امریکی عالمی قیادت خطرے میں؟

سمیع اللہ ملک
کوروناوباکے عالمگیربحران کے سیاسی اورسفارتی اثرات یقیناسامنے آناشروع ہوگئے ہیں کیونکہ اس وقت صحتِ عامہ بنیادی مسئلہ ہے اورکوروناکے ہاتھوں پیداہونے والے بحران نے دنیاکی قیادت کے حوالے سے امریکاکی پوزیشن خاصی کمزورکردی ہے۔ 1956میں جب نہرسوئزکامعاملہ کھڑاہواتھاتب امریکانے مداخلت کی توبرطانیہ کی عالمی قائدکی حیثیت عملااختتام کوپہنچی۔آج امریکی پالیسی سازبری طرح پریشان ہیں کہ اگرانہوں نیصورتِ حال کے تمام تقاضوں کونبھاتے ہوئے موزوں پالیسیاں اختیارنہ کیں توکوروناکی صورت میں امریکاکیلئے ’’سوئزمومنٹ ‘‘سے بچناناممکن ہوگا۔
کوروناکے حوالے سے امریکی قیادت کاابتدائی رویہ خاصانیم دلانہ اوربدحواسی پرمبنی رہا۔ایوانِ صدر،محکمہ خارجہ،محکمہ داخلی سلامتی اورسینٹرفارڈزیزکنٹرول اینڈ پریونشن نے جوکچھ کہا اورکیاوہ ناکافی ہی نہیں بلکہ صورتِ حال کے تقاضوں کے برعکس تھا۔ٹرمپ انتظامیہ نے جوپالیسی اختیارکی اس پرعوام نے ذرابھی اعتبارنہیں کیا۔ایوانِ صدرسے باضابطہ طورپر یا پھر علی الصبح ٹوئیٹس کے ذریعے ٹرمپ جوبیانات داغتے تھے ان سے معاملات میں ابہام پیداہوا،لوگ بدحواس ہوئے۔ سرکاری اور نجی ادارے ناکامی سے دوچارہوئے جس سے لوگوں کااپنی قیادت پراعتبارواعتمادمزیدکم ہوگیا۔کچھ ہی دنوں میں یہ بات واضح طورپرسامنے آگئی کہ کوروناجیسی کسی بھی عالمگیرنوعیت کی وباسے نمٹنے کی صلاحیت امریکامیں نہیں۔ ٹرمپ نے ہرمعاملے میں تنہاجانے یعنی کسی سے مشاورت کے بغیربہت کچھ کرنے کی جوروش اختیارکی ہے،وہ کسی بھی اعتبارسے قابلِ ستائش نہیں۔یہ ثابت ہوگیاکہ کوروناسے نمٹنے کے حوالے سے امریکابہت ہی کم تیاری کی حالت میں ہے۔
سات عشروں تک امریکانے دنیاکوعسکری اورمعاشی طاقت کی مددسے چلایاہیمگرمعاملہ صرف یہاں تک محدودنہیں رہا۔ امریکی پالیسی سازوں نے اندرون ملک بھی بہترطرزِحکم رانی یقینی بنائی،صحتِ عامہ کامعیاربھی بلندرہا،سماجی تحفظ کاشعبہ بھی قابل رشک رہالیکن کورونانے جب امریکاکی صلاحیتوں کاامتحان لیاتواس حقیقت کوتسلیم کرناپڑاکہ اس ٹیسٹ میں امریکااب تک ناکام دکھائی دیاہے۔کسی بھی عالمگیروباکے حوالے سے امریکاکوجس نوعیت کاردِعمل دیناچاہیے تھاوہ اس نے نہیں دیا۔عالمگیروباکے حوالے سے امریکانے جو خلاچھوڑا،وہ چین نے پرکرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔چین اس بحران میں باقی دنیا سے الگ تھلگ کھڑاہے۔وہ خاصامضبوط ہوکرابھراہے۔اس نے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی مددکرنے پربھی توجہ دی ہے۔اس حوالے سے اس کی قائدانہ حیثیت ابھرکرسامنے آئی ہے۔اب تک یہی کہاجاتارہاہے کہ کوروناچین کی نااہلی یا لاپروائی سے پھیلا۔چینی قیادت سمجھتی ہے کہ قائدانہ کردارکے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کرنے کاوقت یہی ہے۔دوسری طرف کوروناسے نمٹنے کے معاملے میں امریکاکی مکمل نااہلی نیعالمی سطح پراس کی قائدانہ حیثیت کوخاصامتاثرکیاہیاوریوں اکیسویں صدی میں عالمی قیادت کے حوالے سے جاری مسابقت کی نوعیت بھی بدلتی دکھائی دے رہی ہے۔
