صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
اسلام اصل میں جاننے اور بتانے کی چیز ہے۔۔ یہ منوانے کی نہیں ماننے کی چیز ہے۔۔ تو اسلام کو اس سے مطلب نہیں کہ کس نے مانا، اس سے مطلب ہے کہ کتنوں نے جانا۔۔ اسی لئے اسلام کو جاننے کا انتظام رکھا گیا، اور بتانے کا حکم دیاگیا۔۔ اور یہ جاننا اور بتانا مستند اور آسان بنادیا گیا۔۔ قرآن اسی جاننے کی مستند کتاب ہے، اور مسجد اسی بتانے کا آسان انتظام ہے۔۔۔
رسول اسلام ﷺ نے اسلام کو جاننے کا مرکز مسجد کو بنایا تھا۔۔ تو مسجد میں اپنے اور دوسرے سب اسلام کو جاننے آتے تھے۔۔ سماج کی کوئی بات ہو، حالات کی کوئی نزاکت ہو، مشورہ کی کوئی ضروت ہو، ہنگامی کوئی صورت ہو، علم کی اشاعت ہو، افراد کی تربیت ہو، بیماروں کی صحت ہو، مخلوق کی خدمت ہو، اور اللہ کی عبادت ہو، یہ سب مسجد کے اندر انجام پاتے تھے۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ مفلوک الحال غریبوں کی آمد پر رسول رحمت ﷺ نے مسجد میں ہی مدد کی عمومی اپیل کی تھی، اور سامانوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔۔ سعد بن معاذ کے علاج کا طبی خیمہ مسجد میں ہی لگا تھا۔۔ فوجی آپریشن کے نازک مشورے مسجد میں ہی ہوئے تھے۔۔ مجرموں سے جرح اور مقدمات کے فیصلے مسجد میں ہی کئے گئے۔۔ ہنگامی ضرورتوں اور قدرتی آفتوں کے وقت مسجد میں جمع ہوئے تھے۔۔ اور علم و عبادت سے تو مسجد ہر آن اپنی آن بان اور شان میں رہا کرتی تھی۔۔۔ تو یہ اسلام کو جاننے اور برتنے کے انتظامات تھے، اور یہ سب مسجد سے انجام پاتے تھے۔۔۔
مدینہ میں غیرمسلم وفود بے شمار آئے تھے، ابھرتے اور چمکتے مذہب کی حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھنے آئے تھے۔۔ تو نبی ہدی ﷺ نے غیر مسلموں کی رہائش مسجد میں رکھی، ان سے گفتگو مسجد میں فرمائی، اسلام کی زندگی اور پیغام کی سچائی ان کو مسجد میں دکھائی۔۔ ان کے اعتراضات اور سوالات کی وضاحت مسجد میں کی گئی، حضرت حسان نے مسجد کے منبر پر بیٹھ کر اشعار میں، اور حضرت ثابت بن قیس نے خطابت سے ان کو مسجد میں جواب دئے۔۔۔ تو یہ اسلام کو بتانے اور دکھانے کے انتظامات تھے، اور مسجد سے انجام دئے جارہے تھے۔۔۔
تو مسجد مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں سے رابطہ کا مرکز تھی، اور ہر طرح کے اچھے کام کی جگہ تھی۔۔ تب مسجد کا پیغام زندہ تھا، وہاں آنا آسان، اور اسلام کو جاننا سہل تھا۔۔ عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں مسجد ایسی ہی تھی، اور اس کی افادیت ہمہ گیر تھی۔۔۔
آج ہم اس افادیت کے زیادہ محتاج ہیں، اسلام کو جاننے اور بتانے کی زیادہ ضرورت آئی ہے، سماج کے مسئلوں پر مشورہ اور کام کی نوبت در آئی ہے، ہنگامی حالتوں اور عوامی تقاضوں کو پورا کرنے کی حاجت آن پڑی ہے۔۔ اور تعلیم کو پھیلانے اور شعور کو جگانے کی ترجیح چھائی ہے۔۔۔ تو کیا ان کاموں کےلئے مسجد سے بہتر بھی کوئی جگہ ہے؟ اور ہر محلہ اور گاؤں میں مسجد کی موجودگی اس کا خدائی نظام نہیں ہے؟
تو اس نظام کو زندہ کیجئے، مسجد کی مرکزیت بحال کیجئے، اپنوں اور غیروں کی وہاں آمد خوشگوار بنائیے، سماج کے بنیادی کاموں کو وہاں جاری کیجئے۔۔ اور اللہ کے گھر کو اللہ کے بندوں کا سکون بنادیجئے۔۔ اللہ کی رحمت ٹوٹ کر آئے گی۔۔ کہ وہ اپنے بندوں پر بڑا رحیم ہے۔۔ اور اسلام اسی پیغام رحمت کو بتانے اور دکھانے کا نام ہے۔۔
ہم اپنی اپنی جگہ آغاز تو کرسکتے ہیں، ایک اچھا نمونہ دوسرے نمونوں کی تحریک بنے گا، اور قدم بہ قدم کام آگے بڑھے گا۔
خدا حافظ
4 ستمبر 2020
15 محرم 1442
Comments are closed.