ملک کے سب سے سینئر قاضی چل بسے! ابومعاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی خادم التدریس جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش

*ملک کے سب سے سینئر قاضی چل بسے*
ابومعاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم التدریس
جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
ان دنوں ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اساطینِ علم و فضل، اکابرین امت کی تسبیح کے دھاگہ ٹوٹ گیا ہے اور ایک ایک کرکے دانہ الگ ہوتا جارہا ہے، یہ سچ ہے کہ یہ عالم فانی ہے یہاں جو کچھ ہے سب فانی ہے، صبح ازل سے اب تک نہ جانے افق کائنات پر کتنے عبقریت ونابغیت، دانش و بینش، آفتاب وقمر طلوع ہوئے اور غروب ہوگئے، اور یہ سلسلہ شام حشر تک چلتا رہے گا۔
12/محرم الحرام 1442ھ ،مطابق 1/ستمبر 2020ء ، بروز منگل،بوقت فجر ، موبائل کے اسکرین پر جاں گسل، دل سوز اور غم انگیز خبر زیر بصارت آئی، پڑھ کر دل کو سخت دھچکا لگا، کہ یادگار اسلاف، نام و نمود سے دور، سادگی کا مجسمہ، علم و عمل کے پیکر ، دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز سپوت، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے باوقار رکن، مدرسہ رحمانیہ سپول دربھنگہ بہار کے سابق شیخ الحدیث، بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم ملک کے سب سے سینئر قاضی، حضرت مولانا قاسم صاحب مظفر پوری رحمہ اللہ داغ مفارقت دے گئے، زبان حرکت میں آئی اور کلمہ استرجاع جاری ہوا
انا لله وانا اليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه وادخله في فسيح جناتك ياارحم الراحمين
حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ کو مبداء فیاض نے بے شمار خصوصیتوں سے نوازا تھا، اس کے باوجود آپ ہمیشہ گمنامی رہنا پسند فرماتے تھے، اور اسی میں اپنی مستعار زندگی گذار کر ملک عدم روانہ ہوگئے، آپ شیخ الاسلام کے تدریسی سال کے آخری اور مولانا فخرالدین صاحب نوراللہ مرقدہ کے پہلے سال کے شاگردوں میں سے تھے،اس سال (1377ھ) دارالعلوم دیوبند میں کل طلبہ کی تعداد 1426/اور دورۂ حدیث میں 181/تھے۔
دارالعلوم دیوبند کے آپ کے دگر اساتذہ میں حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی رحمہ اللہ
حضرت مولانا فخرالحسن مراد آبادی رحمہ اللہ
حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ
حضرت مولانا محمد حسین بہاری رحمہ اللہ
حضرت مولانا معراج الحق دیوبندی رحمہ اللہ
اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ ہیں۔
آپ کے دورۂ حدیث شریف کے چند نامور رفقاء یہ ہیں:
(1)حضرت مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری دامت برکاتہم (شیخ ثانی:دارالعلوم دیوبند)
(2)حضرت مولانا برہان الدین صاحب رحمہ اللہ (سابق شیخ التفسیر:دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
(3)حضرت مولانا عبدالحنان صاحب رحمہ اللہ (سابق شیخ ثانی:دارالعلوم ماٹلی والا، بھروچ، گجرات، بانی و مہتمم:جامعہ قاسمیہ،بالا ساتھ،سیتامڑھی،بہار)
(4)حضرت مولانا اسلم صاحب رحمہ اللہ صاحبزادہ حضرت قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ
ان علم و عمل کے آفتاب و ماہتاب کے درمیان آپ کا نام سرفہرست ہے، دورۂ حدیث کے سالانہ امتحان میں اول پوزیشن سے کامیاب ہوئے۔
فراغت کے بعد ایک سال اپنے مادر علمی مدرسہ امدادیہ دربھنگہ بہار میں تدریسی فریضہ انجام دئیے، اس کے بعد حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی رح، وحضرت مولانا عثمان صاحب رح(سابق مہتمم:مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ ) کی خواہش پر مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ، تشریف لائے اور یہاں حماسہ لے کر بخاری تک پڑھانے کا موقع ملا، سن 2004ء/میں ریٹائر ہوئے، آپ سے بخاری پڑھنے والے ہمارے بستی میں حضرت مولانا امیرالحق صاحب رحمانی دامت برکاتہم ہیں۔
