آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
زمزم سے وضو اور غسل
سوال: میرے ایک دوست جو سالِ گزشتہ حج کر کے آئے تھے، ان کے پاس زمزم کا پانی تھا، میں بیمار ہوا تو انہوں نے مجھے پانی دیا کہ تم اس سے وضو کر لو اور پورے جسم پر کسی کپڑے سے پانی کو تر کرکے پھیر لو، میں نے ان کی رائے مان لی؛ لیکن اب یہ احساس ستا رہا ہے کہ کہیں یہ آبِ زمزم کی توہین تو نہیں ہوئی؟
(شفیع الدین، ملک پیٹ)
جواب: اگر آدمی پر غسل یا وضو واجب نہ ہو، نہ جسم پر کوئی نجاست لگی ہو اور نہ ایسی جگہ پر غسل کر رہا ہو جو ناپاک ہو تو بطور تبرک کے اور جسمانی و روحانی شفاء کی نیت سے آبِ زم زم سے وضو اور غسل کرلے، تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے، ہاں آبِ زم زم سے ناپاکی کو پاک کرنا جیسے جسم پر یا کپڑے پر نجاست لگی ہو، اس کو زمزم سے دھونا، یا وضو واجب ہو اور وضو کرنا، غسل واجب ہو اور آبِ زم زم سے غسل کرنا ،یا اس سے استنجاء کرنا درست نہیں ہے، مشہورحنفی فقیہ علامہ طحطاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یجوز الاغتسال والتوضؤ بماء زمزم عندنا من غیر کراہۃ، بل ثوابہ أکبر…… إن کان علی طھارۃ للتبرک فلا ینبغی أن یغتسل بہ جنب ولا محدث ولا فی مکان نجس ولا یستنجی بہ ولا یزال بہ نجاسۃ حقیقیۃ (حاشیۃ الطحطاوی، کتاب الطھارۃ ص:۲۲)
کیا خواتین عذر کی حالت میں قرآنی دعائیں پڑھ سکتی ہیں؟
سوال: جو خواتین ناپاکی کی حالت میں ہوں، ان کے لیے دعا کرنا تو جائز ہے؛ لیکن بعض دعائیں قرآن مجید کی ہوتی ہیں بعض ایسی دعائیں بھی ہیں جن میں ایک سے زیادہ آیتیں شامل ہوتی ہیں، کیا وہ ایسی دعائیں بھی ناپاکی کے زمانے میں پڑھ سکتی ہیں؟
(فائزہ خانم، جدہ)
جواب: ایسی خواتین کے لئے قرآن مجید کا پڑھنا جائز نہیں؛ لیکن اگر قرآن میں کوئی دعاء مذکور ہو اور وہ تلاوت قران کی نیت سے نہیں؛ بلکہ دعا کی نیت سے اسے پڑھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے:
وأما قرائۃ القرآن، قالوا: إن القرآن یخرج عن کونہ بالقصد، فجوزوا للجنب والحائض قرائۃ ما فیہ من الأذکار بقصد الذکر، والأدعیۃ بقصد الدعاء (الأشباہ والنظائر لابن نجیم ص:۲۲)
پیلروں کے درمیان نماز کی صف
سوال: بعض مسجدوں میں درمیان میں پیلر ہوتے ہیں، جب صفیں بنائی جاتی ہیں تو کچھ نمازی دونوں پیلر کے درمیان کھڑے ہوتے ہیں، ایک عالم صاحب نے اس سے منع کیا ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟
(محمد اکرام الدین، عنبرپیٹ)
جواب: اگر نماز پڑھنے والا منفرد ہو یعنی تنہا نماز پڑھ رہا ہو اور وہ دو ستونوں کے درمیان کھڑا ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں؛ اسی طرح اگر مسجد میں ازدحام ہو اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے دو پیلروں کے درمیان کھڑا ہونا پڑے تو یہ بھی جائز ہے، جیسا کہ جمعہ اور عیدین کے موقع پر اس کی نوبت آتی ہے؛ لیکن اگر جماعت اتنی بڑی نہ ہو کہ جگہ تنگ پڑ جائے تو پیلروں کے درمیان نماز ادا کرنا مکروہ ہے، پیلر والی لائن کو چھوڑ کر پیچھے کی لائن پر صف بنانا چاہیے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس سے بچتے تھے: کنا نتقی ہذا علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سنن الترمذی:۱/ ۴۴۳) فقہاء نے بھی اس کو مکروہ قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس سے نمازیوں کے مل مل کر کھڑے ہونے کی سنت میں خلل پیدا ہوتا ہے:
أما الواحد فلاباس بہ و قد صلی اللہ علیہ وسلم فی الکعبۃ بین سواریھا(اعلاء السنن، باب کراھۃ الصف بین سواریھا دون الصلاۃ منفردا:۴/۳۸۳)
جسمانی طور پر جڑواں دو بہنیں
سوال: ایک لڑکی اس طرح پیدا ہوئی کہ وہ جڑواں تھی اور دونوں کا جسم کمر کے نیچے سے تو ایک ہے اور کمر کے اوپر دو ہے، اس میں ایک کو الگ کرنے کے بارے میں اطباء سے مشورہ کیا گیا؛ لیکن سبھوں کی رائے تھی کہ یہ ممکن نہیں ہے، ایسی صورت میں ایک کی تو موت ہوسکتی ہے اور زیادہ امکان ہے کہ دوسری کی بھی موت ہو جائے؛ لہذا ان کو الگ نہیں کیا جاسکا، اب وہ جوان ہو چکی ہیں، شادی کے لائق ہیں، خواتین کے معمول کے مطابق انہیں حیض بھی آتا ہے اور ان کے اندر صنفی خواہشات بھی ہیں، ایسی صورت میں کیا ان کا نکاح ہو سکتا ہے؟
(مشہود احمد، میوات)
