افلاس وپسماندگی کے اسباب اورحل

سمیع اللہ ملک
جب ہم کسی جال کی بات کرتے ہیں توجال بچھانے والے کے بارے میں بھی سوچنافطری امرہوتاہے۔کوئی بھی جال خودبہ خود نہیں بچھ جاتا،کوئی کسی کیلئے بچھاتا ہے توجال بچھتا ہے ۔افلاس کابھی کچھ ایساہی معاملہ ہے۔پسماندہ ممالک اپنے طورپر،اپنے حالات کے باعث ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیاکی ریشہ دوانیوں کے باعث بھی افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں۔روئے زمین پر ہردورمیں ایساہی ہواہے۔علم اورفن میں ترقی نے ایسی روشن خیالی کبھی پیدانہیں کی جس کے طفیل دنیاسے افلاس اورپس ماندگی کاحقیقی خاتمہ ممکن ہو۔کسی بھی دوسری صورتِ حال کی طرح افلاس کوبھی شکست دی جاسکتی ہے۔دنیامیں کوئی بھی مسئلہ ایسانہیں جس کاحل تلاش نہ کیاجاسکتاہو۔افلاس کوختم کرنے کیلئے اِس کے اسباب کاخاتمہ ناگزیرہے۔دنیامیں ایساکم ہی ہواہے کہ کوئی مسئلہ خودبہ خودحل ہوگیاہے۔ہرمسئلے کے تمام پہلوؤں پرغورکرنے کے بعداس کاحل تلاش کیاجاتاہے۔چندممالک کی فقیدالمثال ترقی دراصل منصوبہ بندی اوراس پرعمل کانتیجہ ہے۔کسی بھی ملک نے محض حالات کی بہ دولت ترقی نہیں کی بلکہ حالات سے فائدہ اٹھانے کاانعام ترقی کی صورت میں ملاہے۔افلاس اور پسماندگی کابھی کچھ ایساہی معاملہ ہے۔کئی ممالک اپنے حالات درست کرنے پرتوجہ نہیں دیتے اوردوسری طرف ترقی یافتہ ممالک ان کے حالات خراب کرنے میں جتے رہتے ہیں ۔یہ معاملہ ایساہی ہے جیسے کسی کو دہری دھارکے خنجرسے ذبح کیاجائے!جوممالک افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں انہیں خودبھی سوچناہیاوردوسروں سے اخلاص کے ساتھ مددبھی درکار ہے۔معاملات کوبگاڑنے میں کبھی کچھ وقت نہیں لگتا۔
افلاس تمام حالات میں لعنت کی شکل اختیارنہیں کرتی۔کسی بھی شخص،خاندان یامعاشرے میں افلاس محض عارضی حقیقت بھی ثابت ہوسکتاہے۔بہت سے لوگ خراب صورتِ حال کو بہترمنصوبہ بندی اورجامع عمل کے ذریعے موافق حالات میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی صورت میں افلاس یقیناایک لعنت کی شکل اختیارکرتاجاتاہے۔ اگرکسی معاشرے کے خراب حالات کودرست کرنے کی مخلصانہ،شعوری کوشش نہ کی جائے توہربگڑاہوامعاملہ مزیدبہت سے معاملات کوبگاڑتاچلاجاتاہے۔ بیشترمعاشرے پس ماندگی کے چنگل میں پھنس کربدحواس ہوجاتے ہیں اورپھران کے معاملات میں عدم توازن کاتناسب بڑھتاچلا جاتاہے۔افلاس کوتواناکرنے والیعوامل پرغورکیاجائے توکوئی نہ کوئی حل دراصل خودمسئلے کی تہہ میں چھپاہواملتاہے۔آئیے، دیکھتے ہیں کہ افلاس کی طرف لیجانے والے حالات کون کون سے ہیں۔
٭والدین اگرغیرصحت منداورغیرہنرمندہوں اورگھرچلانے کیلئے مطلوب وسائل کاانتظام نہ کرسکیں توبچوں کوبھی کام کرناپڑتا ہے۔عالمی بینک کے مطابق دنیابھرمیں اٹھارہ کروڑ سے زائدبچے والدین کی خراب صحت اوربے ہنری کے باعث کچھ نہ کچھ کمانے پرمجبورہیں۔ایسے بچے افلاس کے چکرسے نکلنے میں خاصی مشکلات محسوس کرتے ہیں۔
