ڈاکٹر راحت اندروی مرحوم  اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا  از قلم : عامرظفر القاسمی ، نئی دہلی

ڈاکٹر راحت اندروی مرحوم

اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا

از قلم : عامرظفر القاسمی ، نئی دہلی

آپ کا پیدائشی نام راحت قریشی تھا۔ آپ کی پیدائش 1 جنوری0 195میں مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام رفعت اللہ قریشی ، جب کہ والدہ کا نام مقبول النساء تھا۔ آپ کے والد کپڑے کے ایک کارخانے میں کام کیا کرتے تھے۔ ہائر سکنڈ ری تک کی تعلیم اندور کے نوتن اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے اسلامیہ کریمیہ کالج سے 1973ء میں بی، اے کیا۔ برکت اللہ یونیورسٹی سے 1975ء میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور مدھیہ پردیش کی بھوچ اوپن یونیورسٹی سے 1985میں اردو میں مشاعرہ کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کی، ان کے مقالہ کے نگراں ڈاکٹر عزیز اندوری تھے۔ آپ کو پینٹنگ کا بھی شوق تھا اور ساتھ ساتھ کرکٹ اور فٹ بال سے بھی آپ کو شغف تھا۔ 1972ء میں پہلی مرتبہ آل انڈیا مشاعرہ میں آپ مدعو کیا گیا ۔ آپ کے پسندیدہ شاعر غالب ہیں۔انہوں نے تدریسی زندگی کا آغاز آئی، کے کالج اندور سے کیا۔27مئی 1986میں آپ کی شادی سیما نامی خاتون سے ہوئی،جو بعد میں سیما راحتؔ کے نام سے مشہور ہوئی۔ ادبی خدمات کے علاوہ آپ نے پچاس سے زائد فلموں کے لئے گانے بھی لکھے ہیں ۔ آپ کو ایک درجن سے زائد ایوارڈ مل چکے ہیں۔ ادیب انٹرنیشنل ایوارڈ، اندرا گاندھی ایوارڈ ، ڈاکٹر ذاکرحسین ایوارڈ،پردیس رتن ایوارڈ،یوپی ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ، مرزا غالب ایوارڈ۔ان کی شاعری کے چند نمونے میں مقبول خاص و عام ہیں :

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو

سرکاری اعلان ہوا ہے، سچ بولو

گھر کے اندر جھوٹوں کی منڈی لگی ہے

اور دروازے کے باہر لکھا ہے سچ بولو

گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے

گلدستے کے اندر کیا ہے سچ بولو

گنگامیں ڈوبنے والے اپنے تھے

ناؤ میں کس نے چھید کیا ہے سچ بولو

جب2002ء میں ہولناک گودھرا سانحہ پیش آیا تھا ، اس موقع پر آپ نے یوں کہا ؎

جن کا مسلک ہے روشنی کا سفر

وہ چراغوں کو کیوں بجھائیں گے

اپنے مردے بھی جو جلاتے نہیں

زندہ لوگوں کو کیوں جلا ئیں گے

ڈاکٹر راحت اندوروی کی شاعری حکومت ِ وقت کو للکارنے کے ساتھ ساتھ مظلوم اور پسماندہ، بالخصو ص مسلم طبقہ میں امید کی کرن جگاتی تھی ، وہ ظلم کے خلاف ڈٹ کر آنکھوں میںآنکھیں ڈال کر گفتگو کیا کرتے تھے ۔ ملک بھر ایک مخصوص طبقہ کی طرف سے آواز اٹھائی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک سے نکال دیا جائے گا ، لیکن اس وقت راحت اندروی نے ڈٹ کر اپنی شاعری کے ذریعہ بیباک ہوکر کہا ؎