جواب: اگرچہ کمر کا حصہ ایک ہی ہے؛ لیکن کمر سے اوپر جسم کا آدھا حصہ دو ہے، اور دل و دماغ جس کو انسانی وجود میں بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے، وہ بھی دونوں کے الگ ہیں؛ اس لئے راجح یہی ہے کہ ان کو ایک نہیں دو لڑکیاں مانا جائے اور دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت ہے، جس کی خود قرآن مجید میں صراحت ہے:وأن تجمعوا بین الاختین،(نساء:۲۳)
اس لیے کسی مرد سے ان کا نکاح جائز نہیں ہوگا، یہ نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنا ہوگا، جو جائز نہیں ہے، رہ گئی ان کی صنفی ضرورت اور طبعی شہوت، تو ان کو ضبط نفس سے کام لینا چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے، اور غالبا آج کل ایسی دوائیں بھی ایجاد ہو گئی ہیں، جن سے انسان کی صنفی خواہش دب جاتی ہے یا مردہ ہوجاتی ہے، ان کے لیے ایسی دواؤں کا استعمال جائز ہوگا ،یا اگر اس طرح کا آپریشن ہوتا ہو جو جنسی خواہش کو ختم کر دے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم
چھوڑ دیا سے طلاق
سوال: میرے ایک دوست نے غصے میں آکر اپنی بیوی سے کہا کہ تم گھر جاؤ، میں نے تم کو چھوڑ دیا، توکیا اس سے بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی؟ اور واقع ہو گی تو کون سی طلاق؟
(معین الدین ،گنٹور )
جواب: ’’چھوڑ دیا‘‘ کا لفظ آجکل کثرت سے طلاق ہی کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے؛ اگر خبر کی جائے کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو چھوڑ دیا تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس نے بیوی کو طلاق دے دی ہے؛ اس لیے اب یہ لفظ طلاق کے لیے صریح لفظ کے درجے میں ہے، لہذا اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوگئی، اور اگر وہ کہتا ہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی،تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا؛ البتہ اس لفظ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی یعنی شوہر عدت کے اندر بیوی کو لوٹا سکتا ہے، نکاح کی ضرورت نہیں پڑے گی، اور اگر عدت گزر گئی تو دوبارہ باہمی رضامندی سے نکاح کر سکتے ہیں:
فإذا قال ” رہاکردم ” أی سرحتک یقع بہ الرجعی مع أن أصلہ کنایۃ أیضا الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (ردالمحتار:۳/۹۹۲)
البتہ آئندہ شوہر کو دو طلاق کا ہی حق حاصل رہے گا؛ اگر دو طلاق دے دی تو بیوی ہمیشہ کیلئے حرام ہوجائے گی، اور تحلیل شرعی کے بغیر دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا ۔
نکاح میں فاسق کو گواہ بنانا
سوال: آج کل نکاح کے وقت جن لوگوں کو گواہ بناتے ہیں، وہ عام طور پر ڈاڑھی مونڈے ہوتے ہیں، دوسرے گناہوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں؛ حالانکہ گواہ توعادل اور دین دار آدمی کو ہونا چاہیے، کیا اس سے نکاح پر کچھ اثر پڑتاہے؟
(محمد شاہ قاسمی، ممبئی )
جواب: نکاح کے منعقد ہونے کے لئے گواہ کا عادل ہونا ضروری نہیں ہے؛ اس لیے نکاح منعقد ہوجائے گا؛ البتہ اگر بعد کو اس بات میں اختلاف ہوجائے کہ نکاح ہوا یا نہیں ہو؟ا اس صورت میں ایسے گواہان مطلوب ہوں گے جو دینی اعتبار سے بھی معتبر سمجھے جاتے ہوں، اور جن کے بارے میں گمان ہو کہ وہ جھوٹ نہیں بولیں گے؛ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ نکاح کے موقع پر ایسے شخص کو گواہ بنائیں جو دیندار ہو ،نکاح میں بے نمازیوں کی گواہی کے سلسلے میں ایک صاحب کے سوال پر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی شہادت سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے؛ مگر ایسے فاسق اور مبتدع کو شاہد اور وکیل بنانا خود گناہ ہے:( فتاویٰ رشیدیہ/ 471 )
بلا اجازت دوسرے کا کا وائی فائی استعمال کرنا
سوال: بعض اوقات لوگ پڑوسی کے وائی فائی سے بلا اجازت اور چھپا کر اپنا موبائل چلا لیتے ہیں ، کیا اس طرح دوسرے کے وائی فائی کا استعمال کرنا جائز ہوگا ؟
(شیراز، بنجارہ ہلز)
جواب: یہ چوری کی ایک صورت ہے، جب ایک شخص نے اپنے وائی فائی کو اپنے پاس ورڈ کے ذریعہ محفوظ کر لیا تھا، تو دوسرے شخص کا تکنیکی مہارت کے ذریعے اس کے وائی فائی سے استفادہ کرنا یقینا چوری کی ایک صورت ہے؛ کیونکہ چوری کہتے ہیں کسی کے محفوظ کیے ہوئے مال کے بلا اجازت لینے کو؛ اس لیے یہ صورت جائز نہیں ہے، جتنی دیر اس نے استعمال کیا، اس کا جوعوض سکتا ہو، وہ ا سے ادا کر دینا واجب ہوگا۔واللہ اعلم(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.