٭بہت سے والدین بچوں سے کام نہیں کرواتے مگرخیروہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے کہ انہیں اسکول بھیج سکیں۔اسکول بھیجنے میں ناکامی دراصل خراب معاشی حالت کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے۔بچوں کواسکول بھیجنے کیلئیاگرقرضہ لیاجائے توسودا برانہیں۔تعلیم یافتہ اورہنرمندبچے زیادہ کماکروالدین کاقرضہ چکانے میں اہم کرداراداکرسکتے ہیں۔مائکرو کریڈٹ اسکیم سے افلاس زدہ گھرانوں کے بچوں کوتعلیم دلانے میں خاصی مددمل سکتی ہے۔افلاس زدہ گھرانوں کومعمولی قرضوں کیحصول میں بھی دشواری کاسامناکرناپڑتاہے جو واقعی پریشان کن بات ہے۔
٭پسماندہ معاشروں میں افلاس زدہ گھرانوں کوروایتی طریقوں سے ایسے قرضے دیے جاتے ہیں جن کابھگتان نسلیں کرتی ہیں۔ دیہی اورپس ماندہ شہری علاقوں میں موزوں مالیاتی اداروں کی عدم موجودگی میں انفرادی سطح پردیے جانے والے قرضے دراصل نسل درنسل برقراررہتے ہیں۔سودپرسودوصول کیاجاتاہے اوراصل وہیں کاوہیں رہتاہے۔افلاس زدہ گھرانے اس قدرکمانہیں پاتے کہ مکمل سودہی بروقت اداکرسکیں۔غیراداشدہ سودبھی اصل میں جڑتاچلاجاتاہے اورقرضوں کے چکرسے نکلناغریبوں کیلئے ممکن نہیں ہوپاتا۔
بھارت میں کروڑوں افرادمہاجن کے سودکی زنجیرسے بندھے ہوئے ہیں۔یہ بدنصیب لوگ زندگی بھرسوداداکرتے رہتے ہیں اور قرضے پھربھی ختم نہیں ہوتے۔افریقااور امریکا میں جس طرح غلاموں کوصرف زندہ رہنے کیلئیکافی سمجھے جانے والے مالی وسائل دیے جاتیتھے بالکل اسی طرح بھارت کے کروڑوں غریبوں کوبھی صرف زندہ رہنے دیاجاتاہے تاکہ وہ مہاجن کاسودادا کرنے کیلئے مزید کماسکیں۔المیہ یہ ہے کہ اس نوعیت کیقرضوں کی زنجیرمیں جکڑے ہوئے انسان جتنازیادہ کماتے ہیں اتناہی زیادہ انہیں سوداداکرناپڑتاہے ۔ مہاجن چاہتے ہیں کہ کوئی ان کاقرضہ اداکرنے کے قابل ہی نہ ہوسکے۔اس معاملے میں آجروں سے سازبازکرلی جاتی ہے تاکہ افلاس زدہ گھرانے زیادہ کمانے کے قابل ہی نہ ہوسکیں۔یہ معاہدے کے ذریعے طے شدہ مشقت ہی کی ایک شکل ہے۔جولوگ مہاجن کے سودکاطوق اپنے گلے میں ڈال چکے ہوتے ہیں ان کی اولادبھی زندگی بھرغلام ہی رہتی ہے ۔مہاجن ایسے لوگوں کوعلاقوں سے باہربھی نہیں جانے دیتے۔غیرسرکاری تنظیمفری دی سلیوزکے مطابق دنیابھرمیں مہاجن کے روایتی سودی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افرادکی تعداددوکروڑ70لاکھ سے زیادہ ہے۔یہ لوگ تقریباغلاموں کی سی زندگی بسرکرنے پرمجبورہیں۔
شدیدافلاس سے دوچاراورغیرہنرمندافراددووقت کی روٹی کااہتمام کرنے کیلئے دوسروں سے زیادہ کام کرنے پرمجبورہوتے ہیں اورانہیں اضافی مشقت کاکوئی معاوضہ بھی نہیں مل پاتا۔ستم یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ ذریعہ آمدنی تبدیل کرنے کی صورت میں ان کی آمدنی میں اضافہ ہوسکتاہے مگروہ کوئی نیاہنرسیکھنے اورذریعہ آمدنی تبدیل کرنے کے قابل ہوہی نہیں پاتے!
