کئی دماغوں کا ایک انساں

بدر القاسمی( کویت)
امین عثمانی اور فقہ اکیڈمی دونوں ایک دوسرے کےایسے لازم و ملزوم ھو گئے تھے کہ ایک کا تصور دوسرے کے بغیر ذھن میں آتا ھی نھیں ھے
تاسیس کے وقت سے آج تک امین عثمانی صاحب ھی اسکے انتظامی ڈھانچہ کے روح رواں رھے ھندوستان سے لیکر عرب ممالک تک یہ بات اتنی پختہ ہو گئی تھی کہ آج انکے انتقال کی خبر الجزائر کے زغیبہ صاحب نے دی ھے تو انھوں نے انکا تعارف فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے کرایا ھے
اور اسمیں کو ئی شک نھیں کہ فقہ اکیڈمی ھی انکی زندگی تھی وھی انکے لئے زندگی کا سرمایہ تھی اور اسے انھوں نے اپنے خون سے سینچا تھا اسی کےلئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی
بیرونی دنیاکے مختلف اداروں سے علمی و ثقافتی رابطے قائم کرنے اکیڈمی کے مختلف مشروعات کیلئے اسباب و وسائل فراہم کرنے کی تحریک ھمیشہ امین عثمانی صاحب ھی طرف سے ھوتی تھی اوروہی ھمیشہ یاد دہانی کراتے رھتے تھے
ان کا ذھن بڑا ھی زر خیز واقع ھوا تھا
ھر پروگرام کے لئے انکے ذھن میں دسیوں تجاویز ھوا کرتی تھیں
انکو سیمیناروں فقہی وفکری کانفرنسوں اور مختلف علمی موضو عات پر اجتماعی پروگرام منعقد کر نے کا خاص ملکہ تھا بھت جلد اس کا خاکہ بناتے اسباب وسائل فراہم کر نے کی کوشش کرتے مناسب شخصیات کا دنیا کے مختلف ملکوں سے انتخاب کرتے اور پوری توجہ سے اسکی تنفیذ میں لگ جاتے تھے انتظام کے بعد پھر وہ خود عمومااسٹیج سے روپوش ہو جاتےتھے اسٹیج پر آنے سے انک کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن پروگرام کی کامیابی کیلئےاپنی پوری طاقت لگادیتے تھے
انکے تعلقات کا دائرہ بیحد وسیع تھا اور انکی پھنچ بھت جلد دنیا کے ہر ملک میں وھاں کی مرکزی دینی شخصیات اور اہم اداروں کے ذمہ داروں تک ھوجاتی پھر انکو جمع کرنے کی کوشش میں لگ جاتے
امین عثمانی وہ نام تھا جس پر سبھی کو اعتماد تھا
امين عثمانی صاحب کو اللہ تعالی نے ایک خاص طرح کا دماغ عطا کیا تھا جو منصوبہ بندی اور تنفیذ کی بے پناہ قدرت اور صلاحیت سے آراستہ تھا
امت کے عمومی مسائل ھوں یا فقہ اکیڈمی کے مستقبل کا خاکہ امین عثمانی کا دماغ اس میں بڑی برق رفتاری سے چلتا تھا اور ایک سے بڑھ کر ایک منصوبہ انکے ذھن میں پوری تفصیل کے ساتھ آتا اور انکو نافذ کرنے کی راہ میں جو الجھنیں اور دشواریاں پیدا ھو سکتی تھیں انکا حل بھی انکے ذھن میں بڑی تیزی کے ساتھ آجا تا تھا
حقیقت یہ ھے کہ فقہ اکیڈمی کی ترقی وسعت اور اسے عالمی سطح کاادارہ بنانے کیلئے امین عثمانی صاحب کا دماغ خوب کام کرتاتھاانکے بنائیے ھوئے خاکے اور منصوبے اتنے زیادہ ھیں کہ ڈاکٹریٹ کے مقالہ کا عنوان بن سکتے ھیں
انکے پیش کردہ مشروعا ت پر عربوں کو بھی حیرت ھوتی تھی جو اسباب وسائل کی فراہمی میں معاون ھو تے تھے
امین عثمانی صاحب کی شخصیت میں کئی باتیں ایسی تھیں جو انھیں دوسرے دینی و علمی کام کرنے والوں اور دینی اداروں کے ذمہ داروں سے ممتاز کرتی تھیں
اپنی شخصیت کونمایاں کرنے کاجذبہ انمیں کبھی پیدا نھیں ہوا بلکہ اپنی شخصیت کو مٹاکر دوسروں کو آگے رکھنا ہی ان کا مشن رھا
اکیڈمی کا فروغ ہی انکے لئے کامیابی کی معراج تھی
