ایک جائزہ: روح تلمیذی اور تلقین استاذی

ام مسفرہ مبشرہ کھوت
علم ایک ایسی روشنی ہے جو زندگی کے تمام راستے منور کر دیتی ہے۔ ہر مشکل ہر مصیبت پار کرانے والی نعمت علم ہے۔ علم والا اور بنا علم والا برابر نہیں ہو سکتا۔ علم سیکھنے والے کی جہاں قدر کرنی پڑتی ہے وہی علم سکھانے والا اپنا مقام رکھتا ہے۔استاد وہ ہوتا ہے جو شاگردکو راہ دکھاتا ہے بڑا بناتا ہے انسان بناتا ہے۔ اسکی عزت ہر کسی پر لازم و ملزم ہے۔ ہاں ہم سبھی یہ بات جانتے ہیں اسی لیے ہر سال ٹیچرس ڈے مناتے ہیں۔
اور پھر یہی تو وہ دن ہے جب استاد کو تحفہ تحائف پیش کرکے کے عزت و احترام کا اظہار کرتے ہیں۔ یہی تو وہ دن ہے جب ہم کیک کاٹتے ہیں۔ خوب بن ٹھن کراسکول و کالج جاتے ہیں۔ یہی تو وہ دن ہے جب ہم اپنے استادوں کی نقل ان کے سامنے کرتے ہیں۔ جی ہاں ان کی عزت کا یہی تو وہ دن ہے جب ہم انکا مذاق اڑاتے ہیں وہ بھی ہنستے ہیں اور ہم بھی ہنستے ہیں۔
افسوس صد افسوس!! علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ کہنا پڑےگا
رہ گئی رسم تعلیم روح تلمیذی نارہی
نصاب بڑھ گیا تلقین استاذی نارہی
آہ وہ نادر استاد اور انکی درخشاں یادیں!کہ جب وہ داخل ہوتے تو سارے طلباءکے دل احترام کے جذبات سے امڈ پڑتے۔ وہ انتہائی تواضع اور وقار کے ساتھ بیٹھتے۔ انکے ارد گردایک ہجوم سر جکھاۓ بیٹھتا۔ وہ بلند اور فصیح لہجے میں دھیمے دھیمے احادیث کہتے” مجھ سے نافع(رح) نے اور نافع(رح) نے ابن عمر( رض) سے روایت کی ہے کہ فرمایا مجھ سے اس قبر کے مکین نے(صلی اللہ علیہ وسلم )” ۔یہ کہتے ہوۓ وہ دائیں ہاتھ سے روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف اشارہ کرتے اور حدیث کہتے ۔ہر سننے والوں پر رعب طاری ہوتا اور ہر کسی کے ذہن میں اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترجاتی، انہی مجالس سے بڑے بڑے علماء زمانے کی تربیت کے لئے کھڑے ہوتے۔ ان کا انوکھے انداز آج بھی کتابوں میں سنہرے لفظوں میں درج ہے۔ یہ کوئی اور نہیں امام مالک رحمتہ اللہ کی شخصیت ہیں ۔جنھوں نے کس اعلی شان سے علم بانٹا آج وقت انکے قدموں کو چومتا ہے۔ امام شافعی کو پناہ دینا، انکا خرچہ برداشت کرنا، انکی تربیت کرنا،انکو آگے علمی سفر پر روانہ کرنا اور پھر جب وہ گھر لوٹ رہے تھے تو ان کے ساتھ بہت سا مال دینا اور آگے بھی دیتے رہنا۔ یہ سب استاد گرامی امام مالک کے ان احسانات میں شمار ہوتا ہے جن کے بغیر امام شافعی ، جو انکے طالب علم کی حیثیت رکھتے ہیں انکی سیرت، انکی کفالت و تربیت، ان کا علمی سفر، سب کچھ نا مکمل ہے۔
تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاذ کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیئہ دل پیش کیجئے
آیا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے
پہلے کے ادوار میں اساتذہ نے علم پہچانے کو اپنی ذمہ داری سمجھ لی، اب جیب کی مجبوری جان بیٹھے ہیں۔ پہلے اساتذہ علم کے علم بردار، حق کے سپاہی، انقلاب کے راہی کڑھے کرنا چاہتے تھے، اب رڑلٹ% 100 آنے سے مطلب ہے۔ علم کی اہمیت کو خود انھوں نے ہی مادہ پرستی کی بلی چڑھائی اب رونا ہے کہ ہماری عزت باقی نہیں۔
قارین ذرا یاد کریں امام ابو حنیفہ کی وہ مجلیسیں جہاں مسئلوں کا حل نکالا جاتا ۔ استاد شاگرد روبروعلمی بحث کرتے مگر نا استاد میں تکبر ہوتا نا طلباء بدتمیزی کرتے۔ استاد بھی ایسا کہ لوگ مسائل کھڑے کرتے جاتے، معاملات الجھاتے جاتے، ہم عصر ابھی سوچوں میں گم ہیں اور جناب ادراک وفہم نے حل نکالا بھی اور اپنی ذہانت و فراست سے سب کو حیران کردیا۔ اگر مجلسوں میں شاگرد کہیں ٹوک بھی دیتے تو وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے۔ ایسا استاد جو بہت خوبیوں کا حامل ہے لیکن یہ کہ پاوں زمیں پہ ہے۔ یاد رہےامام ابو حنیفہ گدھے کے لئے احتراماً کھڑے ہو جایا کرتے کہ اس سے بھی کچھ سیکھا ہے۔ سچ ہے عزت دینے والے کو ہی عزت ملتی ہے۔ آج کلاس روم میں شاگردوں پہ چڑھائی کرنے کے علاوہ بھی کام ہو تو شاید پلکیں بچھیں رہیگی۔ اسائنمنٹ پروجیکٹ کے لیے ستانا، پریزنٹیشن اور وائیوا میں ذلیل کرنا ،امتحان میں کم مارکس دینا نا اگر یہ سب کرکے ٹیچرس کا مرتبہ بڑھتا ہے تو آج شوشل میڈیا پر اتنے meme انکے نام نا ہوتے۔ آج استادوں نے نا اپنا مقام قائم کیا نا طلباء نے حقیقی عقیدت رکھی۔
پہلے علم کی فضیلت یوں تھی کہ ولی عہد کی خوب تعلیم و تربیت ہوتی اور بادشاہ کے بھی دربار میں عمدہ شخصیات ہوتیں۔ عوام بھی انکو حاکم مانتی جو لائق ہوتا۔ جب بھی سکندر اعظم کے کارنامے سننے میں آتے ہیں تب ارسطو کا وجود ان کے پیچھے کھڑا مسکراتا ہے۔ سننے میں یہ بھی آتا ہے کہ اورنگ زیب اپنے تخت سے اتر کر استاد کا استقبال کیا کرتے تھے۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے مامون الرشدید اور امین الرشید اپنے استاد کے جوتے پکڑانے کے لئے لڑپڑے۔ ماضی عزت افزائی سے لبالب ہے اور حال دیکھیے کہ ایک جعلی ڈگری والا نظام چلا رہا ہے درس گاہوں میں آ آ کر علم کے وارثوں کو پٹوا رہا ہے اور کہاں ہے ہمارے ملک کے سچے طلباء جنھیں قوم کی معماری کرنی تھی۔ جی بالکل زنداں میں ز ندہ ہیں۔ پوچھنا بنتا ہے کیاساوتری بائی پھلے اورمہاتما جوتی باپھلے نے اسی دن کے لیے لیے چوٹیں برداشت کیں تھیں۔رادھا کرشن کا ماننا تھا کہ استاد ملک کا بہترین ذہن ہونا چاہیے ۔ ان کا جنم دن ہم بطور تہوار ٹیچرس ڈے مناتے تو ہے مگر جب پرسنٹیج % کم آتے ہیں تو ایسوں کو ٹیچر بننے کا مشورہ دیتے ہیں۔ چانکیہ جی، رابندر ناتھ ٹائیگور، سوامی دیانند سرسوتی، سوامی ویویکانند، مولانا ابوالکلام آزاد، سر سید احمد خان، نطام الدین اولیا(رح)، معین الدین چشتی(رح)، پریم چند۔۔۔۔ ایسے کئی ناموں کی فہرست ہے جنھوں نے فضول رسومات کو توڑا ، جہالت کے اندھیرے میں علم کا چراغ جلایا۔ ان کے ہی فضل سے ہم اور آپ پڑھ سکتے ہیں ۔مگر کیا انکے خوابوں کی صحیح تعبیر ابھی ہوئی ہے؟ عبد الکلام کو ہم سے بچھڑے ہوئے ہوئے زیادہ دیر بھی نہیں ہوئی اور ان کے ویژن 2020 کو کورونا ہوگیا۔ ہاۓ ! گنوادی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی ۔
