دفاع صحابہ کے لئے علماء اٹھ کھڑے ہوں!اب تاخیر جرم ہے۔ تحریر:محمداطہرالقاسمی جنرل سکریٹری  جمعیت علماء ارریہ

دفاع صحابہ کے لئے علماء اٹھ کھڑے ہوں!اب تاخیر جرم ہے۔

تحریر:محمداطہرالقاسمی

جنرل سکریٹری

جمعیت علماء ارریہ

09/09/2020

______________________

مسلسل کئ روز سے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتاہوں۔ہاتھ میں کاغذ قلم لیتا ہوں۔تحریر لکھنا شروع کرتاہوں مگر انگلی چلتی نہیں۔دماغ ساتھ دیتا نہیں۔اور عقل کام کرتی نہیں۔لیکن اب برداشت بھی نہیں ہورہاہے۔کیونکہ اب خاموشی جرم ہےاور دفاع صحابہ کے بجائے مصلحت پسندی کسی خطرناک فتنے کا پیش خیمہ۔

مولانا سلمان ندوی صاحب!

آپ کو دیکھتا ہوں تو آنکھوں میں سوائے آنسو اور کلیجہ میں تیز دھڑکنوں کے کچھ نہیں پاتا ہوں۔

آپ ملت اسلامیہ کے کتنے قیمتی اثاثہ تھے؟جوانی کی جولانی آپ نے کس شاندار انداز میں گذاری تھی مگر آپ نے امت میں حضرات صحابہ کرام کے نام پر تشکیک و تشویش کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس پر لاکھوں ایمان والوں کی طرح میں بھی دم بخود،حواس باختہ اور سخت اضطراب وے بےچینی کا شکار ہوں کہ خدایا!

آخر مولانا کو کیا ہوگیا ہے؟

آخر آپ روئے زمین کی کس مقدس جماعت کے پیچھے پڑگئے ہیں؟کن کی غلطیاں اور خامیاں نکالنے بیٹھ گئے ہیں؟آپ کن پر فسق کا،فجور کا،دجل و فریب اور خیانت و منافقت کا الزام لگارہے ہیں؟آپ کو ہوکیا گیا ہے؟آپ کے منہ میں یہ زبان کس نے لگادی ہے؟عالم اسلام کے سامنے صیہونیت اور ملت اسلامیہ ہند کے سامنے فرقہ پرستی اپنے شباب پر ہے۔آپ کو اللہ نے بےپناہ صلاحیت سے نوازا تھا اور زبان وبیان کی دولت عطا کی تھی؛ملک وملت کے اس نازک موڑ پر آپ کو اپنے اکابر و اصاغر کے ساتھ ان سازشوں کے خلاف میدان میں آکر ملت اسلامیہ کی مضبوط ترجمانی کرنی تھی مگر مولانا یہ تو غضب ہوگیا۔۔۔

کہ آپ اپنی صلاحیت کے نشے میں یکے بعد دیگرے تنقید کا نشانہ اس جماعت کو بنانے پر تل گئے ہیں جو روئے زمین پر سب سے مقدس و محترم ہے۔جن کی عدالت و ثقاہت پر نصوص قطعیہ موجود ہیں۔ان کے آپسی اختلافات اور بشری خطاؤں پر کف لسان باجماع امت واجب ہے اور ان میں سے ایک ایک فرد کا کردار و عمل فرزندانِ توحید کے لئے قیامت تک کے لئے مشعلِ راہ ہے۔

آپ پھر سے احادیث کی کتابوں میں اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح پڑھئے۔ان کے مناقب دیکھئے اور پوری دنیا کے انسانوں کو سامنے رکھ کر ان کی زندگیوں پر پھر ایک نظر ڈالئے!

