وشو گرو: کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

(گزشتہ سے پیوستہ )
ڈاکٹر سلیم خان
وطن عزیز میں ذات پات کے مسئلہ کو عملی اصلاحات کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اوپر اوپر کچھ نمائشی تبدیلیاں تو ہوجاتی ہیں مگر اندر کی خرابی باقی رہتی ہے کیونکہ اس کی بنیاد میں کارفرما عقائد کو نہیں چھیڑا جاتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندو دھرم میں موجودشرک و تناسخ کے مقابلے توحید و آخرت کا عقیدہ جب تک پروان نہیں چڑھےگا یہ مسئلہ جڑ سے نہیں اکھڑے گا۔ اس میں شک نہیں کہ صلاحیت ، مواقع، معاشی لحاظ سے لوگوں کے درمیان فرق ہے اور مصنوعی طور پر اسے مٹانے کی کوشش میں سوویت یونین خود ختم ہوگیا مگر خودروس کے اندر بھی وہ خلیج مزید وسیع ہوگئی ہے۔ وہاں پر فرق کی بنیادی وجہ جاننے کی زحمت کرنے بجائے ریاست کی طاقت کے زور سےمساوات قائم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اشتراکی نظرئیے کی ناکامی کا بنیادی سبب ایک غیر حقیقی ہدف تھا جو اسے لے ڈوبا ۔
اس بابت ہدایتِ قرآنی یہ ہے کہ:’’ ۰۰۰دنیا کی زندگی میں اِن کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے اِن کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور اِن میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور تیرے رب کی رحمت اُس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (اِن کے رئیس) سمیٹ رہے ہیں‘‘۔ مذکورہ بالا آیت میں معاشی فرق کی حکمت اور دیگر نعمتوں کی اہمیت کا احساس دلایا گیا ہے۔ یہاں یہ حقیقت اجاگر کی گئی ہے کہ ان مادی نعمتوں سے افضل رحمت الٰہی اس دنیا میں عزت و وقار کے ساتھ اطمینان و سکون کی زندگی اور آخرت کی ابدی کامیابی ہے ۔ اسی آیت میں معاشی فرق کی یہ حکمت بھی بتائی گئی ہے کہ اس کے سبب لوگ ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ خدمت کرنے والا ہی نہیں بلکہ لینے والا بھی اپنے خادم کا محتاج ہوتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے روزمرہ کے کاموں میں خدمت کرنے والے کا دوسروں پر احتیاج نسبتاً کم ہوتا ہے۔
مادی تفاوت کو کم سے کم کرنے کی خاطر دین اسلام نہ صرف زکٰوۃ و انفاق کو رواج دیتا ہے بلکہ یہ اہل ثروت کے فکر میں وہ انقلاب برپا کرتا ہے جو ازخود انہیں انفاق فی سبیل کی ترغیب دیتا ہے۔ دنیوی وسائل کے حامل لوگوں کو قرآن حکیم میں اس حقیقت سے آشکار کیا گیا ہے کہ :’’اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں (امانتاً) عطا کر رکھی ہیں‘‘۔ اسلامی عقیدے کے مطابق یہ مادی وسائل امانت و آزمائش ہیں اور اس میں خیانت کرنے والوں کو خبردار کیا گیا کہ : ’’بیشک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے ‘‘نیز فرمانبرداروں کو بشارت دی گئی ہے کہ :’’ بیشک وہ بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا بھی ہے‘‘۔ انسانی معاشرے میں معاشی تفاوت کے مقابلے سماجی تفریق و امتیاز زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے ۔ اس بابت قرآنی رہنمائی یہ ہے کہ :’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے‘‘۔
انسانی مساوات کے اس عالمی پیغام نے دنیا کے سارے انسانوں کو اولادِ آدم کی حیثیت سے ایک خاندان کا فرد بنا دیا ۔ ان کے درمیان پائے جانے والے ظاہری فرق کی بابت بتایا گیا کہ :’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم)کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘ یعنی یہ فرق تذلیل و تحقیر کے لیے نہیں بلکہ شناخت بھر کے لیے ہے۔ اسی کے فضیلت کی یہ کسوٹی فراہم کی گئی کہ :’’ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو، بیشک اللہ خوب جاننے والااور خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ نبیٔ کریم ﷺ نے بھی حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے خطبے میں فرمایا:’’اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، سنو کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر سوائے تقویٰ‘‘۔ پرہیزگاری و خداخوفی دل کی ایسی کیفیت ہے کہ جسے ناپا تولہ نہیں جاسکتا ۔ اس کا علم صرف خدا کو ہے کہ کون کتنا متقی ہے؟اس لیے پرہیزگاری کے معاملے مسابقت کی سعی تو ہونی چاہیے مگر کبر تقویٰ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ کسی کے پاس اس کا علم ہی نہیں ہے۔ تقویٰ و پرہیزگاری کے میدان میں مسابقت سے دیگر لوگوں کی حق تلفی نہیں ہوتی بلکہ ان کو بلا کشمکش اپنے حق سے زیادہ ملتا ہے۔
