آہ۔۔ علم وعمل کا کوہِ گراں جاتا رہا۔۔!! ? محمد نجم الثاقب ناصری

آہ۔۔ علم وعمل کا کوہِ گراں جاتا رہا۔۔!!

? محمد نجم الثاقب ناصری

صبح کا کوئی ۵:۱۰ بج رہا تھا اور موبائل اپنے وعدہ کے مطابق الارم بجا رہا تھا کہ فجر کی اذان ہونے لگی اور *أشهد أن لا إله إلا الله* اور *حي على الصلاة* کی صدا نے جھنجھورا کہ اب بس کرو، مؤذن کی ندا تو سن رہے ہو نا۔۔ چلو الحمد للہ اپنی نیند سوچکے ہو اب اٹھو، اٹھا اور (عادت کے مطابق) موبائل اٹھایا کہ جلدی سے ایک نظر دیکھ لوں واٹس ایپ پہ اپنوں نے کچھہ میسیج بھیجا ہوگا۔۔ واقعی دیکھہ رہا ہوں کہ اپنے گھر سے کسی عزیز کا میسیج تھا، لیکن آج کا میسیج "السلام علیکم” اور "صبح بخیر” والا نہیں؛ بلکہ درد وغم میں ڈوبی ایک خبر پر مشتمل تھا کہ (حضرت) مولانا قاسم صاحب مظفرپوری کا انتقال ہوگیا ہے۔۔ آہ۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مولانا۔۔ ہمارے مولانا۔۔ علم کے پہاڑ، عمل میں علم سے بڑھہ کر، حديث نبوی <مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰهِ رَفَعَهُ اللّٰهُ> کی صداقت اور زندہ تصویر، تواضع اور انکساری میں بے نظیر، اپنے اور غیر سب ان کے علم وعمل اور حسنِ اخلاق کے اسیر۔

 

آج سے پچیس سال پہلے ایک مرتبہ والد صاحب (مولانا قاری محمد ابو عمر ناصری القاسمی رحمہ اللہ) کی عیادت کے لیے ہمارے گھر تشریف لائے تھے تو اس وقت مولانا سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، پھر دار العلوم سبیل الفلاح جالہ ضلع دربھنگہ بہار میں (حفظ کے زمانہ میں) کئی ملاقاتیں ہوئیں، مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ ضلع دربھنگہ بہار کے زمانہ طالب علمی میں عربی ششم کے سال ہم چند طلبہ نے مل کر بعض موضوعات پہ چھوٹے چھوٹے مضامین لکھے تھے اور ان کو کتابی شکل میں طبع کرانے کا شوق ہوا تو انہیں ترتیب دیکر کتاب کا نام (بشری) رکھا اور اس پہ تقریظ لکھوانے کے لیے مادھوپور (حضرت مولانا رحمۃ اللہ کا آبائی وطن) چلے گئے، وہاں حضرت سے ملاقات ہوئی، کتاب کا مسودہ پیش کیا تو بہت خوش ہوئے، والد صاحب کا ذکر خیر کرنے لگے اور وہ اپنے زمانہ طالب علمی کے کچھہ قصے سنانے لگے، جستہ جستہ کتاب کو پڑھا اور کہیں کہیں سے ہم نے بھی پڑھہ کر سنایا، پھر انہوں نے ہمیں دو صفحہ پر مشتمل شاندار تقریظ املاء کروایا، اندور کے فقہ اکیڈمی کے سیمینار میں استفادہ کرنے کا شرف حاصل ہوا، ادارہ دعوۃ السنہ ممبئی کے سالانہ مسابقۃ القرآن الکریم میں قرآن اور علم قراءت کے تعلق سے استفادہ کرنے کی توفیق ملی اس کے علاوہ بھی اللہ کے فضل سے ان سے امارت شرعیہ پٹنہ وغیرہ میں متعدد مرتبہ وقتا فوقتا ملاقاتیں ہوتی رہیں اور استفادے کی سعادت ملتی رہی۔

 

مولانا رحمۃ اللہ علیہ ایک طرف جہاں علمی گہرائی وگیرائی اور فقہی بصیرت میں ممتاز تھے وہیں دوسری طرف تواضع اور خاکساری میں واقعی مخلص تھے، "تواضع میں مخلص” اس لیے لکھنا پڑا کہ ان کا تواضع آرٹیفیشیل اور بناؤٹی بالکل بھی نہیں تھا، بلکہ ان کے علم کا اثر تھا، ریا وشہرت اور نام ونمود سے کوسوں دور تھے، سادگی ان کی شناخت تھی، ہندوستان کے سرکردہ نامور علماء میں (جو علم اور تواضع دونوں صفتیں بیک وقت اپنے اندر رکھتے ہوں) صرف ایک نام تھا "مولانا قاسم صاحب مظفرپوری”۔

اللہ کی زمین پہ اللہ کے ایسے متبحر علم وعمل کے مالک اور متواضع صفت نیک بندے ضرور ہوں گے جو ہماری نظروں میں نہیں ہیں، ورنہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ان کا نعم البدل تو دور؛ بدل بھی ملنا مشکل ہے۔

اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، پسمندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کے علمی ورثے کا وارث وامین بنائے۔

Comments are closed.