٭قحط زدہ علاقوں میں لوگ پیٹ بھرنہیں کھاپاتے اوراس کے نتیجے میں ان کی کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثرہوتی ہے۔ ضرورت کے مطابق خوراک حاصل کرنے میں ناکامی صحت کی خرابی پرمنتج ہوتی ہے۔خراب موسمی حالات بھی انسان کو کمزوری کی طرف لے جاتے ہیں۔سخت گرم اورمون سون والے خطے میں لوگ رات کوٹھیک سے سونہیں پاتے اوریوں ان کی کام کرنے کی صلاحیت کوزنگ لگتاجاتاہے۔استوائی خطوں میں گرمیوں اوربرسات کے دنوں میں مختلف کیڑوں مکوڑوں کے باعث وباؤں کاپھوٹ پڑناعام ہے۔
٭اگرکسی علاقے میں آجرہنرمندافرادکی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوں تولوگوں میں نیاہنرسیکھنے کی لگن دم توڑتی جاتی ہے اوردوسرے سرمایہ کاروں اورآجروں کوان علاقوں میں ملازمت کے بہترمواقع فراہم کرنااس لیے زیادہ پرکشش دکھائی نہیں دیتا کہ ضرورت کے مطابق ہنرمندافرادی قوت مقامی طورپرمیسرہونے کاامکان خاصا محدودہوتاہے! آجراور سرمایہ کاران علاقوں میں اپناکاروبارپھیلانے کوترجیح دیتے ہیں،جن میں ہنرمندافرادی قوت آسانی سے میسرہو۔
٭جن علاقوں میں شرح پیدائش بلندہووہاں ملازمت کے مواقع گھٹتے چلے جاتے ہیں۔افلاس کے ہاتھوں لوگ کمتراجرت بھی قبول کرلیتے ہیں۔ایسے علاقوں میں بیشترافرادکے پاس زیادہ بچے پیداکرنے کے سواآپشن نہیں ہوتا۔اگرزیادہ بچے ہوں گے توملازمت پانے کے کمیاب مواقع سے بہترطورپرمستفیدہواجاسکے گااورکوئی نہ کوئی بچہ،بڑاہوکر،کسی نہ کسی طوروالدین کوسکھ دے سکے گا۔
٭بیشترکسان گزارے کی سطح سے اس لیے بلندنہیں ہوپاتے کہ وہ دورافتادہ علاقوں کیلئے اضافی پیداوارحاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے اوراگرایساکربھی لیں توانہیں دورافتادہ مارکیٹ کااندازہ نہیں ہوتا۔درمیانے تاجراس معاملے میں اہم کرداراداکرتے ہیں۔ بیشترپسماندہ معاشروں میں درمیانے تاجرغیرمعیاری ہیں جس کے باعث ان کی کارکردگی لوگوں کامعیارزندگی بلندکرنے میں کوئی اہم کردارادانہیں کرپاتی۔
٭غریب تردیہی علاقوں میں لوگ خوراک کے حصول کویقینی بنانے کیلئے زمینوں کوحدسے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ زرعی زمین کوگنجائش سے زیادہ استعمال کرنے کی صورت میں پیداواری صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے مگرزیادہ پیداوار حاصل کرناان کی مجبوری ہوتی ہے۔اگرکاشت کاری کے جدیدطریقے ان علاقوں تک پہنچ بھی جائیں توزرخیزی میں کمی کے باعث کسان اپنی زمینوں سے بہترنتائج حاصل نہیں کرپاتے۔قحط کی صورت میں دیہی علاقوں کے لوگ آئندہ فصل کیلئے بچائے جانے والے بیج کھاکربھی گزاراکرتے ہیں۔
٭تالاب،جھیلیں،جنگلات اورچراگاہیں سب کی ملکیت ہوتی ہیں۔دیہی علاقوں میں خوراک کے حصول کیلئے ان مشترکہ املاک پر بھی دباؤبڑھتاجاتاہے۔تالابوں،جھیلوں اور دریاؤں سے اگرمچھلی زیادہ پکڑی جائے توان کی تعداداورپیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔جنگلات سے لکڑی حاصل کرنے کیلئے درخت کاٹنے کاسلسلہ پرجوش انداز سے جاری رہے توزمین کاکٹاو بڑھتاجاتاہے اوراس کے نتیجے میں قدرتی ماحول کاتوازن بری طرح متاثرہوتاہے۔چراگاہوں سے اگرمویشیوں کوزیادہ مستفیدہونے دیا جائے توان کے سوکھنے اوربالآخرویران ہوجانے کاامکان قوی ترہوجاتاہے۔مشترکہ اثاثوں اوروسائل کابہترنظم ونسق حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان سے بہتر طور پرمستفیدہوسکیں۔آبی ذخائرکااندھادھنداستعمال پورے ماحول کوشدید مشکلات سے دوچارکرتاہے۔کسی علاقے میں بڑے تالاب یاجھیل کے پانی اوراس میں پائی جانے والی مچھلیوں پرسب کاحق ہوتا ہے مگراس حق سے مستفیدہونے کی کوئی نہ کوئی معقول حدضرورمقررکی جانی چاہیے۔
