی اور جنگی منصوبہ بندی کی تجدید کا موقع دے گا۔ یہی وقت اسرائیل کے لیے اگلی جارحیت کی خاموش تیاری کا ہوگا۔

 

اندرونی سیاسی تحفّظ: نیتن یاہو کی حکومت داخلی محاذ پر دباؤ میں ہے۔ جنگ بندی کو ایک حکمت عملی کامیابی کے طور پر پیش کر کے وہ عوامی اعتماد بحال کرنے اور اپنی سیاسی بقاء کو ممکن بنانے کی کوشش کرے گا۔

 

مشترکہ استعماری اہداف:

 

یہ جنگ بندی اسرائیل اور اس کے حلیفوں کے لیے ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے جس کا مقصد حماس کی عسکری و سیاسی حیثیت، اس کے اثر و رسوخ اور اخلاقی برتری کو بتدریج محدود کرنا ہے، تاکہ اسے داخلی و خارجی سطح پر تنہا کیا جا سکے۔ اس دوران ایسی شرائط سامنے لائی جا سکتی ہیں جن میں قیدیوں یا یرغمالیوں کے تبادلے، انسانی امداد کی فراہمی یا محاصرے میں وقتی نرمی جیسے خیرسگالی اقدامات شامل ہوں، لیکن ان کے پس پردہ حماس پر دباؤ ڈالنے اور اسے عسکری سرگرمیوں سے دستبرداری پر مجبور کرنے کی کوشش ہوگی۔ ساتھ ہی، اسرائیل اور امریکہ اس جنگ بندی کو عالمی سطح پر "امن کی کوشش” کے طور پر پیش کر کے سعودی عرب، مصر اور قطر جیسے ممالک کو نرم سفارتی لب و لہجے کے ذریعے قائل کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ خطے میں اسرائیل کی قبولیت (نارملائزیشن) کے عمل کو تقویت دی جا سکے اور مزاحمتی محاذ کو مزید تنہائی کا شکار بنایا جا سکے۔

 

حماس اور مزاحمتی تحریک کے لیے ممکنہ نقصانات:

 

یہ جنگ بندی ایک جانب اسرائیل کے لیے سانس لینے کا وقفہ ہے، تو دوسری جانب حماس کے لیے ایک سنگین خطرے کی گھنٹی۔ اس دوران اسرائیل اپنی فوجی طاقت کو ازسرِ نو منظم کرنے، اسلحہ کی سپلائی بحال کرنے اور آئندہ جارحیت کی تیاری کا نادر موقع حاصل کرے گا۔ ایک زخم خوردہ دشمن جو اپنی ناکامیوں کا تجزیہ کر رہا ہو، وہ آنے والی ضرب کے لیے پہلے سے زیادہ مہلک اور منظم ہو سکتا ہے۔ یہی وقفہ اسرائیل کو حماس کے خلاف مزید مؤثر حکمت عملی وضع کرنے اور گزشتہ جنگی جھٹکوں سے سبق لینے کی مہلت فراہم کرے گا۔ علاؤہ ازیں، حالیہ جنگ میں حماس کی زوردار مزاحمت نے نہ صرف اسرائیل کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو بھی ابھارا اور حماس کی مقبولیت اور اخلاقی برتری کو مزید جِلا بخشی۔ ایسے میں یہ خدشہ موجود ہے کہ جنگ بندی کا ایک پوشیدہ مقصد حماس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ، مقبولیت اور عوامی حمایت کو روکنا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر حماس اس جنگ بندی میں ایسے مطالبات تسلیم کر لیتی ہے جو اس کی مزاحمتی شناخت اور نظریاتی اساس کو کمزور کرتے ہوں، تو یہ اس کے حامیوں میں مایوسی اور بداعتمادی کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ مزاحمت کا جذبہ صرف میدانِ جنگ میں بندوق اٹھانے سے نہیں، بلکہ نظریاتی بیانیے، اصولی استقامت اور عوامی اعتماد سے زندہ رکھا جاتا ہے۔

 

60 دن کی اس جنگ بندی کے دوران اسرائیل اور اس کے حلیف بھرپور کوشش کریں گے کہ غزہ میں حماس کے اندرونی حلقوں میں اختلافات پیدا کیے جائیں، حماس مخالف عناصر کو تقویت دی جائے، اور نفسیاتی جنگ، پروپیگنڈہ اور اقتصادی دباؤ کے ذریعے اس کی مزاحمتی قوت کو کمزور کیا جائے۔ اس وقفے کو ایسی ترغیبی شرائط سے مشروط کیا جا سکتا ہے جیسے انسانی امداد، قیدیوں کا تبادلہ یا محاصرے میں نرمی، جن کے بدلے حماس سے اسلحہ ڈالنے، سرنگوں کے خاتمے یا اسرائیل کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرنے کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی، امریکہ اور اسرائیل اس جنگ بندی کو "امن کی کوشش” کے طور پر پیش کر کے عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کریں گے کہ اگر حماس ان شرائط پر آمادہ نہیں ہوتی تو دراصل وہی امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مزید برآں، اسرائیل کی یہ بھی حکمت عملی ہو سکتی ہے کہ وہ حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں جیسے جہاد اسلامی، حزب اللّٰہ اور ایران کے درمیان خلیج پیدا کرے تاکہ مزاحمتی محاذ میں اتحاد باقی نہ رہے اور اسے آسانی سے منتشر کیا جا سکے۔

