حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری رحمہ اللہ انہیں دیکھے کوئی میری نظر سے__ محمد شافع عارفی استاذ معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور

حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری رحمہ اللہ
انہیں دیکھے کوئی میری نظر سے
محمد شافع عارفی استاذ معہد الولی الاسلامی ہرسنگھ پور
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسےگئےایسےبھی جاتا نہیں کوئی
ادھر سپیدہ سحر طلوع ہورہا تھا ادھر علم و معرفت, شریعت و طریقت,
,حدیث و تفسیر,افتاء و
قضاء کی مسند کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک زینت بخشنے والا,متواضع وخوددار خلیق و ملنسار خدا کا عاجز بندہ اپنے خالق حقیقی کے بارگاہ میں پہونچنے کے لئے بیتابی سے کروٹیں بدل رہاتھا کہ
يَاأَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةَ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً
صدا آئی اور اس فرہاد باکمال نے جاں جان آفریں کے سپرد کردیا
یعنی محسن و,مشفق ہم سب کے مربی و مخدوم,حضرت مولانا قاسم صاحب رحمہ اللہ انتقال فرماگئے
انا لله وانا اليه راجعون
مجھ کو رونے سے نہ کر منع کہ مجبوری ہے
صبر تو ہوتا ہے اے دوست مگر ہونے تک
مولانا کی ذات میں ہم بھائیوں کےلئے ایک استاذ سی شفقت اور ایک باپ سی محبت دونوں جمع تھی ہم لوگوں کو کیااور کہاں پڑھنا ہے اس کافیصلہ والد محترم ان ہی کے مشورہ سے کرتے تھے بلکہ خودمیرے تعلیمی زندگی کی ابتدا ان کے زیر سایہ ہوئی عام لوگوں نے حضرت رحمہ اللہ سے حدیث و تفسیر فقہ وادب اور اصول کی کتابوں کا درس لیا ہوگا لیکن ہم بھائیوں کی خوش نصیبی ہے کہ ہم نے ابتدائی اردو املاء کی مشق بھی حضرت مولانا قاسم صاحب رحمہ اللہ کے پاس کیا والد صاحب جب مجھے اور برادر اکبرمولانا صفت اللہ عارفی ندوی کو مدرسہ رحمانیہ سوپول لے کر آئے تو, یسرنا القرن,, حافظ صاحب رح سے اردو کی کتابیں مولانا شمیم صاحب مدظلہ العالی سے اور املاء و مشق کا درس قاضی صاحب رح لینے کا حکم دیا
حفظ قران کے بعد دور کرنےکے لئے احقرنےجامع العلوم مظفر پور میں داخلہ لیااوراپنی عادت کے مطابق اساتذہ سے اپنا تعارف نہیں کرایا ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گذراتھا کہ اچانک مولانا قاسم صاحب رحمہ اللہ پہونچے مجھے بلوایا اساتذہ سے تعارف کرایا صبح جب جانے لگے تو مجھے 30/25 روپیہ عنایت فرمایا اور استاذ محترم قاری نسیم صاحب رحمہ اللہ سے کہا مولانا سعداللہ صاحب کی آپ سے قرابت داری ہے اسلئے اپنے لڑکے کو آپ کے پاس بھیجا ہے اس قرابت داری کا پاس ولحاظ رکھئے گا
جامع العلوم مظفر پور سے حفظ قرآن اور فارسی کی تکمیل کے بعد مولانا ہی کے مشورہ سے میں نے مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ میں داخلہ لیااور یہاں تعلیمی زندگی کے پانچ قیمتی سال گذرے شکر پور کے زمانہ تعلیم میں کتنی ہی مرتبہ حضرت رحمہ اللہ مدرسہ اسلامیہ تشریف لائے اور جب بھی ہم لوگ ان سے ملاقات کے لئے جاتے تو علمی سوالات و جواب کا سلسلہ شروع ہوجاتا کبھی کافیہ شذورالذہب میں آئے اشعار کا محل استشہاد پوچھا جاتا تو کبھی حدیث و فقہ اصول کے کسی قواعد کی تشریح طلب کی جاتی لیکن جب محسوس کرلیتے کہ جواب معلوم نہیں ہے تو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیتے بلکہ خود ہی جواب بھی دیتے چلے جاتے
اللہ نے مولانا کو غضب کا حافظہ دیا تھا میرے خیال میں سبعہ معلقہ کے تمام اشعار انہیں زبان زد تھے وہ ان اشعار کو بلاتکلف سناتے چلے جاتے