٭سرمائے کی کمی بھی افلاس زدہ علاقوں کامقدرتبدیل نہیں ہونے دیتی۔چھوٹے پیمانے پرکام کرنے والے آجروں کے پاس سرمایہ اس قدرکم ہوتاہے کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت بہترڈھنگ سے بلندکرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
٭اوریہ تلخ حقیقت ایذارسانی میں سب سے بڑھ کرہے کہ افلاس کے ہاتھوں انسان زندگی بھر نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلارہتاہے۔ لوگ جب یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ افلاس کے خلاف جنگ جیتناان کے بس کی بات نہیں توان کے حواس بکھرنے لگتے ہیں اورہرمعاملے میں ان کی سوچ الجھتی چلی جاتی ہے۔کسی بھی افلاس زدہ شخص کوشناخت کرنازیادہ مشکل کام نہیں کیونکہ وہ اپنے قول اورفعل سے اپنی مادی،روحانی اورنفسیاتی اصلیت کاپتادے دیتاہے۔شدیدافلاس سے بے چارگی کاایساتوانااحساس جنم لیتا ہے جس سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا۔افلاس کی شدت انسان کوسوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم کردیتی ہے۔
سودمرکب کی طرح افلاس بھی مزیدافلاس کوجنم دیتاہے اورانسان خودکوذلت کے گڑھے میں محسوس کرتارہتاہے۔بیشترمفلس افراداپنے آپ سے شرمسارسے رہتے ہیں۔ستم
بالائے ستم یہ کہ انہیں ایسے لوگوں کی جانب سے بھی طعن وتشنیع کاسامناکرنا پڑتاہے جوخودبھی برے حالات کے بھنورمیں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں!کسی بھی انسان کیلئے اِس سے بڑھ کرپریشان کن اور افسوسناک کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ اہل خانہ کومطلوب مالیاتی وسائل فراہم کرنے میں ناکامی سے دوچاررہے!جوشخص اپنی بیوی اوراولادکوپیٹ بھرکھانافراہم نہ کرپائے اس کی زندگی میں شدید نفسیاتی الجھنیں رہ جاتی ہیں جوایک دوسرے کو پروان چڑھاتی رہتی ہیں۔یہ الجھنیں ان میں بے چارگی اورغصے کوبھی پروان چڑھاتی چلی جاتی ہیں ۔
افلاس سے مایوس کن حدتک دوچارعلاقوں میں خواتین کی حالت زیادہ قابل رحم ہوتی ہے۔وہ شدیدبے چارگی میں متبلارہتی ہیں۔ گھرکی چاردیواری میں انہیں تشددکانشانہ بنایاجاتا ہے اورگھرسے باہران کیلئیبہترمعاشی مواقع کافقدان ہوتاہیاورسب سے بڑھ کریہ کہ ان کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔خواتین کواحترام نہ ملنے کی صورت میں خاندانی نظام تنکوں کی طرح بکھرجاتاہے۔ بھارت اورپاکستان جیسے ممالک میں پسماندہ دیہی علاقوں کی خواتین کی کوئی شناخت ہے نہ بہترمعاشی مواقع۔اس کے نتیجے میں ان کی استعدادبھی متاثر ہوتی ہے اوراحترام کی نظرسے نہ دیکھے جانے پروہ نفسیاتی پیچیدگیوں سے بھی دوچاررہتی ہیں۔
یہ صورتِ حال شدیدڈپریشن کاباعث بنتی ہے،جس کے نتیجے میں افلاس ایک مستقل حقیقت کی شکل اختیارکرلیتی ہے۔ڈپریشن کا شکارہونے پرانسان مختلف نشہ آوراشیاکاعادی ہوتا جاتاہے۔افلاس زدہ معاشروں میں سگریٹ،چرس،بھنگ،افیم،ہیروئن،شراب اور دوسری بہت سے نشہ آوراشیاکااستعمال ڈپریشن کوٹالنے کیلئے کیاجاتاہے اورپھران اشیاکا استعمال عادات اورمزاج کاحصہ بن جاتا ہے۔نشہ آوراشیاکے استعمال سے انسان دماغی اورنفسیاتی طورپرکمزورہوتاجاتاہیاورافلاس کوایک ایسی سچائی کی حیثیت سے قبول کرلیتا ہے جسے ختم یاتبدیل نہیں کیاجاسکتا۔افلاس پیداکرنے والے حالات کابغورجائزہ لینے پریہ حقیقت مزیداجاگرہوتی ہے کہ مال وزرسے محرومی میں ساراقصوران لوگوں کانہیں جو شدید افلاس اورمحرومی کاشکارہیں۔عام طورپرجس صورتحال کیلئے افلاس زدہ افرادکوموردالزام ٹھہرایاجاتاہے اس کے معرض وجودمیں آنے میں بھی ان کاکوئی کرداریاقصورنہیں ہوتا ۔

Comments are closed.