حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی: آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو

✒️:عین الحق امینی قاسمی

مرحوم قاضی صاحب کو گذرے ہوئے کم و بیش سولہ برس ہوگئے ،گویاوہ بہت پہلے سے ہمارے بیچ نہیں ہیں ،مگر نہ ہونے کے باوجودآج بھی ان کی خوبیاں زندہ ہیں ان کی نیکیاں باقی ہیں ۔

وہ آئے کب کے گئے بھی کب کے
نظروں میں اب تک سماں رہے ہیں

یہ چل رہے ہیں وہ پھر ر ہے ہیں
یہ آر ہے ہیں وہ جار ہے ہیں

قاضی القضاۃ نائب امیر شریعت صاحب کا نام آتے ہی زباں پہ بارخدایا یہ کس کا نام آیا ۔۔۔کہ

میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے

وہ بہت اونچی شخصیت کے مالک تھے :

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا

ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا

قاضی صاحب اصلا ایک عالم دین تھے ،سن 1954 ء کے فضلاء دارالعلوم میں سے تھے، اچھے اساتذہ کی صحبت میں اچھی محنت کی تھی ،فراغت کے بعد تدریس کے لئےجامعہ رحمانی جیسی ممتاز درسگاہ اور امیر شریعت رابع حضرت مولاناسید شاہ منت اللہ صاحب رحمانی جیسے مربی ملے ،بڑوں کی ماننے اور مان کر زندگی جینے کی چاہت تھی ،سنور گئے ، بعد کے دنوں میں امارت شرعیہ جیسا پلیٹ فارم ملا ،منجھ گئے،کام کرتے گئے نکھر تےگئے ،کامیابی کی راہ میں روڑے آئے ،سلیقے سے ہٹاتے گئے ،حکمت ودانائی کو ساتھ رکھ کر آگے بڑھتے رہے چمکتے گئے:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
صحیح ہے کہ پیڑ اپنے پھل سے پہچانا جاتاہے،دوست ،دوست سے پہچانا جاتا ہے اور انسان اپنے کردار سے پہچانا جاتا ہے ۔وہ شگفتہ مزاج تھے،جمالیات کا عنصر غالب تھا،مگر کبھی جلال بھی ایسا کہ جمال تھر تھر کانپے۔ قاضی صاحب کردار کی جن بلندیوں پر تھے ،آج ہمہ شما کے لئے اس کا تصور محال ہے ،وہ فقیہ تھے ،مجتہدتھے،شریعت اسلامیہ کے نباض تھے،فقہی کنہیات وجزئیات پر گہری نگاہ تھی، ان کی فقہی بصیرت کا دنیا ءعرب بھی قائل تھی ۔وہ فقہ حنفی کے امام تھے ، نت نئے مسائل کے حل میں وہ برصغیر کےدارالا فتاؤں کی رہنمائی کے قطعاً محتاج نہیں تھے ، وہ عموم بلویٰ کے ہونے سے بہت پہلے ہی مسائل کا حل پیش کردیا کرتے تھے ،وہ تاک جھانک کے بغیر مضبوط دلائل سے کر مسئلے کی نوعیت واضح فرمادیا کرتے تھے ،بعض لوگوں کو برا بھی لگ جاتا ،کوئی زود باز کہتا تو کوئی انفرادیت کی بات کہہ کر عموم بلوی کا شدت سے انتظار کرتا ،مگر قاضی صاحب پر کیا فرق پڑتا ہے :
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