انکے وجود پر فقہ اکیڈمی کی ترقی کا مسئلہ اس طرح چھایا رہا کہ انھوں نے کسی اور طرف کبھی رخ ہی نھیں کیا حالانکہ اگر وہ چاھتے دوسرے ذمہ داروں کی طرح اپنے کئ ادارہ چلا سکتے تھے اور انکو وسائل کی فراہمی میں کوئی دشواری پیدا نھیں ھوتی
اکیڈمی کی ترقی اسکے دائرہ کار کی توسیع اور دنیا کی دوسری فقھی اکیڈمیوں سے اس کا راب بطہ
امین صاحب بظاھر تو خاموش طبع متواضع اور اور عام اجتماعی سرگرمیوں اور مجلس آرائیوں سے دور تھے لیکن عالمی طور پر اورعربی و اسلامی ممالک میں تحریکی وجماعتی حلقوں سے انکے تعلقات کا دائرہ وسیع تھا اور ان میں مختلف علمی ودینی جماعتوں اور اداروں سے نئے تعلقات قائم کرنے کی بے پناہ صلاحیت بھی تھی لیکن یہ ساری صلاحتیں انھوں نے صرف فقہ اکیڈمی کے فروغ کیلئے استعمال کیں اور حضرت قاضی مجاھد الاسلام صاحب کی طرح سب کو جوڑ کر رکھنے کی کوشش کی اور جس طرح قاضی صاحب مرحوم ھردن یا ھر دوسرےدن ٹیلیفون کرتے اسی طرح امین صاحب کا بھی خطوط ٹیلیفون یافیکس کےذریعہ معمول بن گیا تھا تھا
انکی تمام تر دلچسپیوں کا دائرہ اسلامی فقہ اکیڈمی میں سمٹ گیا تھا چنانچہ اکیڈمی کی سرگرمیوں کی پلاننگ اوراس کیمنصوبہ بندی بڑی حد تک امین عثمانی صاحب کی ذھنی وجسمانی جد وجہد اور کاوش کی رھیں منت ھے
اور بیرونی دنیا اور خاص طور سے کویت کے اداروں سے روابط امین صاحب ھی کی مراسلت ومتابعت کا نتیجہ ھے ھے جو ایک لمحہ اپنے مقصد سے غافل ھونا نھیں جانتے تھے
پچھلے دنوں مولانا اشرف علی باقوی مولانابرھان الدین سنبھلی اور مولانا محمد قاسم مظفر پوری صاحب کے انتقال سے اکیڈمی کا علمی وزن یقینا کم ھوا ھے اور اب امین عثمانی صاحب کے انتقال سے اکیڈمی کا انتظامی ڈھانچہ ایک ایسے دماغ سے محروم ھو گیا ھے جس کا کوئی بدیل نھیں ھے
کام جو شروع ھوتا ھے وہ جاری تو رھتا ھے لیکن منصوبہ بندی اور انتظام کے فرق سے اداروں کا وزن گھٹتا اور بڑھتا رہتا ھے
امين عثمانى صاحب كي منفرد شخصيت اپنے اوصاف وکمالات کے لحاظ سے بیحد ممتاز تھی
ان کا دماغ نہایت مبصرانہ اور تعمیری تھا
انکا دل نام ونمود اور شہرت پسندی کے جذبہ سے بالکل خالی تھا
ان کا سینہ اسلامی جماعتوں اوردینی شخصیات سے متعلق اسرار کا خزانہ تھا لیکن ان اسرار کے اظہار کےبارے میں بھی وہ نہایت امانت دار اور محتاط واقع ھوئے تھے اس لئےاس لئے سبھی جماعت کے ذمہ داروں کا ان پر کامل اعتماد تھا اور وہ سبھوں کی نظر میں پیکر اخلاص اور قابل احترام انسان تھے اور سبھی ان سے بے تکلف مشورہ لیتے تھے اور وہ سب کے کام آتے تھے اور عام طور پر ھر پیچیدگی کا حل وہ با سانی ڈھونڈ لیتے تھے
ان کا ذھن تحریکی تھا اوروہ غالبا عالمی احیائی تحریک سے جڑےھوئے بھی تھے لیکن انکے کام کا میدان اس سے الگ تھا وہ ایسی شخصیات اور ایسے اداروں سے وابستہ رہے جن کا ان تحریکات سے کوئی تعلق نھیں تھا یا انکا طریق کار ان سے مختلف تھا لیکن امین صاحب کی نظر میں ھر وہ کام جو اسلام اور مسلمانوں کے کیلئے مفید ھو وہ اپنا کام تھا اسی طرح اپنی وابستگی کے باوجود اوروں پر اسے تھوپنے کی کوشش نھیں کرتے تھے اورنہ دینی عمل کو کسی ایک جماعت کے مخصوص دائرہ میں محدود سمجھتے تھے بلکہ وہ جماعتوں کے درمیان فریق کے بجائے رفیق بن کر اور حریف کے بجائے معاون اور صدیق بن کر کام کرنے کے قائل تھے اور اسی پرساری زندگی عمل پیرا رھے