لیڈروں کے خوابوں والی وہ سحر اس لیے بھی نہیں آئی کہ اب علم اور اسکی کی اہمیت اٹھ رہی ہے۔ اگرچہ کورسس کی بہتات ہے، آن لائن سہولیات دستیاب ہیں مگر وہ ماحول جو ماضی کی تابناکی کی گواہی دیتاتھا اب شاذونادر ہے۔ جب اسکولوں کی عمارتیں نا تھیں، بڑے بڑے کیمپس نہ تھے، کمپیوٹر انٹرنیٹ نہیں تھا، مگر علم کی خوشبو سے فضا مہکتی تھی۔ والدین کے اندر جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ ان کے بچے حق کی روشنی پائے۔ پہلے علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز بھیجنا پڑتا تھا ،اب تو آن لائن آپ کے جادوئی باکس موبائل میں سب کچھ موجود ہے۔ لیکن وہ بھی کیا دور تھاکہ جب ماں کہتی بچے سے کہ "ہمیشہ سچ بولنا” بچہ ڈاکوؤں کے سردار کے سامنے کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ ” میرے پاس۴۰ اشرفیاں موجود ہے” اور آج بھی کیا دور ہے کہ جب بچہ اپنی ماں کو یقین دلاتا ہے کہ "ہاں میں پڑھائی کر رہا ہوں” مگر وہ چھپ کر گیم کھیلتا ہے۔ آج کی نازنین مائیں لندن سے لوٹے ہوۓ بیٹے سے اچھا ہینڈ سیٹ مانگتی ہے اور سلام ہو امام شافعی کی والدہ ماجدہ پر کی بیٹا ۸ سال بعد گھر لوٹا ہے، ماں کے چہرے پہ اداسی ہے کہ وہ بہت سے مال سے لدے خراسانی گھوڑوں،مصر خچرون کے ساتھ آیا ہے۔ امام غزالی (رح) کے والد کی دلی تمنا تھی کہ انکے دونوں بیٹے علم کے زیور سے آراستہ ہو اور انکی سچی تڑپ کا نتیجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ امام ابن تیمیہ (رح)کو انکے دادا اور ابا حضور سے وراثتاً بہت سی صلاحیتیں ،علم کا ذوق ، جذبۂ حق، نیک صحبتیں ، علم و ادب کی محفیلیں اور دعائیں ملی تھیں۔
قارین علم سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں سے آہستہ آہستہ روح نکل رہی ہے ۔ اس عمل کے سدھار میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔ آج انسانیت چیخ رہی ہے، حیوانیت جگہ جگہ رقص کر رہی ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ آدمی آدمیت کے دائرے سے نکل رہا ہے۔ اللہ نے آدم علیہ السلام کو چیزوں کے نام سکھاۓ اور اسی لیے فرشتے سجدہ ریز ہوۓ۔ انسان آج اپنے والد اول کو کیے گیا سجدہ اور اسکی عظمت بھول گیا ہے۔ نتیجہ ہم سبھی کسی نا کسی سطح پہ بھگت رہے ہیں۔ چلیں کو وڈ گھر قید کے دور میں اس تبدیلی کا بھی عہد کریں۔ امسال یوم اساتذہ پر اگر مبارکباد دینا لینا ہو گئی ہو تو آۓ انقلاب کی تیاری کریں۔
Comments are closed.