معاشرے میں تفریق و امتیاز کے سبب ایک طبقہ دوسرے کی تذلیل کرتا ہے کو ئی کسی پر پیشاب کردیتا ہے تو کوئی زیر جامہ تلاشی لینے لگتا ہے مگر دین اسلام میں تضحیک و تذلیل تو دور معمولی مذاق کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ فرمانِ خداوندی ہے:’’اے ایمان والو! نہ تو مردوں کی کوئی جماعت دُوسرے مردوں کی کسی جماعت کامذاق اُڑائے، کیا عجب ہے کہ جو لوگ مذاق اُڑارہے ہیں اُن سے وہ لوگ بہتر ہوں جن کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، یہ ممکن ہے کہ جو عورتیں ہنسی اُڑانے والی ہیں، اُن سے وہ عورتیں بہتر ہوں جن کی ہنسی اُڑائی جارہی ہے اور نہ آپس میں ایک دُوسرے کو طعنہ دیا کرو اور نہ ایک دُوسرے کو برے لقب سے پکارا کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق کا نام بہت برا ہے اور جو توبہ نہ کریں گے تو وہی لوگ ظلم کرنے والے ہوں گے۔‘‘ اس طرح دیگر قوموں کے تذلیل و تحقیر کی بیخ کنی کردی گئی ہے۔
عصرِ حاضر کے ہندوستان میں ذات پات کی لڑائی لگا کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دین اسلام میں اس کی سخت ممانعت ہے بلکہ افراد یا گروہوں کے درمیان اختلاف اور جھگڑے کی صورت دونوں فریقوں کے درمیان صلح کرانے کاحکم دیا گیاہے۔ ارشادِ خداوندی ہے : ’’ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، تم اپنے بھائیوں میں صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ‘‘ یہ معاملہ صرف اہل ایمان تک محدود نہیں ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے نبوت سے قبل حلف الفضول نامی معاہدے میں شرکت کرکے غیر مسلم قبائل کے درمیان صلح صفائی کرائی تاکہ سماج میں قبائلی دشمنی کا خاتمہ کرکے قتل و غارتگری پر لگام لگائی جاسکے۔ مدینہ منورہ کے اندر بھی آپ ﷺ نے مختلف قبائل کے ساتھ امن و آشتی کا معاہدہ کیا ۔ اس سے مختلف قبائل کے بیچ بھائی چارہ بڑھا اور باہمی اعتماد پیدا ہوا۔ نبیٔ پاک ﷺ نے صلح صفائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :کیامیں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ ضرور بتائیے۔ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں ناراض لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے‘‘۔
ذات پات کی تفریق کے علاوہ سماج میں جنس کی بنیاد پر بھی بھید بھاو ہوتا ہے۔ اس کو ختم کرنے کی خاطر قرآن مجید کی ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ : ’’جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔‘‘ یعنی اخروی فلاح کے معاملے میں مردو عورت کے اجر و ثواب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نہایت تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا کہ:’’بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے‘‘ ۔ اسی طرح باپ پر ماں کی فضیلت اور بیٹی کے ساتھ حسن سلوک کی بے شمار ترغیب دین اسلام کا امتیاز ہے۔
ذات پات کی بنیاد پرغیر انسانی اعمال کا جواز فراہم کرنے کی خاطر توحید کے بجائے شرک کو فروغ دے کر برہمنوں کو پرستش کے قابل بنادیا گیا ۔ اس باطل عقیدے کو مضبوط تر کرنے کی خاطر تناسخ کا عقیدہ گھڑا گیا جس کے مطابق اس جنم میں شودر اپنے پچھلے جنم کے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ ایسے اس کی مدد کرنا تو دور ہمدردی کرنا بھی معیوب ہو جاتا ہے۔ اس عقیدے کے مطابق ایک مظلوم کے لیے سماج میں اپنی حیثیت بحال کرنے کی خاطر اس جنم میں نام نہاد اعلیٰ ذات کےلوگوں کی خدمت کرکے اسے اپنا اگلا جنم سنوارنے کے سوا کوئی اور سبیل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرنے سے قبل کوئی ذات پات کے جنجال سے نکل ہی نہیں سکتا ہے اسی لیے یہ محاورہ بن گیا کہ ’ذات نہیں جاتی‘ یہاں تک کہ انسان اس جہانِ فانی رخصت ہوجاتا ہے عقیدۂ آخرت ہی اس بیماری کا علاج ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:’’اور یہ لوگ کہتے ہیں: "جب ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے؟” اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ اِن سے کہو "موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تم کو پورا کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا اور پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا لائے جاؤ گے” سچائی یہی ہے کہ توحید و رسالت کے ساتھ آخرت کا عقیدہ اپنائے بغیرکوئی بھی معاشرہ تفریق امتیاز کا ناسور سے چھٹکارہ نہیں پاسکتا۔ وطن عزیز میں وشوگرو(عالمی رہنما ) بننے کا خواب دیکھنے والوں کو یہ بات بھی سمجھاناضروری ہوگیا ہےکہ؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
Comments are closed.