متانت وسنجیدگی کے پیکر، زہد وتقوی میں لا ثانی، علم وفقہ اور فتوی وقضا کے پیچ وخم کے گرہ کشا، متبحر عالم دین حضرت مولانا قاضی محمد قاسم صاحب مظفرپوری رب کے حضور پیش۔


متانت وسنجیدگی کے پیکر، زہد وتقوی میں لا ثانی، علم وفقہ اور فتوی وقضا کے پیچ وخم کے گرہ کشا، متبحر عالم دین حضرت مولانا قاضی محمد قاسم صاحب مظفرپوری رب کے حضور پیش۔

 

*?️محمد صادق ناصری*

*خادم مدرسہ صفۃ الصحابہ حیدرآباد*

 

اللہ تعالی کا قانون ازل ہے: {کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ} اس قانون نے نہ تو کسی انبیاء ورسل کو بخشا اور نہ کسی خاصان خدا کو چھوڑا ہے۔

چنانچہ آج مورخہ ١٢ محرم الحرام 1442ھ بروز سہ شنبہ بوقت تہجد حضرت مولانا قاسم ابن معین الحق مادھوپوری المعروف (مظفر پوری) اپنے اہل خانہ اور متعلقین کے ساتھہ ساتھہ ہزاروں شاگردوں اور علمی وارثین کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

إن لله ما أخذ وله ما أعطی وکل شيء عندہ بأجل مسمی۔

 

قاضی صاحب ؒ مدرسہ رحمانیہ سوپول ضلع دربھنگہ کے سابق شیخ الحدیث تھے اور وہاں کے علاقائی قاضی شریعت بھے، حضرت علیہ الرحمہ یوں تو ملحقہ مدرسہ بورڈ کے ماتحت تدریسی خدمت انجام دے رہے تھے لیکن وقت کے اس قدر پابند تھے کہ پرائیویٹ مدرسوں میں بڑے سے بڑے متقی کہلانے والے اساتذہ بھی اتنی مستعدی اور بابندی سے خدمات انجام نہیں دیتے۔

مولانا ؒ نے حضرت مولانا عثمان صاحب گرولوی ؒ کے بعد وہاں کے دار القضاء کے قاضی شریعت مقرر ہوئے اور دار القضاء کے پلیٹ فام سے دربھنگہ، مدہوبنی، مظفرپور اور سمستی پور واطراف کے لوگوں کے پیچیدہ مسائل طلاق وخلع اور وراثت وغیرہ سے متعلق شرعی فیصلے فرماتے رہے، اور حضرت ؒ بورڈ کی میعاد ختم ہونے کے بعد اگرچہ باضابطہ طور پہ مدرسہ میں نہ تھے، لیکن قضاء سے متعلق مشکل ترین امور کو حل کرنے کے لیے آپ کو وقتا فوقتا بلایا جاتا اور یوں تطوعا آپ حاضری دیکر معاملے کو حل فرماتے۔ ان کے علاوہ مدرسہ فلاح المسلمین بھوارہ مدہوبنی، دار العلوم بالاساتھ سیتامڑھی اور مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ دربھنگہ جیسے بڑے بڑے مدارس کے قاضی صاحبان بھی گنجلک اور پیچیدہ مسائل میں ان سے رہنمائی حاصل کرتے، حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کے وصال کے بعد امارت شرعیہ میں بھی پیچیدہ مسائل کی سماعت اور اس کے حل کے لیے آپ مدعو کیے جاتے رہے۔

مدرسہ رحمانیہ سوپول کے احاطہ میں رہ کر قرب وجوار کے مسلمانوں کی علمی ودینی اور ملی وسماجی خدمت میں حضرت نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ گذارا اور خود اس مدرسہ کو اپنی خدمات کے ذریعہ بلندی تک پہونچایا اور اسے علاقے میں ایک معیاری مدرسہ کی حیثیت سے متعارف کرایا، یہاں تک وہ مدرسہ اللہ کے فضل سے اور ان کی محنت وجانفشانی سے عوام وخواص میں مقبول بن گیا، دار القضاء مدرسہ رحمانیہ سوپول کی موجودہ عمارت بھی حضرت قاضی صاحب ؒ کی کاوش کی گواہ ہے۔اسمیں کوئی شک نہیں کے اللہ پاک نے جس تبحر علمی سے حضرت کو نوازا تھا یہ ان پر اللہ کا خاص فضل وکرم تھا۔

 

صوبہ بہار کے علماء میں جو لوگ حضرت قاضی صاحب ؒ کے دار العلوم دیوبند کے درسی ساتھیوں میں تھے ان میں سرفہرست یہ چند بڑے اور معروف نام ہیں:

مولانا اویس صاحب رائے پوری، مولانا عبد الحنان صاحب قاسمی بالاساتھ، مولانا عبد العلیم صاحب قاسمی پاکٹولہ، مولانا قاری محمد ابو عمر صاحب ناصری قاسمی ناصرگنج نستہ، مولانا ازہر قاسمی صاحب رانچی، مولانا تسلیم قاسمی سدھولی، مولانا ابو الواسع قاسمی صاحب رامپوری۔ رحمہم اللہ۔

اللہ پاک ان تمام بزرگوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ عنایت فرمائیں آمین ثم آمین۔

 

اللہ پاک حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، ان کے برادر صغیر حافظ ناظم صاحب مدظلہ، اکلوتے فرزند مولانا عبد اللہ مبارک مدنی اور شریکہ حیات صاحبہ اور بیٹیوں کو نیز نواسے نواسیوں

اور شاگرد ومعتقدین ومحبین متوسلین سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

Comments are closed.