حضرت مولانا محمد قاسم صاحب مظفر پوری رحمہ اللہ: ایک خورد نواز بزرگ

عین الحق امینی قاسمی

معہد عائشہ الصدیقہ رحمانی نگر ،کھاتوپور،بیگوسرائے

موت ایک سچی حقیقت ہے،وہ نہ تو کمزور وتوانا کو دیکھتی ہے اور نا ہی صاحب علم وفضل کو،اُس کے سامنے ہر کوئی بے بس وبے کس،وہاں تو صرف ” ہوئے نامور بے نام نشان کیسے کیسے“اور زمین کھاگئی آسماں کیسے کیسے،کی کہانی ہے، وہ کہاں دیکھتی کہ ملت کے لئے کون کتنی اہمیت کا حامل ہے ،کس کے اُٹھ جانے سے ملت اسلامیہ یتیم ہوجائے گی،موت کو اس کا کوئی غم نہیں کہ جانے والا اپنے پیچھے کتنا بڑا خلا چھوڑ کر جارہا ہے جس کی بھر پائی بظاہر دور تک مشکل نظر آرہی ہے ،اُسے اس سے کیا مطلب کہ مولانا محمد قاسم صاحب مظفرپوری کون ہیں ؟اُن کی ایک شخصیت میں کتنوں کا عکس پنہاں ہے ،وہ کیوں کر یہ جاننے کی کوشش کرے کہ وہ ادلہ حنفیہ کی تکمیلات کے مصنف ہیں یا امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی اور قاضی القضاةمولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمی کےپرتَو ہیں ،آخر وہ یہ جان کر کرے گی بھی کیا کہ مولاناسرتا پا منکسر المزاج اور تواضع انکساری میں تنہا تھے ،زبردست داعی، فقیہ اور کار قضا کے لئے طویل تر تجربہ کے مالک تھے اور ان سب کے علاوہ ،وہ ایک خورد نواز بزرگ تھے،وہ اب اُس موت کے آغوش میں جا چکے ہیں ، جسے منٹ اور سکنڈ بھر کے لئے بھی تقدیم وتاخیر کی گنجائش نہیں ۔
مولانا اب مرحوم ہوگئے، ہمارے درمیان نہیں رہے ،مگر زندگی بھر جلسوں میں ،سیمیناروں میں یا خلوت سے جلوت میں اور قلم سے کتابوں میں جو کچھ وہ لکھ گئے یاکہہ گئے اس حوالے سے یقیناً :
تمہیں کہتا ہے مردہ کون ،تم زندوں کے زندہ ہو
تمہاری خوبیاں زندہ تمہاری نیکیاں باقی
اِس عاجز کی اُن سے پہلی ملاقات تب ہوئی تھی جب وہ بیگوسراے کے ایس کمال بلاک کے موضع صاحب پور کمال مدرسہ سعیدیہ میں 17/ذی قعد1428ھ کو منعقد ایک جلسے میں تشریف لائے تھے ،اِس سے قبل اُن کے بارے میں صرف سنا تھا ،اُس جلسے میں بحیثیت سامع میری شرکت صرف مولانا کی وجہ سے ہوئی تھی ،جلسہ دیر گئے رات تک جاری رہا ،بعد فجر اس عاجز نے ملاقات کی سلام ودعا کے بعد بڑے بھائی سابق قاضی شریعت مظفر پور مولانا محمد زین العابدین قاسمی زید مجدہ کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا ،حضرت بہت مسرور ہوئے اور فرمایا کہ : ” مولانا بہت نیک ہیں ،سادے آدمی ہیں ، خاموشی سے قضاء کے کاموں کو دیکھ رہے ہیں ، مظفر پور کے مسلمانوں کا رجحان جامع العلوم کی طرف اچھا خاصا ہے ،اس نسبت سے وہاں کا دارالقضاء بھی ملک کے مصروف ترین دارالقضاؤں میں سے ہے ،پھر خود ہی عاجز سے پوچھنے لگے کہ آپ کیا کرتے ہیں "بس جلدی سے سوال کا مختصر سا جواب دے کر اپنا مدعا رکھ دیا کہ حضرت آپ کی واپسی چوں کہ کھاتوپور بیگوسرائے کے راستے ہی ہے ،اس لئے خواہش تھی کہ تھوڑی دیر کے لئے ادارے میں آپ کی حاضری ہوجاتی تو ہم لوگ کو خوشی ہوتی ،مزاحا فرمایا کہ ایسے کیا آپ ناراض ہوجائیں گے ،یہ کہہ کر خود بھی مسکرائے اور مجلس میں شریک دیگر حضرات بھی حضرت والا کے اس جملے سے بہت محضوض ہوئے اس طرح سے پوری مجلس بیک وقت میری طرف متوجہ ہوگئی ۔ معا حضرت نے یہ بھی دریافت فرمایا کہ آپ کتنے لوگ ہیں ،عرض کیا کہ حضرت تنہا ہوں ،ارشاد فرمایا کہ تو بس میرے ساتھ ہی چلیں ۔حضرت کے اس خورد نوازی سے بے پناہ مسرت ہورہی تھی ،یہ اس لئے بھی کہ جناب قاری نسیم احمد صاحب رحمہ اللہ مظفرپوری جو کہ قیام معہد کے وقت افتتا حی اجلاس منعقدہ 9/3/2007,بروزجمعہ مونگیری گنج بیگوسرائے تشریف لائے تھے ،اس کے بعد سے کوئی قابل قدر بزرگ ہستی کی بابرکت آمد معہدمیں نہ ہو سکی تھی ۔ انتظامیہ کی طرف سےمختصر ضیافت کے بعد حضرت قاضی صاحب مرحوم اپنے ڈرائیور کے ساتھ گاڑی پر خود بھی بیٹھ گئے اور اس عاجز کو بھی ساتھ لے کر معہد عائشہ الصدیقہ کھاتوپور تشریف لے آئے،معہد عائشہ الصدیقہ کی تعمیری حالت اس وقت پھونس کے ایک کٹیا سے زیادہ کی نہ تھی،اسی میں تخت وغیرہ لگا کر ایک مختصر نشست قاضی صاحب کے استقبال میں ہوئی ،مگر قاضی صاحب میں نہ اکتاہٹ تھی اور نہ ہی جلدی،وہ دیر تلک ماضی میں خواتین اسلام کی مثالی خدمات اور قربانیوں پہ روشنی ڈالتے رہے اور معہد عائشہ کی مرکزیت اور اس کے بافیض ہونے کی نسبت سے دعا ئیہ کلمات بھی فرماتے رہے،مجمع مختصر ،مگرسراپا سمع وطاعت بن کر قاضی صاحب کو سنتا رہا ،اس درمیان حضرت نے ازخود معائنہ رجسٹر طلب فرماکر معہد کی تاریخ میں سب سے پہلا اپنا معائنہ تفصیل سے درج فرمایا ۔(فرحمہ اللہ رحمۃ واسعہ)
یاد پڑتا ہے کہ ایک مرتبہ اسی طرح حضرت قاضی صاحب کا پروگرام یبگوسرائے سے مشرق ، کسی ضلع میں پروگرام تھا ،وہاں سے فرصت پاکر پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک دس بجے دن میں معہد تشریف لے آئے اور اندر آکر سیدھے درسگاہ میں بیٹھ گئے ،قاضی صاحب کو دیکھ کر خوشی کی انتہا نہ رہی ،اتفاق سے وہ دن جمعرات کا تھا ،ہمارے یہاں معمول کے مطابق اس روز دینیات کا حلقہ لگاہوا تھا ،بچیاں اپنے اپنے حلقے میں رہ کر حضرت رحمہ اللہ کے سوالات کے جو ابات دیتی رہیں اورآپ انہیں سمجھاتے بھی رہے۔ اسی درمیان یہ نصیحت بھی فرمائی کہ بچیوں کو باجمات نماز پڑھوایا کریں ،اس سے ان کے لئے نماز کی رکعتوں کی تعدادبھی اور اس میں پڑھی جانے والی سورتیں اورادعیہ وسنن کا سیکھنا بھی آسان ہوگا ۔ادھرکچھ نہ کچھ ماحضر سے ضیافت کے لئے جب حضرت کی مجلس سے یہ عاجز اٹھنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ بھائی میں آج سیکھنے کے ارادے سے یہاں حاضر ہوا ہوں ،کچھ نہ کریں ،آپ کا نظام تعلیم کیاہے؟دارالاقامہ میں رکھ کر چھوٹی بچیوں کے لئے کیا سب سہولیات فراہم کرتے ہیں اور یہ چھوٹی چھوٹی بچیاں جن میں سے اکثر کی عمر کھیلنے کی ہے کیا یہ سب یہاں مانوس ہوجارہی ہیں ،آپ کا طریقہ تعلیم کیا ہے ،کیا کوئی نصاب پڑھاتے ہیں یا اپنا ہی کچھ تیار کردہ مضامین حالات اور تقاضے کے اعتبار سے پڑھادیتے ہیں اور ان بچیوں کا تعلیمی مستقبل کیا ہے ۔
