صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی

السلام علیکم

زندگی اجتماعیت اور اتحاد سے رنگ لاتی ہے۔۔ تب زندگی خوشگوار اور جاندار ہوتی ہے، پھر وہ خیر خواہوں کےلئے ترغیب بنتی ہے، اور بدخواہوں کو مرعوب رکھتی ہے۔۔ مسجد کی مرکزیت اور مصروفیت یہی زندگی بناتی اور یہی رنگ لاتی ہے۔۔۔

عہد نبوی اور عہد خلفائے راشدین میں مسجد یہی کام کرتی تھی، اور زندگی کی اجتماعیت اسی سے مربوط رہتی تھی۔۔ تو مسجد صرف نماز گاہ نہ تھی، سماج کے جسم کا ڈھرکتا دل تھی۔۔ پھر مسجد وہ نہ رہی، اور اس کی سرگرمی محدود ہوتی گئی۔۔ پھر دیگر کام ختم ہوتے گئے، اور صرف نماز کی رسومات باقی رہ گئیں۔۔ پھر مسجد کے حصے بند ہوتے گئے، اور اب نماز ادا ہوتے ہی پوری مسجد تالا بند ہوگئی۔۔۔

تو یہ مسجد نہیں تھی، نماز گاہ رہ گئی۔۔ اور نماز کی سہولت بھی تھوڑے وقت سے بندھ گئی۔۔ کہ ۔۔ جماعت ختم ہوئی، اور اب نمازی بھی وہاں نماز سے محروم کردئے گئے۔۔۔ تو اللہ کا گھر اپنے ہاتھوں بند کردیا گیا، طہارت خانہ مقفل، وضو خانہ بند اور نماز کی جگہ تالا بند کرنے کے بعد مسجد میں داخلہ بھی روک دیا گیا۔۔۔

جی ہاں۔۔ آج یہی مسجد ہے۔۔ اگر آپ کچھ تاخیر سے پہنچیں تو اللہ کی اجازت باقی ہے، لیکن بندہ کی اجازت نہیں ہے، اور آپ کو نماز چھوڑنی ہے۔۔ شہروں اور بازاروں میں، گھر سے فاصلہ پر کاموں میں، مسافروں اور حاجت مندوں میں اب یہی صورت حال ہے۔۔۔

جی ہاں۔۔ اب مسجدوں کے مینارے بلند ہیں، قالینیں عمدہ ہیں، دیواریں منقش اور آسائشیں مہیا ہیں۔۔ لیکن مسجد کے کام ختم، اور کچھ وقفہ کے بعد نماز بھی بند ہیں۔۔ اور یہی عمل پھیلتا جارہا ہے، کہ تصور پر اسی کی حکمرانی ہے۔۔ عذر اچھے موجود ہیں، سامان کی چوری، مسجد کی گندگی، طہارت خانہ کا استعمال، پانی کا خرچ، اور نگرانی کی ضرورت۔۔ تو ۔۔ مسجد کو مسجد کے کام سے ہٹا دینا ان سب کا حل ہے۔۔ اور اب وہ حل سب کا عمل ہے۔۔۔

مسجد تو اس لئے نہیں تھی، اذان کی پکار کوئی رسم نہ تھی، مسجد سے جڑ کر رسول کریم ﷺ کی رہائش بے مقصد نہ تھی، مسجد میں ہر موقع پر خطاب اور مشورہ کی روایت وقتی بات نہ تھی۔۔۔

مسجد بنی ہی تھی کہ وہ اجتماع گاہ ہو، فرض نماز کے ساتھ پہلے اور بعد کی سنتیں اس لئے تھیں کہ نمازوں کا منظر قائم ہو، مختلف اوقات کے نوافل اور چھوٹی نمازوں کی گنجائش اسی لئے تھی کہ ہر وقت نماز سے وہ آباد ہو۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ قرآن نے مسجد کو آباد کرنے کا حکم دیا تھا، اور ان کے ایمان کی گواہی دی تھی۔۔ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کو آباد بنایا تھا، اور ہر سرگرمی وہاں جاری فرمائی تھی۔۔ اور مسجد پر خرچ کا حکم بھی ان سب کاموں کےلئے تھا۔۔ تو کیا آج مسجد کا مقصد بدل گیا ہے، اور اس کے اخراجات عذر کو حل کرنے کےلئے نہیں ہیں؟

یاد رکھئے۔۔ مسجد وہی ہے، جو اللہ نے بنوائی ہے، اور جو اس کے رسول ﷺ نے دکھائی ہے۔۔ وہی مسجد سماج کا دل اور آبادی کا مرکز ہے۔۔ وہ ہر وقت آباد رکھی جانے والی ہے، ہر عمل خیر کا مرکز بننے والی ہے، ہر پیغام اسلام کی کشش پہنچانے والی ہے۔۔ مسجد ایمان والوں کےلئے ایمان کی مضبوطی، اور دوسروں کےلئے ایمان کی کشش ہے۔۔ تو مسجد دونوں کےلئے ہے۔۔ مسجد آبادی کے ہر فرد کےلئے ہے۔۔ مسجد ہر وقت کےلئے ہے۔۔

جی ہاں۔۔ تب ہی وہ اپنے پیغام والی مسجد ہوگی، اور اپنے مقصد سے بندھی ہوگی۔۔ پھر اس کا کردار جلوہ گر ہوگا، پھر وہ سرگرمیوں کا مرکز بنے گا۔۔ اس کا پانی سب کی پیاس بجھائے گا، اس کی سہولت انسان کو راحت پہنچائے گی، اس کی چھاؤں دکھیاروں کو سکون بخشے گی۔۔ پھر مسجد کی انسانی راحت رسانی عہد نبوی کی یاد دلائے گی، اور اسی دور کی برکت لائے گی۔۔۔

تو تازہ کرلیجئے ۔۔ کہ یہی مسجد ہے۔۔ مسجد کے اخراجات اسی پر کیجئے۔۔ وقت کے حسب حال کاموں کو جاری کیجئے۔۔ اس ذہن کو بنائیے، اور اس تصور سے جڑجائیے۔۔ بہت کام جاری ہوں گے، بہت نتائج نکلیں گے۔۔ اور اللہ کی بڑی رضا اس میں ہی ملے گی۔۔

مسجد بند نہ کیجئے۔۔ کہ قرآن نے اس کو بڑا ظلم کہا ہے۔۔ مسجد کھول دیجئے کہ یہی مسجد کی روح اور شناخت ہے، مسجد کی سہولیات پر اخراجات کو ترجیح دیجئے کہ یہی اس کا مقصود، یہی عبادتوں کا مطلوب، اور یہی پیغام اسلام کی روح ہے۔۔۔ اور یہی تو آج کی ضرورت ہے۔

اللہ ہمیں جلد اس کی توفیق دے۔

خدا حافظ
3 ستمبر 2020
14 محرم 1442

Comments are closed.