کوروناکی وباپھوٹنے پرابتدائی مرحلے میں چین پرغیرمعمولی دباوتھا۔کہاجاتاہیکہ نومبرمیں ووہان شہرمیں یہ وباپھوٹی تھی مگر تب اس معاملے کودبایاگیا۔جن ڈاکٹروں نے نشاندہی کی تھی انہیں سزادی گئی۔اس کے بعدپانچ ہفتے یوں ہی گزرنے دییگئے،یوں معاملہ بگڑگیا۔لوگوں کوتیارکرنے میں ناکامی کاسامناکرناپڑا۔سفرکی بندش اورٹیسٹنگ وغیرہ میں تاخیرکا ارتکاب کیاگیا۔جب یہ وبا زورپکڑگئی تب بھی اِسے دبانے اورچھپانے کی کوشش کی گئی۔عالمی ادارہ صحت کے حکام کوووہان نہیں جانے دیاگیا۔سینٹرفار ڈزیزکنٹرول اینڈپریونشن سے اشتراکِ عمل کی زحمت بھی گوارانہیں کی گئی۔جنوری اورفروری کے دوران ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ شایدکوروناکی وباکے ہاتھوں چینی کمیونسٹ پارٹی کی پوزیشن کمزورپڑ جائے ۔ڈاکٹر لی وین لیانگوسل بلوئرتھا یعنی اسی نے کوروناوباکے پھوٹ پڑنے کی نشاندہی کی تھی تاہم بعدمیں وہ بھی کوروناکاشکارہوکرچل بسا۔
مارچ کے اوائل میں ایران کے شہرقم میں یہ وباپھوٹ پڑی۔تب قرنطینہ کاسلسلہ شروع ہوااوربین الاقوامی سفرپربھی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ملک گیرشٹ ڈاؤن اورلاک ڈاؤن کاسلسلہ شروع ہوا۔حیرت انگیزبات یہ ہے کہ مارچ کے وسط میں چین میں کوروناکے مریضوں کی تعدادمیں یومیہ اضافہ سنگل ڈیجٹ میں آگیایعنی دس سے کم رہ گیاجبکہ فروری کے دوران کوروناکے مریضوں کی تعداد میں یومیہ سیکڑوں کا اضافہ ہورہاتھا۔
چین کے صدر شی جن پنگ ابتدائی مرحلے میں الگ تھلگ رہے۔ پھر جب معاملات کچھ درست ہوئے تو انہوں نے اپنے آپ کو نمایاں کیا اور ووہان کا دورہ بھی کیا۔ چین نے میڈیا کو عمدگی سے استعمال کیا ہے۔ دنیا کو یقین دلایاگیا ہے کہ چین نے اندرونی معاملات بہت اچھی طرح نمٹائے ہیں یعنی مرض کو نہ صرف یہ کہ پھیلنے نہیں دیا بلکہ مریضوں کو صحت سے ہم کنار کرنے پر بھی خاطر خواہ توجہ دی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے کہا ہے کہ چین نے ثابت کردیا کہ وہ کسی بھی عالمگیر وبا سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت و سکت رکھتا ہے۔ مرکزی حکومت نے معلومات کے بہاو پر سخت کنٹرول رکھا۔ ہر مخالف بیانیہ دبوچ لیا گیا، مسترد کردیا گیا۔