امین عثمانی صاحب نے ھمیشہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کو عالمی معیار پر لا نے اور عالمی بنانے کیلئے بھر پور جد وجہد کی اکیڈمی کے لئے زمین کی خریداری کا مسئلہ ھو یا اسکی نئی عمارت کی تعمیر کا فقھی سیمیناروں میں بیرونی مہمانوں کی شر کت اور دیگر انتظامات کا امین صاحب کا ذھن زندگی اسی فکر میں لگارہتاتھا
انھوں نے میرے ساتھ ھمیشہ وھی روابط رکھنے کی کوشش کی جو حضرت قاضی صاحب مرحوم کی روایت تھی اس فرق کے ساتھ کہ قاضی صاحب استادانہ انداز پرحکم دیکر کام لینے کے عادی تھے قاضی صاحب کا ٹیلیفون میرے پاس تقریبا ہر دن ہی آتا تھا امین صاحب کاانداز برادرانہ اور دوستانہ ھوا کرتا تھا لیکن کام کا لگن تقریبا دونوں میں ہی برابر تھا وہ بڑے سے بڑا کا م وہ آسانی سے کرا لیتے اور اسکے لئیے تمام تدبیریں وہ بروئے کار لاتے اور جب تک کام ھو نھیں جاتا چین سے نھیں بیٹھتے تھے
امین عثمانی صاحب کے ساتھ معاملہ کرنا توھر شخص کیلئےآسان اور ضرر سے سے خالی تھا لیکن انکی شخصیت کی گہرائی کوسمجھنا اور انکی پہلو دار اور تہ بہ تہ ذات کو جاننا سب کے لئے آسان نھیں تھا
امین صاحب کے روابط مختلف جماعتوں اور متضاد قسم کے لوگوں سے تھے لیکن یہ معلوم کرنا کسی کیلئے آسان نھیں تھا کہ امین صاحب کا جھکاؤ کدھر ھے اور وہ کس فکر ورجحان کے کے آدمی ھیں ان کا کمال یہ تھا ان کےاوپر کسی جماعت کی حمایت یامخالفت میں ھم لوگوں کی طرح کبھی بھی جذباتیت طاری نھیں ھوتی تھی وہ بولتے کم اور سنتے زیادہ تھے وہ خود کو چھوٹا رکھنے کی کوشش کرتے اور کسی بھی مسئلہ میں خود کو دعویٰ اور چیلنج کر نے کی پوزیشن میں نھیں لا تے تھے وہ معاملہ کی نزاکتوں کو سمجھتے سب سے زیادہ اور بولتے سب سے کم تھے اور
ان کاحال اجتماعی کاموں اور لوگوں کے ساتھ معاملہ میں وہی تھا
ہر ایک سے آشنا ہوں لیکن جدا جدا رسم وراہ میری
کسی کا راکب کسی کا مرکب کسی کو عبرت کاتازیانہ
آخر میں انکو بعض تلخیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا بہت سے وہ ساتھی جن کو امین صاحب نے ہی سر چڑھایا تھا آگے بڑھایا تھا وہی سر چڑھنے لگے تھے بہر صورت و ہ تلخ وشیریں سب پینے کے عادی ھو گۓ تھے اور شکوہ شکایت سے بلند ھو کر کام کر نا جانتے تھے
غلطیاں سب سے ہوسکتی ہیں البتہ باہنی رکھ رکھاؤ اور عزت ووقار کا بر قرار رکھنا ضروری ھے
من ذا الذی ماساء قط
من لہ الحسنی فقط
امین عثمانی صاحب زندہ تھے تو ایک دنیا آباد تھی مستقبل کے علمی منصوبوں اور فقہی وفکری سیمیناروں کا نہ ختم ھونے والا سلسلہ وہ کسی نہ کسی عنوان سے ھمیں مشوروں میں شریک کرنے تحریروں میں ترمیم کرنے کیلئے جھنجھوڑتے مختلف اداروں سے رابطہ قائم کرنے ذمہ داروں کی اکیڈمی کی طرف توجہ دلانے پر ابھارتے رہتے ان پر بیداری ہی نہیں خواب میں بھی فقہ اکیڈمی ہی چھائی رہتی رہتی تھی
امین صاحب چلے گئے تو اب ھر طرف سناٹا ھے خاموشی ھے وہی موت کی خاموشی شہر خموشاں کی وحشت انگیزی
اللہ رے سنا ٹا ا آواز نہیں آتی
میں خود ھی زبر دست حادثہ کا شکار ہوا غم سے نڈھال تھا تو تعزیت کر نے والوں میں امین عثمانی صاحب بھی تھے اور وہ خود ہی پوری ملت کیلئے ایک سنگین حادثہ بن کر روپوش ھوگئے ہیں
مصائب اور تھے پر ان کا جانا
عجب اک سانحہ سا ھوگیا ھے
بدر القاسمی کویت ٥ -٩-٢٠٢٠
Comments are closed.