قاضی صاحب ایسے باکمال خطیب تھے کہ جن کے لب و لہجے میں گھن گرج تو کیا ،معمولی کودا پھاند ی بھی نہیں تھی، وہ بولتے تو مانو دریا کی روانی اور خاموش ہوتے تو ساحل کے تماشائی۔میرٹھ کی انقلابی سرزمین تھی لاکھوں کا مجمع فیض عام کالج گراؤنڈ میں موجود تھا ،قاضی صاحب کی گفتگو کیاشروع ہوئی جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ،گھنٹہ بھر کی گفتگو کے بعد لوگوں نے سانس لی یعنی بات جب ختم ہوئی تو لوگ آپس میں کھسر پھسر کررہے ہیں ،مطلب یہ کون تھا کس نے بکھیری تھیں مستیاں ۔
اچھے انشاء پرداز ،ادیب ،قلم کار جن کی تحریر یں سب سمجھے ،اٹھا کر کوئی پڑھ دے تو کم فہم بھی سمجھ لے ،لکھے تو لکھتا چلاجائے ،ایساقلم ،جس کا وزن سب سے اٹھ پانا مشکل ہو ،اس کے ایک ایک جملے میں معنی کی دنیا پنہاں ہو۔
اپنے وقت کا منتظم ایسا کہ امارت شرعیہ ،فقہ اکیڈمی،ملی کونسل اور دارالعلوم الاسلامیہ جیسے ادارے ساتھ رہتے ،ہر جگہ سے ہر امر پر بہت باریک نگاہ،کیا مجال کے ان کو کوئی ٹہلادے یا ان کو کوئی پٹی پڑھادے ،وہ ظاہربیں میں جتنے سادے تھے ، باطنی قوت،ان کی اسی درجہ مستحکم ،متحرک اور معاملہ فہم تھی،ان کی صرف نسبت بڑی نہیں تھی وہ خود بھی بڑے تھے۔وہ جدید قدیم کے مابین روابط کا گرجانتے تھے،انہیں قدیم سے قدیم فاصلوں کو تکلف بر طرف کرنابھی خوب آتا تھا ،اسی لیے طبقہ علماء کے لئےجتنا وہ محبوب تھے ،اس سے کہیں زیادہ اہل دانش،ان کے قدرداں ،جاں نثار اورگرویدہ تھے۔سیاسی شعور اتنا پختہ کے سیاسی ناخدا ؤں کا قافلہ ان کے درپہ سجدہ ریز ،میڈیا والے ہزار چاہیں کہ ان کے منھ سے اپنےمن کی بات اگلوا لیں ،کیا مجال کہ ان کو پھانساجائے ،ان کے رسیلے جواب نے تو کئی بار میڈیا گھرانے کو لاجواب بھی کیا ہے ،ان چینلوں کو اپنی عزت بچانی بھاری پڑرہی تھی ،مولوی نما ،ڈھیلے ڈھالے کرتے پائجامے میں سیدھا سیمپل آدمی کے انٹر ویو ز پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جسے سنجیدہ ،باذوق صاحب علم وفہم صحافی جناب ایم ودود ساجد صاحب نے مرتب کرنا شروع کیا ہے ، جس میں وقت کا درد بھی ہے اور مستقبل کا مداوا بھی ،مگر یہ چیزسب کے سمجھنے کی نہیں ،ہاں وہ خوب سمجھ پائیں گے جو تھوڑا بہت بھی سیاسی شعور اور اس سے دلچسپی رکھتے ہیں ،آزادی کے بعد سےہی ہندی مسلمانوں کے لئے سیاست ،نہ جائے رفتن نہ پائے مانند ن جیسا مسئلہ بنی رہی ہے ،اس لیے ہمیشہ اکابرین علماء نے اس چبھن کو محسوس کیا ،ہمارے قاضی صاحب نے بھی اس چبھن کو محسوس کیا ،بلکہ اس دشوار ودشنام کھائی سے نکلنے کا فارمولہ بھی دیا ،مگر کون سنتا ہے فغان درویش ، ایک طبقہ ہے جو ہمیشہ ان مولویوں کی پگڑی اچھالنے میں ہی قوم وملت کا بھلا سمجھتاہے ،اس کے مزاج میں کردار نہیں ،صرف گفتار ہی گفتار ہے ،انہیں یہ توقع ہوتی ہے کہ جو بولے وہی کنڈی کھولے ،قاضی صاحب نے دلدل سے نکلنے کا کوئی خاکہ اگرپیش کیا ہے تو وہی اس میں رنگ بھی بھر کر دیکھا ئیں ! قاضی صاحب کو اتنی فرصت کہاں تھی ،وہ تو بہت تھوڑی مدت کے لئے تشریف لائے تھے ۔ضرورت ہے کہ ہندی مسلمان اگراپنے معیار وقار کو بلند اور مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو انہیں فارمولہ پر آنا ہوگا کہ دلت مسلم ،برہمن واد کے خلاف متحد ہوکر سیاسی جنگ لڑیں ۔
بہر حال موجودہ وقت میں قاضی صاحب کی بڑی یاد آرہی ہے ،وہ ہوتے تو ہم اتنے منتشر بھی نہ ہوتے ،انہیں متحد کرنا خوب آتا تھا ،ہمارے انتشار واختلاف سے ایک ماں کی طرح وہ صدمے میں رہا کرتے تھے،وہ کبھی کلمہ کا واسطہ دے کر ہمیں ایک دھاگے میں پروتے تو کبھی اخلاقی پستی کے نقصان کا آئنہ دیکھا کر ہمیں سمجھا تے تھے ، ان کی رعب دار شخصیت سے ہم مان بھی جاتے تھے ، وہ یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ کی بحالی کے لئے کئی طرح سے جتن کرتے تھے۔
ملک ووطن سے محبت ان کے انگ انگ میں رچی بسی تھی ،وہ اپنے مفاد سے زیادہ ملک کی سالمیت کے لئے بے چین رہتے تھے ،وہ کہتے تھے کہ ہمارے خانگی امن سے زیادہ ملکی امن ضروری ہے ،ملک مقدم ہے اور اسی جذبے سے وہ دیگر ممالک میں وطن عزیز کی نمائندگی فرماتے تھے،انہیں علم معاشیات کا بھی گہرا علم وتجربہ تھا اس لئے بھی وہ اپنے ملک کو ترقی یافتہ شکل میں دیکھنا چاہتے تھے ۔
مقام خوشی ہے کہ پیام انسانیت ٹرسٹ بہار اور بصیرت آن لائن کے اشتراک سے آئندہ فروری کی کسی تاریخ میں حضرت قاضی صاحب کی شایان شان سیمینار کا اعلان پیام انسانیت ٹرسٹ بہار کے صدر مولانا محمد ارشد فیضی قاسمی صاحب کی طرف سے کیا گیا ،خدا مشکلات کو دور کرے ،غیب سے اسباب فراہم کرے، تاکہ ان کے نفوس ونقوش کو ہم زندہ رکھیں ،ان کی یادوں سے ہم منزل کا راستہ پاتے رہیں ۔
آتی رہے گی تیرے انفاس کی خوشبو
مہکتا ہی رہے گا تیری یادوں کا گلشن
(جاری)
…………………………………………..ناظم معہد عائشہ الصدیقہ رحمانی نگر ،کھاتوپور بیگوسرائے۔8851978378

Comments are closed.