لڑنے کا درست راستہ چننا ضروری ہے! ثناءاللہ صادق تیمی

لڑنے کا درست راستہ چننا ضروری ہے
ثناءاللہ صادق تیمی
آخر کار ڈاکٹر کفیل خان کو الہ آباد ہائی کورٹ سے رہائی کا حکم مل گیا ۔ کسی بھی بے قصور کا جیل سے رہا ہونا اچھی بات ہے لیکن اس سے زيادہ اچھی بات یہ ہے کہ عدالت نے ان کے خلاف این ایس اے کو غلط بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ ان کی تقریر میں نفرت پھیلانے والی کوئی بات نہیں تھی بلکہ وہ تو قومی سلامتی اور اتحاد کی دعوت دے رہے تھے ۔ پھر یہ سوال تو فطری طور پر ذہن میں آتا ہے کہ قومی سلامتی کی دعوت دینے والوں کو اگر مجرم مانا جاتا ہے تو سوچا جانا چاہیے کہ مجرم ماننے والے دیش کو کیا رخ دینا چاہتے ہیں ؟
ابھی چند ہی دنوں قبل ممبئی ہائی کورٹ نے تبلیغی جماعت کے غیر ملکی برادران کے خلاف ایف آئی آر کو کالعدم قرار دیا تھا اور انتظامیہ اور پولیس کو پھٹکار لگانے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے کردار پر بھی سخت تنقید کی تھی ۔ ہائی کورٹ کو ایسا لگا کہ یہ سب ایک خاص کمیونٹی کو انتباہ دینے کے مقصد سے کیا گیا ۔
اسی طرح دلی کے مسلم کش فسادات کے بعد سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والے بہت سے سماجی کارکنا ن ملزم بنا کر گرفتار کیا گیا تھا ، رفتہ رفتہ وہ چھوڑے جارہے ہیں اور عدالت کو ان کے خلاف ثبوت ناکافی لگ رہے ہیں ۔
اس بیچ وہ خبر بھی ہماری نگاہوں سے گزری ہوگی کہ کس طرح آرایس ایس کا تربیت یافتہ ایک نام نہاد صحافی یوپی ایس سی میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی شرح سے پریشان ہے اور وہ اسے جہاد بتارہا ہے ۔ یہ بات بھی معلوم ہوئی ہوگی کہ سپریم کورٹ نے اس پر ٹیلی کاسٹ ہونے سے پہلے روک لگانے سے انکار کردیا ہے اور تب یہ بات بھی معلوم ہوئی ہوگی کہ دلی ہائی کورٹ نے فارغین جامعہ کی شکایت پر اس پروگرام کے نشرکرنے پر روک لگادی ہے ۔
بہت سی خبریں ہماری نگاہوں سے گزرتی ہیں اور ہم ان پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ مین اسٹریم میڈیا انہیں نظر انداز کرنے ہی میں اپنا بھلا دیکھتی ہے ۔
لیکن ان خبروں میں ہمارے لیے بہت کچھ ہے ، ہمیں سنجیدگی سے سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر ہم ان واقعات پر نظر دوڑائیں تو یہیں سے ہمیں کرنے کا کام بھی سمجھ میں آتا ہے ۔ ڈاکٹر کفیل خان کی بات سامنے رکھیے تو ان کے لیے سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی اور اتنی زيادہ باتیں ہوئیں کہ بالآخر بہت سے متبادل مین اسٹریم میڈیا نے انہیں اپنا موضوع بنایا اور عدالت سے رجوع بھی کیا جاتارہا اور بالآخر ہائی کورٹ نے انہیں فورا رہا کرنے کا حکم دیا۔
تبلیغی جماعت کے معاملے کو سامنے رکھیے تو میڈیا میں بیٹھے "دلالوں ” نے اپنا کام کیا ، حکومت کے اقدامات ظالمانہ رہے لیکن عدالت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کردیا اور مطلع پوری طرح صاف ہوگيا ۔
اب اسی طرح دلی کے مسلم کش فساد کے ملزمین پر ایک نظر رکھ لیجیے ۔ ان کے خلاف کیے جارہے لگاتار غلط پروپیگنڈوں کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ۔ عدالت سے رجوع کیا گیا ، کسی بین الاقوامی ادارے نے ایک غلط کتاب چھاپنی چاہی تو اعتراضات اور حقائق کو پیش کرنے کے بعد اسے فیصلہ واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا اور رفتہ رفتہ عدالت ملزمین کو ضمانت بھی دینے لگی ۔
اب اشتعال اور جوش سے پرے غور کیجیے تو کرنے کا کام بھی سمجھ میں آئے گا ۔ ملک ظاہر ہے کہ عوامی قوت اور قانون کے راستے سےہی چلتا ہے اور ہمیں اسی راستے سے آگے آنا ہوگا ۔اپنی آواز مضبوط کرنی ہوگی اور قانونی چارہ جوئی سے کام لینا ہوگا ۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہمارے پاس دوسرا مؤثر متبادل بھی نہیں ہے ، ساتھ ہی ہمیں جتن کرنا ہوگا کہ ہمارے لوگ ان اداروں میں پہنچ سکیں ۔غصے میں دوچار پوسٹ لکھنا آسان ہے لیکن مستقل لگ کر سلیقے سے ملت کی تعمیر کا کام کرنا مشکل ہے لیکن اس مشکل کام کے بغیر تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر بھی نہیں ہوسکتا ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ سچ جیت ہی جائے لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم سدا سچ کی لڑائی کا درست راستہ اختیار کیے رہیں ۔
Comments are closed.