آپ یقین مانئے وہ سیکھنے کیا آئے یا آتے وہ درحقیقت بڑےبھائی جان مولانا قاضی محمد زین العابدین قاسمی سابق قاضی شریعت مظفر پور کی نسبت ومحبت میں میری تربیت و خورد نوازی کے لئے تشریف لائے تھے ۔ظاہر ہے جنہوں نے ہزاروں علماء و فضلاء کی، اپنےبے پناہ علم وتجربے سے تعلیم وتربیت فرمائی ہو وہ اس چھپر کے نیچے کٹیا میں ایک ناتجربے کار ،محض جوش وجذبے کا پلندہ اور علم وعمل سے عاری شخص سے کیا سیکھنے آتے ،مگر ہاں یہ ان کی سراپا خورد نوازی تھی ،شفقت تھی ، چھوٹوں کو نوازنے کی ادا اوربے پایاں دینے کی طلب وتڑپ تھی ،وہ اپنا کچھ وقت نکال کر ایک بے مایا کو ڈھارس بندھانے آئے تھے،وہ بلغوا عنی ولو آیہ کے حقیقی مصداق تھے ، وہ اپنی انفرادی مجلسوں میں کہا کرتے تھے کہ مولانا ہم اپنی ذمہ داری پوری پوری نہیں نبھا رہے ہیں ،ہمیں جو کچھ اور جیسا کچھ آتا ہے ہم دوسروں تک پہونچا نہیں رہے ہیں ,ہم پانچ وقت کی اذان پڑھتے ہیں ،مگر اس کے مطالب ومقاصد سے اوروں کو یابرادران وطن کو واقف نہیں کر اپاتے ہیں۔ اپنے سے چھوٹوں کو قریب رکھ کر اورخود ان سے قریب ہوکر انہیں خوشی ملتی تھی ،وہ خاص طور پر مکاتب کے نظام تعلیم سے بہت خوش ہوتے تھے ،اور اس کی ضرورت پر متوجہ کرتے رہتے تھے اس کی اہمیت پر جب گفتگو فرماتے تو بعض دفعہ چہرے کا رنگ اور گفتگو کا لہجہ بدل جاتا تھا ،مکاتب جہاں بچو ں کوعقائد ،ایمانیات ،اخلاقیات ، معاشرت اور قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی وہاں کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے مل کر ان کے بازو میں قوت آجاتی تھی،اسی لئے وہ مکاتب میں پڑھانے والوں سے بھی چل کر ملتے تھے،ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ،بنیادی دینی تعلیم دینے والوں کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ،جن میں زیادہ تر نوجوان، کم تجربہ کار حفاظ اور نئے فضلاء کی جماعت رہا کرتی ہے ،حضرت اس نئی پود کی خون جگر سے تربیت فرماتے اور اس خدمت کو بسا غنیمت قرار دیتے ہوئے فرماتے کہ اسی راستے پر قائم رہیے گا ،اس کو چھوڑئیے گا مت ،اسی سے اللہ آپ کے لئے مزید علم ومعاش کے راستے کھولے گا ،آپ کی بات گویا دل میں اترتی جاتی تھی یہاں تک کہ سامنے والا عزم بالجزم کے ساتھ اپنی قوت ارادی کو مضبوط تر کرلیتا ۔یہ کم ازکم ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ضرور ہے کہ مذکورہ بالاسوالات کے ضمن میں ان کی غیر معمولی حوصلہ افزائی اور ظاہری و باطنی توجہات وتربیت نے ہم جیسوں کو دینی خدمات کی راہ پر مضبوطی کے ساتھ قائم رکھا ہوا ہے ۔(اللھم زدفزد)