اب کے جو فیصلہ ہوگا یہیں پر ہوگا

ہم سے اب دوسری ہجرت نہیں ہونے والی

اور

جو زخم ہیں ،یہیں کے ہیں ،مرہم یہیں کے ہیں

ہم کیوں کہیں پہ جانے لگے، ہم یہیں کے ہیں

ان کی شاعری دور کی کوڑی نہیں تھی ، بلکہ زمین حقائق سے مربوط اور انسان سے ہم آہنگ شاعری تھی ۔ سالِ رواں اور گزشتہ دسمبر میں سی اے اے اور این آرسی اور این پی آر کیخلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرین اور نعروں میں ان کا ایک شعر زبان زد خاص و عام ہوگیا ؎

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

آپ کی شاعری میں سیاسی فکر بھی نظر آتی تھی،اور کم از کم ہندوستان میں رہتے ہوئے سیاسی فکر اور بالیدگی کا اظہار نہ ہو، ان کے مسلک کے لحاظ سے بہت بڑا جرم تھا ، راحت اندوری مرحوم نے چھتیس گڑھ میں دیئے گئے ایک ا نٹرویو میں کہا تھا کہ’ جب چاروں طرف آگ لگی ہو ، دھواں اٹھ رہا ہوں ، قتل و غارت گری مچی ہوئی ہو ، اُس وقت آپ عاشقانہ غزلیں گار ہے ہوں،محبوب کی ادا اور نخروں کی تشریح کررہے ہوں ، تو ایسا کرنا شاعری کے مسلک کیخلاف ہے ، بلکہ آپ ایسے وقت ظلم اور ستم کیخلاف احتجاج کریں ، اپنی شاعری کے ذریعہ ناامید ی کی تاریکی کو دور کریں ‘۔ان کی شاعری میں انقلاب کی آمدبھی تھی ، اور امید کی کرن بھی، ذیل میں ان کی مشہور غزل ملاحظہ کریں ؎

اگر خلاف ہے تو ہونے دو جان تھوڑی ہے

یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں ،لیکن

مگر ہماری ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

جو آج صاحب ِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں ،ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون شامل ہے ،یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

دوسری جگہ اربابِ مسند و اقتدار کی منافقت کا یوں پردہ چاک کرتے ہیں ؎

کل تک در در پھرنے والے گھر کے اندر بیٹھے ہیں

اور بیچارے گھر کے مالک دروازے پر بیٹھے ہیں

کھل جا سم سم یاد ہے کس کو کون کہے اور کون سنے

گونگے باہر چیخ رہے ہیں بہرے اندر بیٹھے ہیں

نبی پاک ﷺ کی شان اقدس میں راحت اندوری نے یوں نذرانہ محبت و عقیدت پیش کیا ؎

زمزم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا

یا نبیﷺ آپکی تعظیم نہیں لکھ سکتا

میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت

آپ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا

شاعر کا دل حساس ہوتا ہے ، اسی حسیت اور ادارک نے اپنی فنا اور موت کے متعلق یوں اظہار کیا ہے کہتے ہیں ؎

گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے

اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے

جسم سے ساتھ نبھانے کی مت امید رکھو

اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے

موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار

میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے

نشہ ایسا تھا کہ میخانے کو دْنیا سمجھا

ہوش آیا، تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے

مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر

میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے

ان کے پسماندگان میں اہلیہ سیما راحتؔ، 3 بیٹے فیصل راحت، ستلج راحت اور سمیر راحت اور ایک بیٹی شبلی عرفان کو چھوڑا ہے۔11اگست 2020کی شب ساڑھے نو بجے اندور میں ہی اے بی روڈ واقع چھوٹی خزرانی قبرستان میں سپرد خاک ہوئے اور یہ سچ ثابت ہوا کہ یہ دوگز زمین ان کی خصوصی ملکیت ہے ، جس کے بارے میں انہوں نے بڑے طمطراق اور وثوق سے کہا تھا ؎

دو گز سہی ،مگر یہ مری ملکیت تو ہے

اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا

٭٭٭

Comments are closed.