بسا اوقات قاری شبیر صاحب مدظلہ العالی کے اصرار پر رات میں بھی مولانا کا قیام مدرسہ اسلامیہ شکرپور میں ہوتا تو میں برادرم مولانا منت اللہ(برادر زادہ مولانا قاسم صاحب رحمہ اللہ)اور عزیزم مولانا تقی قاسمی ( نواسہ مولانا قاسم صاحب رحمہ اللہ) کے ہمراہ بعد نماز عشاء ان کی خدمت میں حاضر ہوتا یہاں حضرت رحمہ اللہ ہم لوگوں سے خدمت کم لیتے اور تعلیمی محاسبہ زیادہ کرتے تھے دارالعلوم سے فراغت کے بعد تخصص فی الافتاء کے لئے میں نے معہد العالی امارت شرعیہ پھلواری شریف میں داخلہ لیا تو یہاں حضرت رحمہ اللہ سے علمی استفادہ کی راہ کھل گئی ماہ دو ماہ میں حضرت امارت ضرور تشریف لاتے ملاقات ہوتی سلام و دعاء کےبعد کوئی نہ کوئی علمی کام سپرد کردیتے نیز متعلقہ کتب کی رہنمائی بھی کردیتے
ایک مرتبہ مولانا سرور ندیم قاسمی قاضی ابابکر پور ویشالی اور برادرم اقبال ندوی کو لے کر عشاء بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوا سلام و کلام کے بعد سوال کیا کون کون سی کتابین پڑھ رہے ہیں؟میں نے تمام کتابوں کانام بتایا لیکن قصدا الاشباہ والنظائر,کا نام گول کرگیااقبال ندوی صاحب نے جیسے ہی الاشباہ کا نام لیا حضرت نے سوال کا سلسلہ شروع کردیا پہلا قاعدہ کیا ہے؟ اس قاعدہ کو قرآن کی کسی آیت سے ثابت کیجئے کوئی حدیث کوئی اثر اس قاعدہ کے استشہاد میں یاد ہو تو بتائیں تقریبا 8 قواعد اس وقت ہم لوگوں نے پڑھ رکھا تھا سب کی آیات قرانیہ احادیث نبویہ اور آثار صحابہ کی روشنی میں تشریح کرتے چلے گئے اس دن مجھے حضرت رحمہ اللہ کے تبحر علمی,مطالعہ کی وسعت,خداداد حافظہ کا سہی ادراک ہوسکا
10/30 11 بجے جب ہم حضرت کی خدمت سے اٹھے تو ہم سب کا مشترکہ احساس تھا الاشباہ والنظائر کا اس سے بہتر مذاکرہ کسی استاذ یا کسی طالب علم کے ساتھ ممکن ہی نہیں تھا
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق کسی کے نوک قلم سےبے ساختہ یہ جملہ نکل گیا تھا
وكان العلم قد اختلط بلحمه ودمه وسائر جسده فانه لم يكن مستعارا بل كان له دثارا
اگر مبالغہ پر محمول نہ کیاجائے تو یہی جملہ حضرت مولانا قاسم صاحب رحمہ اللہ کے متعلق بھی میں لکھ دوں
علم حضرت کے گوشت وپوست اور تمام اعضاء وجوارح میں سرایت کرچکا تھا بلکہ علم ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا
والد محترم مولانا سعد اللہ صاحب مدظہ العالی نے تقریبا 40 سال تک حضرت رحمہ اللہ کے ساتھ مدرسہ رحمانیہ میں پڑھایا باوجود اس کے والد صاحب حضرت کے شاگرد تھے لیکن وہ ہمیشہ والد صاحب کے ساتھ اکرام و عقیدت کا مظاہرہ کرتے خانوادہ عارفیہ کے ہر خوشی اور غم کے موقع پر حضرت موجود ہوتے میری سگی بہنوں اور چچا زاد بہنوں میں سے جب کسی کی شادی ہوتی تو حضرت تقریر کرتےخطبہ نکاح پڑھاتے ایجاب و قبول کرانےکے لئے والد صاحب مدظہ العالی کو کہتے تھے
دادا مولانا عبدالرحمن صاحب رحمہ اللہ اور بڑے دادا مولانا لطف الرحمن صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ محبت وعقیدت سے کیا کرتے تھے بارہا کہتے کہ شمالی بہار سے بدعات وخرافات کا خاتمہ میں بڑا حصہ مولانا عارف صاحب رحمہ اللہ اور ان کے فرزندوں کا ہے ایک مرتبہ سنگرام اور اطراف سنگرام کے سفر میں احقر بھی ان کے ساتھ تھا تو ایک جگہ فرمانے لگے پیر صاحب(حضرت ہم بھائیوں کو ازراہ محبت و ظرافت پیر صاحب کہاکرتے تھے) دیکھ لیجئے یہ علاقہ آپ کے والد صاحب دادا پردادا کا مریداباد ہے
مولانا کا ایک خاص وصف دوران سفر میں نماز باجماعت کی پابندی اور دعاؤں کا اہتمام تھا گاڑی پر سوار ہونے سے پہلے اکثر ہاتھ اٹھاکر اجتماعی دعا کراتے یہ ان کا خاص وصف تھا احقر نے اس کامشاہدہ کسی اور بزرگ عالم میں نہیں کیا
بہرحال گذشتہ کل عرصہ تک علم و معرفت حدیث و تفسیر کا جام طالبان علوم نبوت کو پلانے والے اس جامع صفات وکمال شخصیت کومظفر پور کی سرزمیں کے اندر دفن کردیاگیا
دفن تجھ میں کوئی فخر روزگار ایسابھی
تجھ میں پنہاں کوئی موتی آب دار ایسا بھی
اللّهم أنزل علي قبره شآبيب رحمتك وعزائم مغفرتك
اللّهم باعد بينه وبين خطاياه كما باعدت بين المشرق والمغرب
اللّهم نقّه من الخطايا والذنوب كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس
Comments are closed.