تدریس کے ساتھ ساتھ معاون قاضی کے طور پر بھی کام کرتے رہے، 1977/میں جب حضرت مولانا عثمان صاحب رحمہ اللہ کا انتقال ہوا تو آپ کو مستقلاً یہ ذمہ داری سونپ دی گئی اور 2010 /تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔
اس کے بعد مرکزی دارالقضاء امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں بھی وقت دے رہے تھے۔
حضرت قاضی صاحب رحمہ اللہ اپنی زندگی کی نصف سے زائد حصہ ہمارے علاقے میں گذارے، ہمارے علاقے میں شاید ہی کوئی بستی ہو جہاں آپ تشریف نہ لے گئے ہوں، علاقے کے ہر عام و خاص آپ کے گرویدہ ہیں، 2015/میں آپ رح جمال پور حضرت مولانا ہارون رشید صاحب دامت برکاتہم (سابق شیخ الحدیث:نورالعلوم گھٹامن، پالن پور، خسر استاذ محترم حضرت مفتی ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب قاسمی دامت برکاتہم استاذ فقہ و تفسیر: دارالعلوم دیوبند) کی دعوت پر مدرسہ رحمانیہ نسواں کے پروگرام میں تشریف لائے تھے، ناظم جلسہ کاتب السطور ہی تھا، بعد جلسہ حضرت رحمہ اللہ نے راقم سے تعارف پوچھا، احقر نے اپنے نام کے ساتھ والد صاحب کا نام لیا فوراً بول پڑے اوہو! تم رضا حسین صاحب کے پوتے ہو، تمہارے دادا ہمارے رحمانیہ میں بہت کچھ دیا کرتے تھے، غور کرنے کا مقام ہے کہ ہمارے دادا مرحوم کا تاریخ وفات 1977/ہے، قاضی صاحب رحمہ اللہ 2015/میں صرف والد صاحب کا نام لیتے ہی پہچان گئے۔
ہمارے علاقے میں دوقاسم مشہور و معروف بزرگ ہیں، ایک بقیۃ السلف حضرت ماسٹر قاسم صاحب دامت برکاتہم مجاز بیعت حضرت مولانا سراج احمد امروہوی رحمہ اللہ(ناظم :مدرسہ اشرفیہ ،پوہدی بیلا،گھنشیام پور دربھنگہ)دوسرے آپ رحمہ اللہ، پروگرام میں حضرت ماسٹر صاحب دامت برکاتہم بھی تشریف لانے والے تھے، لیکن کسی وجہ سے آنے سے رہے، عوام کو کیا خبر صبح صبح کئی حضرات دم کروانے کے لئے تیل پانی وغیرہ لے کر حاضر ہوگئے، کیونکہ حضرت ماسٹر صاحب دامت برکاتہم تعویذ وغیرہ بھی دیتے ہیں، کافی لوگ آگئے تھے، مجلس سے ایک صاحب نے کہا کہ آپ لوگ چلے جائیں، حضرت ماسٹر صاحب نہیں آئے ہیں بلکہ حضرت مولانا قاسم صاحب مظفر پوری آئے ہیں اور حضرت دم نہیں کرتے ہیں،ایک صاحب نے کہا کہ اب حضرت ہی دم کردیں، اس صاحب نے کچھ سخت لہجہ میں کہا کہ حضرت دم نہیں کرتے ہیں، حضرت مولانا رحمہ اللہ سن رہے تھے گاؤں کے لوگ تھے لجاجت کرنے لگے تو حضرت نے تبسم کے ساتھ فرمایا:
لاؤ بھائی! آج میں بھی دعا و تعویذ کرنے والا مولانا بن جاؤں، اور تمام لوگوں کے پانی و تیل پر دم کیا۔
آپ رحمہ اللہ تام جام سے دور بلکہ سادگی کے پتلا تھے، جو جہاں بلاتے وقت ہوتا تو وہاں ضرور حاضر ہوتے، ہمارے بستی”سمری“میں آخری مرتبہ 12/مارچ ، 2015ءکو تشریف لائے تھے اور مدرسہ نظامیہ دارالقرآن کے احاطہ میں اپنے دست مبارک سے مسجد کی بنیاد رکھی۔
آپ رحمہ اللہ کا بے شمار کارنامے ہیں، خاص طور سے قضاء کے معاملہ میں آپ کی رائے حرف آخر ہوا کرتی تھی،آپ رحمہ اللہ ہمارے علاقے میں رہنے کا حق ادا کردئیے،آپ کا ہمارے علاقے کے لئے ایک عظیم الشان کارنامہ یہ ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے اپنے اہتمام و نگرانی میں حضرت مولانا عثمان صاحب گڑھولوی رحمہ اللہ کی سوانح عمری”تذکرہ حضرت مولانا عثمان“ (سابق شیخ الحدیث،ومہتمم مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ بہار)حضرت مولانا اویس عالم قاسمی رحمہ اللہ (سابق استاذ:مدرسہ اصلاحیہ، نام نگر، نبٹولیہ، دربھنگہ، بہار) سے لکھوایا، جو حقیقت میں ہمارے علاقے کا انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں ہے۔
اللہ تعالی حضرت رحمہ اللہ کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلی مقام نصیب فرمائے (آمین)
Comments are closed.