جتنے ایام میں اس عالمِ فانی میں رہا غم ترا نام مرے دشمنِ جانی میں رہا

جتنے ایام میں اس عالمِ فانی میں رہا
غم ترا نام مرے دشمنِ جانی میں رہا
خوبصورت تھااسے دل میں کہیں رہنا تھا
ہائے افسوس مِری آنکھ کے پانی میں رہا
یوں تو کردار بدلتے رہے موقع موقع
ایک ہی شخص مگر ساری کہانی میں رہا
جارہے ہو کوئی الزام تو دیتے جاؤ
زخم جو تم نے دیا وہ تو نشانی میں رہا
موت کے بعد ہی ممکن ہے ٹھکانہ ملنا
عمر ساری میں فقط نقل مکانی میں رہا
چھین لی گردش حالات نے چہرے کی چمک
ساٹھ کا بوڑھا تو میں عین جوانی میں رہا
راستہ روکنے آئی تھیں بلائیں کتنی
قافلہ پھر بھی مرا اپنی روانی میں رہا
گفتگو جب بھی کبھی میری کسی سےبھی رہی
تو ہی لفظوں میں رہا تو ہی معانی میں رہا
شوق حالات نے جذبات مسل ڈالے ہیں
دل مرا اب نہ کسی رات نہ رانی میں رہا
سلیم شوق پورنوی
Comments are closed.