ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہے (سانحۂ وفات حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری نوّر اللہ مرقدہ)

ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہے

(سانحۂ وفات حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری نوّر اللہ مرقدہ)

قاضئ شریعت حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری انتقال کر گئے –
یہ خبر دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، ہر طرف اندھیرا چھا گیا ، ہر جگہ ایک مہیب سنّاٹا طاری ہے –
ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل غم سے نڈھال ہے ، جہاں دیکھئے صف ماتم بچھی ہوئی ہے ، جسے دیکھئے حیران و ششدر ہے –
وہ عرصے سے بیمار تھے ، صاحب ِ فراش تھے ، مسلسل بیماریوں نے بہت لاغر کر دیا تھا ، میں اس عرصے میں بار بار ان کی مزاج پرسی کیلئے حاضر ہوا تھا اور ان کے ضعف و نقاہت ، کمزوری اور اضمحلال کو دیکھ کر اندازہ کر لیا تھا کہ

کوئی منزل نہیں باقی ہے، مسافر کے لیے
اب کہیں اور نہیں جائے گا ، گھر جائے گا

ادھر بیماری نے بہت شدت اختیار کر لی تھی ، پھر طبیعت کچھ سنبھل بھی گئی تھی ، ڈاکٹروں نے گھر لے جانے کی اجازت دے دی تھی ، گھر جب لوٹے تھے تو حوصلوں نے ایک بار انگڑائی لی ، نحیف اور لاغر بدن میں توانائی کی ایک رمق پیدا ہوئی ، چہرے پر کسی قدر اطمینان و سکون کے آثار نظر آنے لگے ، خدام اور متوسلین اسے صحتیابی کی علامت سمجھ رہے تھے مگر وہ تو چراغِ صبح کی خاموشی کا پیغام تھا

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

مولانا محمد قاسم صاحب ایک شخص نہ تھے ، ایک تحریک ، ایک انجمن ، ایک جماعت اور ایک مشن کا نام مولانا محمد قاسم تھا ، وہ سینکڑوں اداروں کے سرپرست ، بہت سے مدرسوں کے بانی ، بہت سی تنظیموں کے سربراہ ، بیسیوں علمی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ، وسیع النظر محقق ، بالغ نظر محدث اور زمانہ شناس فقیہ تھے –
ان کے چلے جانے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علم کی دنیا ویران ہو گئی ہے ، محفلوں کی رونق اٹھ گئی ہے ، دینی ادارے ایک تناور درخت کے سائے سے محروم ہو گئے ہیں ، ملی تنظیموں نے اپنے ایک بے مثال رہبر کو کھو دیا ہے ، علماء ایک مشفق باپ کے سائے سے محروم ہو گئے ہیں –

بچھڑا کچھ اس ادا سے ، کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

مولانا محمد قاسم اسم بامسمیٰ تھے ، اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے انہوں نے جو کچھ حاصل کیا تھا ، تمام عمر اسے وہ بڑی فیاضی سے خرچ کرتے رہے ، ان کے کمزور ہاتھوں نے بہت سے چراغ روشن کئے اور ان چراغوں نے ظلمتوں کا سینہ چاک کر کے ہر طرف علم و حکمت کی روشنی پھیلادی –

ہر گوشہ منور ہے دنیا کا بہ فیض غم
جلتا ہے چراغ اپنا کاشانہ بہ کاشانہ

کسر نفسی ، تواضع اور عاجزی ان کی ذات میں مجسم تھی ، خود نمائی سے وہ نفور اور بیزار تھے ، بے نام و نشان رہنا انہیں پسند تھا ، مگر اللہ نے ان کے لئے شہرت و ناموری اور عزت و مقبولیت کا فیصلہ کر دیا تھا

من تواضع لله رفعه الله

اس لئے انہوں نے خود کو جس قدر چھپانے کی کوشش کی ، ان کے نام اور کام کی شہرت اسی قدر پھیلی ، انہوں نے جتنا گمنام رہنا چاہا ، اتنے ہی نامور اور مقبول ہوئے –
اپنے ایک استاذ سے ، حجة الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی رحمه الله کے بارے میں ، میں نے سنا تھا کہ حضرت کو کسی مجلس میں اگر یہ احساس ہوجاتا تھا کہ اب یہاں ان کی کچھ مدح و توصیف کی جائے گی تو وہ فوراً اس مجلس سے اٹھ جاتے تھے ، قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ اللہ نے ان کے کارناموں کو ایسا مشتہر کر دیا کہ آج دنیا کے ہر گوشے میں ان کے نام کی نسبت رکھنے والے علم نبوت کی روشنی پھیلا رہے ہیں –
مولانا محمد قاسم مظفر پوری بھی گلشن قاسمی کے گل سرسبد تھے ، انہیں اپنے اس پیشرو قائد اور روحانی پیشوا سے ضرور کچھ ایسی نسبت تھی کہ وہ شہرتوں سے بھاگتے تھے اور شہرت ان کے پاؤں پڑتی تھی ، تعریف و توصیف سے گریزاں تھے مگر زبانیں ان کے علم و فضل کے تذکرے سے رکتی نہ تھیں –

حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمة الله علیہ ان کو قیمتی ہیرا سمجھتے تھے اور اس کا برملا اظہار کرتے تھے ، امیر شریعت حضرت مولانا نظام الدین رحمة الله عليه ان پر جان و تن سے فدا اور ان کے بیحد قدرداں تھے ، ہندوستان کے بڑے بڑے مدارس اور ادارے ان کو اپنا اسیر بنالینا چاہتے تھے ، مگر مولانا کو بڑے بڑے شہروں کی اونچی اونچی عمارتیں نہ بھاتی تھیں ، بڑے بڑے اداروں میں ان کا دم گھٹتا تھا ، وہ چاہتے تھے کہ ویرانوں کو آباد کروں ، صحراؤں میں پھول کھلاؤں ، دیہات اور قصبات کے اندھیروں میں علم کی شمع جلاؤں ، ان کی یہ آرزو پوری ہوئی ، اس خواہش کی تکمیل کے سامان قدرت نے فراہم کردیئے –
جب اس عزم اور ارادے کے ساتھ انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا ، تو قدم قدم پر راہ رو ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
راہ رو ملتے رہے اور کارواں بنتا گیا

مولانا نے کبھی حالات کا شکوہ نہیں کیا ، وہ سراپا عمل تھے ، اس لئے کام کرتے ہوئے کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتے تھے ، ان کا نظریہ یہ تھا کہ

جلانے والے ، جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی

انہوں نے بہت سی شمعیں جلادی ہیں ، بہت سے چراغ روشن کردیئے ہیں ، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم محنت و اخلاص کے روغن سے ان چراغوں کو روشن رکھیں –

دبیر احمد قاسمی
مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ بہار

Comments are closed.