آج آپ جن کی نکتہ چینی بڑے طمطراق انداز میں کمرہ میں بیٹھ کر کیمرہ کے سامنےکررہے ہیں کیا خدا کی قسم یہ آخری نبی کے وہی ساتھی نہیں ہیں جنہوں نے اپنی نگاہوں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا،ان کی مجلسوں میں وقت گذارا،ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے،ان کے ساتھ اٹھے بیٹھے،ان کے ساتھ کھایا پیا،ان کے ساتھ بھوک و پیاس کی شدتیں برداشت کیں،کھجور کا ایک دانہ اور پانی کا ایک گھونٹ پی کر دشمنان اسلام کے مقابلے میں میدان کارزار میں ڈٹے رہے،نیزے اور تلوار جن کے سر اور سینے پر بارش کی طرح برسے مگر انہوں نے پیٹھ نہیں دکھائی،دنیا کی ساری مسرتوں کو دین کی سربلندی کے لئے قربان کردیا،مذہب اسلام کو گلے لگانے کی پاداش میں جن کو گالیاں دی گئیں،طعنے دئیے گئے،تبرہ کیا گیا،فقرے کسے گئے،چوکوں و چوراہوں پر طاغوتی ٹولے جن پر ہنساکئے،جنہیں ماراگیا،پیٹاگیا،تھوکا گیا،دھکے دئیے گئے،بائیکاٹ کیا گیا،وطن سے نکالا گیا،چٹائیوں میں جنہیں بندکرکے آگ کی دھونی دی گئی،تپتی ہوئی گرم ریتوں پر جنہیں لٹایا گیا،گرم سلاخیں جن کے پسینے سے ٹھنڈی ہوگئیں،اپنے دین و مذہب پر جانبازی و جاں سپاری اور وفاداری و وفاشعاری کے انمول قصوں سے جنہوں نے رہتی دنیا تک سنہری تاریخ رقم کی،جن کے دن شہسواری میں اور راتیں رب کے حضور گریہ و زاری میں گذرے،جو آمنا صدقنا کی بےمثال تصویر تھے،وہ جو ایک بار حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تو دنیا کے سیم و زر اورحرص و طمع کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا،اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کے تحفظ و دفاع کے لئے ان کے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جدھر بھیج دیا ایسا گئے کہ اپناوطن بھول گئے،اونٹنی کی نکیل انہوں نے کسی تو منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا،جنہوں نے میدان جنگ میں بھی شدت پیاس کے عالم میں اپنےبھائیوں کے لئے ایثار و قربانی کا وہ نمونہ پیش کیا کہ قسم بخدا اب قیامت تک کوئی ایسا جذبہ پیش نہ کرسکے گا،وہ جن کی نگاہوں کے سامنے تئیس سال تک وقفے وقفے سے قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوئیں اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے جن کی تفسیریں خود بیان کی،جن کے سامنے سورج پلٹا اورچاند کے دوٹکڑے ہوئے،وہ جنہوں نے نبی کی بارگاہ میں توبہ کی قبولیت کے لئے اپنے جسم کو مسجد نبوی کے کھونٹے سے باندھ دیاتھااور وہ جن سے ارتکاب زنا ہوگیا تو نادان بچے کی طرح خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں حاضر ہوکر اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے اوپر سزا کا مطالبہ کردیا تھااور ہاں کائنات کی وہ مقدس ترین جماعت جو نیکیاں کرکے بھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کے حضور بلک بلک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگا کرتے تھے۔ایمان،اسلام،نبوت،رسالت،فرشتے،وحی،قرآن،حدیث،مذہب،شریعت،دین،قبر،حشر،نشر،جنت،جہنم،جزا،سزا،عبادت،معاشرت،حیا،وفا،صداقت،امانت،دیانت،شجاعت،سخاوت،عدالت،محبت،مروت،حلم،سلم،کرم،رحم۔۔۔۔۔۔یہ سارا کچھ تو انہیں صحابہ کرام کے واسطے سے ہم تک پہنچاہے!گویا یہ صحابہ کرام ہمارے اور ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان پل ہیں۔پس جب پل کے کسی ایک پیلر کو بھی کمزور کردیا جائے گا تو امت مسلمہ کے دین کی نسبت یقیناً جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوٹ کررہ جائے گی۔

غالباً اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ‌اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اھتدیتم(ابن عبد البر،جامع بیان العلم وفضلہ2/925)کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔تم ان میں سے جن کی بھی اقتدا کرلوگے راہ یاب ہوجاؤ گے۔

آپ نے فرمایا تھا کہ

اللہ اللہ فی اصحابی،لا تتخذوھم غرضا بعدی،فمن احبہم فبحبی احبہم،ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم، ومن آذاھم فقد آذانی،ومن اذانی فقد آذی اللہ،ومن آذی اللہ فیوشک ان یاخذہ(ترمذی رقم الحدیث:3957،مسند احمد رقم الحدیث:16554) کہ لوگو!میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا،میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا،پس جو شخص ان سے محبت کرے گا وہ میری وجہ سے محبت کرے گا اور جو شخص ان سے بغض رکھے گا وہ میری وجہ سے بغض رکھے گا،جوشخص انہیں تکلیف پہونچائے گا وہ مجھے تکلیف پہونچائےگا،اور جو شخص مجھے تکلیف پہونچائےگاتو وہ اللہ کو تکلیف پہونچائےگا اور جو شخص اللہ کو تکلیف پہونچائےگا وہ عن قریب خدا کی گرفت میں آئے گا۔

اسی لئے جمہور محدثین و مجتہدین نے اصول طے کیا کہ الصحابۃ کلہم عدول کہ تمام صحابہ عدالت و ثقاہت کے مرتبے پر فائز ہیں۔بلاچوں و چرا ان میں سے ایک ایک فرد کی عظمت و عدالت کو تسلیم کرنا امت پر واجب ہے۔

کیا اس کے بعد بھی صحابہ کرام کی جماعت میں سے کسی ادنی درجہ کے صحابی رسول پر بھی تنقید کرنا کسی صاحب ایمان کے لئے جائز ہوسکتا ہے؟

پھر کون کہتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام انسان نہیں تھے کہ ان سے غلطی کا امکان نہیں تھا؟بشری تقاضے سے ان سے بھی اضطراری واجتہادی غلطیاں سرزد ہوئیں،وہ انبیاء کی طرح معصوم نہیں تھےمگر خالقِ کائنات نے اپنے ان پیاروں اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے دلاروں پر معافی کا قلم پھیر دیا،ان پر مغفرت کی چادر ڈال دی اور ان سب کو اپنی رضا کا پروانہ رضی اللہ عنہم عطا کردیا۔

تو اب مولانا!

