صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی

السلام علیکم

کچھ کام اللہ نے بنا اور سجا کر ہمیں دے دئے تھے، اور کچھ کام ہمیں کرنے تھے۔۔ اور یوں اللہ کی بات انسان تک پہنچتی رہنی تھی۔۔ یہ اچھا انتظام تھا، انسان کےلئے تھا، اور انسان کے رب نے دیا تھا۔۔۔

ہر آبادی میں مسجد لازما ہوگی، ہر محلہ اور سطح پر ہوگی۔۔ اور یہ مسجدیں بنیں۔۔ نبی مصطفی ﷺ نے اپنے گھر سے پہلے مسجد بنائی کہ وہ اللہ کا گھر تھا، اور پھر مدینہ شہر کے ہر محلہ میں مسجد بنتی گئی۔۔ مدینہ آنے کے راستہ قباء میں بھی مسجد بنی تھی، اور مکہ کے پرخطر ماحول میں بھی نماز کی جگہ بنی تھی۔۔ کیوں کہ۔۔ مسجد کو آبادی کی مرکزیت ملنی تھی۔۔۔

دن بھر میں پانچ مرتبہ نماز فرض بنادی گئی، اور جماعت کے ساتھ مسجد میں رکھی گئی، ہر مرد پر یہاں حاضری لازم کی گئی، اور خواتین کو بھی یہ فرصت عطا کی گئی۔۔ تاکہ۔۔ محلہ کے لوگ ایک جگہ جمع ہوں، اور باہم واقف رہ کر اجتماعیت سے جڑے ہوں۔۔۔ پھر ہفتہ واری جمعہ کی نماز لازمی کی گئی، اس کی حاضری زیادہ اہم بنائی گئی، ظہر کی دو رکعت کی جگہ سماجی رہنمائی خطبہ کے نام سے رکھی دی گئی۔۔ تاکہ خطبہ نماز کی طرح لازم اور اہم رہے۔۔۔

تو یہ کام اللہ نے بنادئے تھے۔۔ یعنی ہر محلہ میں ایک مرکزیت، ہر گھر سے وہاں حاضری، دن میں پانچ مرتبہ باہمی خبرگیری۔۔ اور مسجد کے نام سے اس کمیونٹی سنٹر کو تقدس اور عبادت عطا کردی گئی، کہ اس راہ کے ہر قدم پر نیکی، اس میں گذرے ہر لمحہ پر انعام، اس کےلئے ہر کام پر رحمت ونوازش۔۔۔ اور۔۔۔ ہر جمعہ کو پوری آبادی اکٹھی ہو، اور پہلے سماجی رہنمائی سنیں، حالات پر اللہ اور رسول کی ہدایات جانیں، پھر دو رکعت نماز کی صورت میں مضبوط اجتماعیت اور منظم تابعداری کا مظاہرہ کریں۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ اگر یہ باتیں مطلوب نہ ہوتیں، تو اللہ کی عبادت گھر کی تنہائی میں زیادہ سکون سے ہوجاتی۔۔۔

یہ اللہ کی طرف سے بنا بنایا کام اور نظام ہمیں عطا کردیا گیا تھا، نبی اقدس ﷺ نے اسے دکھایا اور بتادیا تھا، تو نبی کی مسجد، محلوں کی مساجد اور اس عہد کی ہر مسجد میں یہی اجتماعیت، خبر گیری اور تابعداری نمایاں تھی۔۔ ایسی کہ۔۔ منافقین یعنی خطرناک دشمنوں کو بھی مسجد سے گریز کی ہمت نہیں تھی۔۔۔

تو مسلم آبادی کا ہر گھر اور ہر فرد اس نظام کا حصہ تھا، اور اس اجتماعیت سے پیوستہ تھا، اور ایک دوسرے سے واقف اور اس کےلئے حاضر تھا۔۔۔

ذرا سوچئے کہ کیا ہر محلہ میں کمیونٹی سنٹر بنایا جاسکتا ہے؟ ہر گھر اور فرد کو اس سے جوڑا جاسکتا ہے؟ وہاں کی ہر حاضری اور کام کو تقدس میں رنگا جاسکتا ہے؟ اور ہفتہ واری سماجی رہنمائی کی منظم شکل اپنائی جاسکتی ہے؟ کس سماج اور علاقہ میں یہ نظام بن سکا اور یہ کام چل سکا ہے؟؟ تو اللہ نے یہ سب بنا کر ہمیں دیا۔۔ کہ۔۔ ہم اس سے فائدہ اٹھالیں، اجتماعیت پختہ اور خبرگیری مضبوط کرلیں، موقف ایک اور مشورہ منظم کرلیں۔۔۔

تو کیا مسجد ایک نظام، اور نماز ایک اجتماعیت نہیں ہے؟ کیا خطبہ رہنمائی اور جمعہ منصوبہ نہیں ہے؟؟ کیا وہ صرف فرد کی عبادت اور رسومات کا اختیار ہے، کہ اپنی پسند کے تابع اور اپنی عادت کے تحت رہے؟ تب تو گھر کی تنہا نماز ہی مطلوب ہوتی، اور مسجد کی ضرورت اور اہمیت سامنے نہ آتی۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، اللہ نے یہ نہیں رکھا، اور نبی ﷺ نے یہ نہیں دکھایا۔۔۔

سوچئے کہ اب ایسا کیوں نہیں ہے؟ اور یہ تبدیلی کیا اثرات لارہی ہے؟ مسجد تو وہی تھی جو عہد نبوی میں تھی۔۔ آئیے ہم اسے دیکھ سکتے ہیں، بہت کچھ نظر آئے گا، بہت سی راہیں کھولے گا، بہت سارے کام بنائے گا۔۔ تب اللہ کے بنائے کام میں ہمارا کام جاری ہوگا، تب اللہ کی مدد بھی آئے گی۔

ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں۔

خدا حافظ
2 ستمبر 2020
13 محرم 1442

Comments are closed.