کوروناکی روک تھام کے حوالے سے مغرب کاروّیہ بھی نیم دلانہ رہاہے۔کوششیں بظاہر تیاری کے بغیرکی گئیں اورناکام رہیں۔اس کے نتیجے میں چین کادرجہ بلندہوا۔امریکامیں ٹیسٹنگ کٹس کامعاملہ خطرناک اندازسے ابھراجس کے نتیجے میں عوام کاحکومت پراعتمادمزیدکم ہوگیا۔اس صورتِ حال سے چین نے بھرپورفائدہ اٹھایا۔دنیاکویقین دلایاگیاکہ امریکانااہل ہے،سپرپاورہونے کے باوجوداس وباسے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ٹرمپ انتظامیہ کی نااہلی اوربدحواسی کوچین کے سرکاری خبررساں ادارے ’’سنہوا‘‘نے نمایاں کرکے دنیاکے سامنے رکھا۔واشنگٹن کی سیاسی اشرافیہ کوبالخصوص ہدف بنایاگیا۔دنیاکویقین دلایا گیا کہ کورونا چین سے نہیں پھیلابلکہ چین میں بھی امریکی فوجیوں کے ایک دستے نے پھیلایا۔امریکاکی پوزیشن خاصی کمزورہوچکی تھی۔ اورپھررہی سہی کسرچین سے سرکردہ امریکی اخبارات کے نمائندوں کے اخراج نے پوری کردی۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے چندبرس کے دوران عالمی سطح پرمختلف ضروری اشیاکی فراہمی کے حوالے سے چین کی پوزیشن مستحکم کرنے پرغیرمعمولی توجہ دی ہے۔انہوں نے چین کوعالمی امورمیں قائدانہ کرداردلوانے کے حوالے سے بھی سوچناشروع کردیاہے۔اس حوالے سے لائحہ عمل تیارکیاجارہاہے۔دنیاکی قیادت کرنے کے حوالے سے خارجہ پالیسی کے میکینزم کوکلیدی کردارادا کرنے کی راہ ہموارکی جاتی رہی ہے۔کورونانے کام مزیدآسان کردیا۔چین کوابتدائی مرحلے میں بڑے پیمانے پر ماسک،ٹیسٹنگ کٹس،وینٹی لیٹراور دواؤں کوفوری طورپرکئی ممالک سے خریدکراپنے ہاں کوروناکی روک تھام کی۔اب وہ یہی ساری چیزیں پوری دنیاکوفراہم کررہاہے۔
کوروناکے پھیلنے پریورپ میں سب سے زیادہ متاثراٹلی ہوا۔اٹلی کاصحتِ عامہ کانظام ایک ہی جھٹکے میں جواب دے گیا۔اطالوی حکومت کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آسکاکہ ہوکیارہاہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ یوں مرنے لگے گویادرخت سے پتے جھڑرہے ہوں۔ان میں نمایاں تعدادمعمرافرادکی تھی۔جب وبانے پرپھیلائے توصحتِ عامہ کے میکینزم نے پلک جھپکتے میں دم توڑدیا۔اٹلی کی مدد کیلئے چین آگے بڑھا۔اس نے ایک لاکھ ریسپیریٹر،دولاکھ ماسک،ایک ہزاروینٹی لیٹر،پچاس ہزارٹیسٹنگ کٹس اوربیس ہزار سوٹ بھجوائے۔ایران کیلئے بھی چین نے ڈھائی لاکھ ماسک کااہتمام کیااورایک میڈیکل ٹیم بھی بھیجی۔یورپ میں کوروناکے ہاتھوں ابھرنے والی صورتِ حال سے تنگ آکرسربیاکے صدرنے کہاکہ یورپی امداد پریوں کی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ایسے میں کوئی مدد کرسکتاہے توصرف چین ہے۔چین کی معروف کوریئرکمپنی علی باباکے سربراہ جیک مانے امریکاکیلئے بھی ماسک اورٹیسٹنگ کٹس بھجوانے کااہتمام کیا۔بات یہیں پرختم نہیں ہوجاتی۔جیک مانے افریقاکے54ممالک میں سے ہرایک کیلئے ایک لاکھ ماسک اور بیس ہزارٹیسٹنگ کٹس بھجوانے کااعلان کر کے افریقی ممالک کے دل جیت لئے۔
اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کوروناسے لڑنے کیلئے دنیاکوسامان کے حوالے سے توچین ہی پرانحصارکرناپڑ ے گا۔جب چین میں وبا پھیلی تب اس نے دنیابھرسے ماسک منگوالیے تھے ۔اب چین میں ماسک،ٹیسٹنگ کٹ،ریسپیریٹراوردوسری بہت سی اشیابہت بڑے پیمانے پرتیارکی جارہی ہیں۔اس وقت دنیابھرمیں جتنے ریسپیریٹراستعمال کیے جارہے ہیں ان کانصف چین سے آیاہے۔چین میں لگائی گئی غیرملکی فیکٹریوں کوبھی پابندکیاجارہاہے کہ کوروناسے نمٹنے کے حوالے بنائی جانے والی اشیاچینی حکومت کو فروخت کرے۔میڈیکل سپلائیزکوچین نے خارجہ پالیسی پرعمل کرنے کے ایک موثرآلہ کارکے طورپربروئے کارلاناسیکھ لیاہے۔ ثانوی نوعیت کے انفیکشن کی دواؤں اوراینٹی بایوٹکس کے حوالے سے بھی چین خاصیadvantageousپوزیشن میں ہے۔
امریکاکی حالت بہت خراب ہے۔وہ شدیدبحرانی کیفیت سے دوچارہوچکاہے۔کوروناکی وباپھیلنے پرامریکی قیادت نے جوابتدائی ردِعمل دیاوہ خاصاغیرموزوں اورنیم دلانہ تھا۔ امریکاکی اسٹریٹجک نیشل اسٹاک پائل کاحال بہت براہے۔ملک میں اس وقت جتنے ماسک درکارہیں ان کاصرف ایک فیصد دستیاب ہے۔اس وقت امریکا میں ضرورت کے لحاظ سے صرف10فیصدوینٹی لیٹراور ایک فیصدماسک دستیاب ہیں۔اس سے یہ اندازہ لگاناکسی طوردشوارنہیں کہ کسی بہت بڑی بحرانی کیفیت کاسامناکرنے کیلئے سپر پاورکوجس قدرتیار رہناچاہیے اس کاعشرعشیربھی ممکن نہ ہوسکا۔کوروناسے بہ طریق احسن نمٹنے کیلئے امریکاکوجوکچھ درکار ہے وہ چین سے منگواناپڑرہاہے کیونکہ اس وقت امریکامیں اینٹی بایوٹکس کی مارکیٹ کا95فیصدچین کے ہاتھ میں ہے۔
2014میں امریکانے افریقاسے پھیلنے والے ایبولاوائرس کی روک تھام کے حوالے سے بارہ ممالک کے ساتھ مل کرکام کیاتھا۔اس بارایساکچھ دکھائی نہیں دے رہا۔امریکانے اتحادیوں کوبھی ایک طرف ہٹادیاہے۔جب کوروناکے پھیلاونے عالمگیروباکی شکل اختیار کی تب امریکی قیادت نے یورپ میں اپنے اتحادیوں کوبھی اعتمادمیں لینامناسب نہ سمجھا اورسفرپرپابندیاں عائدکرنے سے قبل چین کومطلع کرنے کی بھی زحمت گوارانہیں کی۔
ایسانہیں کہ چین نے اپنے ہاں کوروناپربہت حدتک قابوپانے کے بعدسکون کاسانس لیکردوسروں کونظراندازکردیا۔ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے درجنوں ممالک کے ہزاروں حکام کواعتمادمیں لیاگیا۔کورونامیں مبتلاافرادکے علاج اوراس وباکے پھیلاوکی روک تھام کے حوالے سے بہت سے مشوروں سے ان تمام ممالک کونوازاگیاجوشدیدبحرانی کیفیت سے دوچارہیں۔اس معاملے میں چین نے روایتی علاقائی سوچ اپنائی ہے۔وسطی ایشیا،مشرقی یورپ اوربحرالکاہل کے جزائرپرمشتمل ریاستوں کواوران کے علاوہ افریقاکو مشورے ہی نہیں سامان بھی دیاگیا۔چین نے جوکچھ بھی کہااس کے بارے میں دنیاکوبتانابھی ضروری سمجھایعنی میڈیاکابھرپور سہارالیاگیا۔