ایک تیسری تفصیلی ملاقات تب ہوئی تھی جب میری آبائی بستی گودر گاواں بیگوسرائےمیں مسجد کی تعمیر جدید کے موقع پر گاؤں والوں کی نیک خواہش کی بنا پرمؤرخہ 16/5/2012 کو سنگ بنیاد کا ایک عظیم الشان جلسہ رکھا گیا تھا ،اصل داعی بڑے بھائی جان تھے ،بھائی جان چوں کہ عاف باللہ حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب مدظلہ العالی کے دست گرفتہ ہیں اس لئے قاضی صاحب مرحوم نے فرمایا کہ حضرت کو مدعو کیجئے ،اس پر بھائی جان نے کہا کہ حضرت کا اشارہ آپ کی طرف ہے ،بس فورا حضرت نے منظوری دیدی اورمقررہ تاریخ میں طئے شدہ وقت سے بہت پہلے یعنی رات کا پروگرام تھا مگر حضرت دربھنگہ سے قریب ساڑھے گیارہ بارہ بجے دن میں ہی معہد عائشہ کھاتوپورتشریف لے آئے ۔میں مطمئن تھا کہ رات کا پروگرام ہے عام مقررین کی طرح پروگرام شروع ہونے کے بعد یا بہت جلدی تو عصر مغرب تک تشریف لائیں گے ،مگر حضرت ازراہ محبت ظہر سے بہت پہلے تشریف لے آئے ،گرمی سخت تھی ،معہد میں اس وقت دستی پنکھے سے کام چلایا جارہا تھا ،بجلی یا سیلینگ فین وغیرہ کا نظم نہیں تھا ،مختصر سے وقفے کے بعد احقر نے عرض کیا کہ حضرت مسجد میں ہی آرام کرنا مناسب رہے گا ،حضرت نے بخوشی آمادگی ظاہر کردی اور بغیر کسی ہٹو بچو کے عصر تک مسجد میں ہی نماز ومطالعے میں مشغول رہے اور اس درمیان وقفے وقفے سے مختلف جہتوں کی روشنی میں تربتی اور حوصلہ افزاء گفتگو کے ذریعے کامیاب زندگی کےگن سیکھا تے رہے ۔
حسن اتفاق کے دوسری اور تیسری دونوں حاضری میں حضرت کے ساتھ محب محترم جناب مولانا نثار احمد قاسمی صاحب زیدمجدہ بورام دربھنگہ ناظم ایجو کیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ بھی ساتھ تھے ،گاؤں کے جلسے میں میری نظامت تھی ،حضرت قاضی صاحب مرحوم کی صدارت ,جب کہ اجلاس کے مہمان خصوصی متعدد خوبیوں کے مالک الحاج مولانا نثار احمد قاسمی ڈائرکٹر جامعہ صفیہ للبنات بورام کی شخصیت تھی ،اجلاس میں مولانا حاجی نثار صاحب کا خطاب بھی کلیدی رہا اور گویا انہوں نے بھی سامعین سے گفتگو م میں دل نکال کر رکھ دیا تھا ، اصلاح معاشرہ اور تعلیم کے موضوع پرکوئی ایک سوا گھنٹہ اس وقت ان کی بات چیت ہوئی جب اجلاس بالکل آخری مرحلے اور آخری پہر میں تھا ۔
اخیر میں اس شعر کے ساتھ صدر اجلاس مولانا قاضی محمد قاسم صاحب مظفرپوری نور اللہ مرقدہ کو دعوت اسٹیج دی گئی تھی کہ
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ،ارادت ہوتو دیکھ ان کو
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
اپنی صدارتی گفتگو میں حضرت نے مسجد کی تابناک تاریخ ،اس کی خدمات، مسجد کی عظمت ،مسلم معاشرے میں اس کی ضرورت ،اہمیت اور افادیت وغیرہ پر تفصیلی گفتگو صبح صادق تک ہوتی رہی اور مجمع اذان فجر تک جوں کا توں حضرت کے ضعف ونقاہت سے بھر پور آواز وانداز اور بحر بے کراں کےعلوم ومعارف سے مستفید ہوتا رہا ۔
برد اللہ مضجعہ و نور قبرہ وجعل الجنہ مثواہ ،امین یارب العالمین
…………………………………………..ناظم معہد عائشہ الصدیقہ ،رحمانی نگر کھاتوپور بیگوسرائے۔8851978378

Comments are closed.