آخر سمجھ میں نہیں آتا کہ چودہ سو سال بعد آپ کو اس مغفور جماعت کے عیوب و نقائص نکالنے اور ان میں عدالت و منافقت کی لکیر کھینچنے کی ضرورت کیا پیش آگئی؟

بھارت کے پچیس کروڑ مسلمانوں اور دنیا کے ڈیڑھ ارب اہل اسلام میں سے کس نے آپ کی عدالت میں اس مقدمے کو پیش کیا تھا کہ آپ کرسئ عدالت پر بیٹھ کر جج کا کام کرنے لگے؟اچھا جج اور حکم بننے ہی کا شوق دل میں مچل رہا تھا تو انصاف کرتے آپ تو زبردست ڈنڈی مارنے لگے؟

مولانا!

اور اگر آپ پچیس کروڑ مسلمانوں والے جس دیش میں رہتے ہیں اسی میں صدی بھر کی مثالیں تلاش کرلیں تو کیا یہاں آپ جیسے اور اہل علم و فن نہیں ہیں؟کیا یہاں ماہرین علوم حدیث نہیں؟شیوخ الحدیث نہیں؟مفسرین و مورخین و سیرت نگار نہیں؟ دارالعلوم،مظاہر علوم اور ندوۃ العلماء کے سینکڑوں مرحوم و موجود اکابرین کےعلاوہ کیا اور بھی ہزارہا اسلامی ادارے اور ان سے وابستہ لاکھوں بڑے بڑے جبال العلم علماء،فضلاء،قضاۃ،مفتیان،زبان و ادب کے ماہرین اور طلاقت لسانی سے لیس مقررین و خطباء موجود نہیں؟

آخر چودہ سو سال سے آج تک یہ سارے کے سارے لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی مقدس جماعت پر اپنی زبان پر تالا کیوں لگائے بیٹھے ہیں؟

اسی لئے نا کہ یہی مقدس جماعت ایمان و یقین اور اسلام و عقیدے کی بنیاد ہے۔اور یہ کہ بنیاد کو کھود کرید کیا جائے گا تو دین و ایمان کی لازوال عمارت منہدم ہوجائےگی۔

حضور والا!

جمہور امت کے اس اجماعی عقیدے و متفقہ فیصلےپر آپ بھی قائم رہئے اور خدارا اب بس کیجئے۔اب بھی رک جائیے۔

اب تک آپ قرآن کریم کی نئی ترتیب کا فتنہ شروع کرکےکاتب وحی سیدناحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہوتے ہوئے کثیر الروایت صحابی رسول حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ تک پہونچ چکے ہیں۔اکابر علماء،مشائخ،دینی ادارے اور ملک کی مقدس شخصیات پر تضحیک و تحقیر تو الگ ہے۔ایک بڑا طبقہ آپ کے پیدا کردہ شکوک وشبہات والے آگ کے اس سمندر میں ڈوبنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس طرح نہ جانے مستقبل میں الحاد کے راستے کتنی ہی خودکشیاں ہونے والی ہیں۔اور ملک کا پریشان حال وہ مسلمان جو آزادی کے ستر سال بعد والے نازک ترین دور سے گذررہا ہے شاید اب وہ کسی اور نئے فتنے کا شکار ہونے والا ہے۔ہم آپ کے لئے یہی دعا کرتے ہیں کہ

میرے مولیٰ!

مولانا سلمان ندوی صاحب پر آپ اپنا خصوصی فضل فرمادیجئے اور انہیں صراط مستقیم پر واپس لوٹادیجئے کہ وہ آپ کے پاس جائیں تو اپنے دامن میں ایمان کا سودا اور صحابہ کرام کی محبت کا نذرانہ لے کر جائیں!

ملک کے تمام بڑے علماء کرام سے بھی میں دست بستہ اپیل کرتا ہوں کہ خدارا کسی بھی مصلحت پسندی کو اب جگہ مت دیجئے اور چودہ سو سال سے جس طرح یہ امت اپنے ایک ایک صحابی رسول کا دفاع کرتی آئی ہے آج ایک بار پھر ان کی عظمت و عدالت خطرے میں ہے اور آپ کی پراسرار خاموشی سے ملک میں موجود ایک بڑا طبقہ اور آئندہ آنے والی نسل ایک نئے فتنے سے دوچار ہوسکتی ہے۔۔۔

بحمد اللہ تعاقب کے لئے نوجوان علماء و ماہرین زبان و قلم میدان میں آگئےہیں۔ اب پوری قوت کے ساتھ عظمت صحابہ کا دفاع کیا جائے گا اور تشکیک و تشویش کے اس سلمانی فتنے کی مکمل سرکوبی کی جائے گی انشاءاللہ۔

Comments are closed.