چین نے ایک عالمگیروباسے نمٹنے کے حوالے سے غیرمعمولی مہارت کامظاہرہ کرکے باقی دنیاکوکسی حدتک مسحورکیاہے۔اس نے ثابت کیاہے کہ اس کے پاس معلومات بھی کم نہیں اورمہارت کابھی حساب نہیں۔ تمام اہم معاملات پراس کی توجہ ہے۔اس نے برتری ثابت کرتے ہوئے قائدانہ کرداراداکرنے کوہدف بنایاہے۔چین طاقتورہے مگراِس سے بڑھ کریہ بات اہم ہے کہ اس وقت امریکاکمزورہے۔نااہلی نے اس کی کمزوریوں کومزیدپھیلایاہی نہیں بلکہ اجاگربھی کیاہے۔امریکی پالیسیوں میں سب سے زیادہ اہمیت اندرونی معاملات کودی جارہی ہے۔باقی دنیاکامفادبہت حدتک نظر اندازکردیاگیاہے۔اگرامریکی قیادت اپنی قائدانہ حیثیت کوبہت حدتک برقراررکھناچاہتی ہے تولازم ہے کہ ایک طرف تووہ اپنے اندرونی معاملات کودرست کرے اوردوسری طرف کوروناسمیت کسی بھی وباسے نمٹنے سے متعلق سپلائیزکی دستیابی یقینی بنائے۔فی الحال ایساممکن دکھائی نہیں دیتا۔ امریکامیں اندرونی خرابیاں بہت زیادہ ہیں۔صحتِ عامہ کامعاملہ پہلے ہی بہت خراب تھا، اب رہی سہی کسر پوری ہوگئی ہے۔
کوروناکاپھیلاؤروکنااورعلاج ممکن بنانااولین ترجیح کادرجہ رکھتاہے۔سیاست بہت بعدکامعاملہ ہے۔اس وقت جوکچھ بھی کیاجائے گااس کے غیرمعمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکامیڈیکل سپلائیز بڑھانے میں ناکام ہوگیاہے۔کوروناسمیت بہت سی وباؤں کے حوالے سے امریکاتحقیق اوردواؤں کی تیاری کے میدان میں قائدانہ کردار ادانہیں کرسکا۔ اس حوالے عالمگیرسطح پررابطہ کاری کی بہت اہمیت ہے۔کوئی بھی ملک سب کچھ اپنے طورپرنہیں کرسکتا۔امریکاکوبھی یہ بات سمجھنی ہے کہ چین اوردیگرطاقتور ممالک کے اشتراکِ عمل ہی سے دنیاکومحفوظ رکھنے میں کچھ مددمل سکتی ہے۔سفراورمعلومات کے تبادلے کے حوالے سے مکمل ہم آہنگی کاپایاجانالازم ہے۔امریکانیعشروں تک قائدانہ کردارادا کیامگراب تحقیق کے حوالے سیاب قائدانہ کردارادا کرنے سے محرومی کامنہ دیکھناپڑگیاہے۔
کوروناکے حوالے سے کس نیکیاکِیا،یہ بعدکی بحث ہے۔امریکااورچین کواب مل کرکچھ کرناچاہئے تاکہ دنیامیں کوئی بھی ایسی وبانہ پھیلے جومعیشت اورمعاشرت دونوں کاتیاپانچہ کر
دے۔انہیں آپس کے معاملات مزیدالجھانے کی بجائے سلجھانے پرمتوجہ ہونا پڑے گا۔دونوں کوپوری دنیاکے فائدے کیلئے کام کرناہے۔الزام تراشی سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ سوال ویکسین کی تیاری کاہے۔ معیشتوں کوشدیدمشکلات کاسامناہے۔انہیں اپنے پیروں پردوبارہ کھڑے ہونے کیلئے مالیاتی پیکیج درکارہوں گے۔اِسی صورت کمزورممالک کا بھی بھلاہوسکتاہے۔کورونا’’ویک اپ کال‘‘(Wake Up Call) ہے،خطرے کی گھنٹی ہے۔ماحول کاتحفظ یقینی بنانے کے حوالے سے بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرامریکاتھوڑاساجھک جائے اورچین کے ساتھ مل کرچلے تواِس سے اس کی شان گھٹے گی نہ اِسے چین کیلئے کسی رعایت سے تعبیرکیاجائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ ایساکرنے سے امریکی قیادت کے اعتماد کاگراف بھی بلند ہوگالیکن مودی کواستعمال کرکے چین کونقصان پہنچانے کی ٹرمپ پالیسی خودبھارت اورامریکاکوبربادکردے گی۔
Comments are closed.