 

یہ جنگ بندی بظاہر ایک خیر سگالی اقدام، انسانی ہمدردی یا سیاسی دانشمندی کی جھلک پیش کرتی ہے، لیکن درحقیقت یہ عالمی استعمار کی ایک پیچیدہ چال ہے—ایک دو دھاری تلوار، جس میں وقتی ریلیف تو ممکن ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ سیاسی، عسکری، اخلاقی اور سفارتی سطح پر کئی گہرے نقصانات بھی وابستہ ہیں، اگر حماس نے بصیرت اور احتیاط سے کام نہ لیا۔ یہ دراصل جنگ کا اختتام نہیں بلکہ ایک اور جارحیت کی تیاری کے لیے سیاسی وقفہ ہے، جو دشمن کو سنبھلنے، صف بندی کرنے اور زیادہ منظم وار کے قابل بنانے کا موقع دیتا ہے۔ ایسے میں اسلامی مزاحمتی تحریک کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ وقتی جذبات کے بجائے طویل المیعاد حکمت عملی پر غور کرے، کسی بھی معاہدے میں اپنی نظریاتی اساس اور مزاحمتی وقار کو ہرگز قربان نہ کرے، اور اتحاد، بیداری، دور اندیشی اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھے۔

 

اُمّتِ مسلمہ کے لیے یہ لمحہ فقط تجزیہ کا نہیں بلکہ عمل، وحدت اور بیداری کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھ لینا ہوگا کہ دشمن کے تیر صرف بارود اور بم کی شکل میں نہیں آتے، بلکہ امن، جنگ بندی، سفارت کاری اور انسانی ہمدردی کے پردوں میں بھی لپٹے ہوتے ہیں۔ جو قومیں صرف وقتی مفادات اور سطحی بیانات پر بھروسہ کرتی ہیں، وہ تاریخ کے طوفانوں میں بہہ جاتی ہیں۔ لیکن جو قومیں اپنے نظریے، مزاحمت، اور اصولی وقار سے جُڑی رہتی ہیں، وہی نہ صرف زندہ رہتی ہیں بلکہ دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جاتی ہیں۔

 

فلسطین کی مٹی آج ہمارے ایمان، غیرت، اتحاد اور اجتماعی شعور کا امتحان لے رہی ہے۔ یہ صرف حماس کی آزمائش نہیں بلکہ پوری اُمّتِ مسلمہ کی آزمائش ہے کہ وہ ظلم کے خلاف کہاں کھڑی ہے، حق کے ساتھ کیسے جُڑی ہے، اور مزاحمت کی راہوں کو کتنی گہرائی سے سمجھتی ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جنگیں صرف میدانوں میں نہیں، اذہان میں بھی لڑی جاتی ہیں، اور استعمار کی اصل کوشش یہی ہے کہ مزاحمت کی سوچ، جذبے اور یکجہتی کو شکست دی جائے۔

 

لہٰذا، موجودہ جنگ بندی کے سیاسی پردے میں جو خنجر چھپا ہے، اسے پہچاننا اور اس سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا اُمّت کی فکری و عملی بقاء کے لیے ناگزیر ہے۔ اُمّت کو چاہیے کہ وہ محض جذبات سے نہیں بلکہ بصیرت، تدبر، اور عزمِ استقامت کے ساتھ دشمن کی ہر چال کا جواب دے۔ فلسطین کی آزادی اور اُمّت کی عزّت و وحدت کا راستہ آسان نہیں، مگر یہی وہ راستہ ہے جو انبیاء نے دکھایا، شہداء نے چنا، اور مومنین نے اپنایا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے جاگیں، مزاحمت کو کمزوری نہیں بلکہ عزّت سمجھیں، اور استعماری امن کی پیشکشوں کو حکمت، اتحاد اور ایمان کے چراغ سے پرکھ کر رد یا قبول کریں۔ کیونکہ بسا اوقات خاموشی امن نہیں، ایک آنے والے طوفان کی پیش خیمہ ہوتی ہے۔

Comments are closed.