زبان کی حفاظت کیجئے دبیر احمد قاسمی مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ

*قسط* (1)
زبان کی حفاظت کیجئے
دبیر احمد قاسمی
مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں انسانوں کو جو شرف و فضل ، عزت و مرتبہ اوراکرام و احترام عطا کیا ہے وہ کسی اور مخلوق کے حصے میں نہیں آیا ، قرآن کہتا ہے کہ ہم نے بنی نوع انسان کو عزت و تکریم سے نوازا ، بحر و بر میں سواریاں عطا کی ، اور مخلوقاتِ عالم میں سے بہت سی مخلوق پر اس کو فضیلت اور فوقیت دی –
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا (سورة الإسراء 70)
ایک دوسرے مقام پر قرآن یہ کہتا ہے کہ انسان کی تخلیق سب سے بہترین ڈھانچے اور سب سے خوبصورت سانچے میں ہوئی ہے ،
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (سورة التين الآية 4)
ترجمہ: ہم نے انسان کو بہت خوبصورت سانچے میں ڈھالا ہے-
أحسن تقويم کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے ، ظاہری اعضاء کا اعتدال و تناسب اور قدوقامت کا حسن ہی اس میں شامل نہیں ہے بلکہ مخفی کمالات اور باطنی و معنوی خوبیاں بھی اس میں شامل ہیں –
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو جس طرح ظاہری حسن اور جسمانی خوبصورتی میں امتیاز بخشا ہے،اسی طرح باطنی کمالات اور معنوی خوبیوں میں بھی اس کو خصوصیت عطا کی ہے-
جن اوصاف و کمالات میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو امتیاز بخشا ہے ، اس میں ایک نمایاں وصف نطق و گویائی کا ہے –
یہی وصف انسان کو دیگر حیوانات سے الگ کرتا ہے ، اس لئے کہ دوسرے اوصاف میں دیگر حیوانات بھی کم یا زیادہ اس کے ساتھ شریک ہیں ، لیکن نطق و گویائی کی صفت ، فقط انسان میں پائی جاتی ہے ، اس لیے قدیم عقلی علوم انسان کی تعریف حیوان ناطق سے کی گئی ہے – نطق و بیان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض ماہرین اور محققین کے دعوے کے مطابق انسان کی دماغی توانائیوں کا بڑا حصہ نطق و بیان کی صلاحیتوں پر مشتمل ہے ، ان کا خیال ہے کہ انسان کی دماغی توانائیوں کا مرکز (center ) تکلم (speech)ہے،آپ کہیں گے کہ خیال اور مافی الضمیر کی اہمیت اس سے زیادہ ہے ، مگر غور کیجئے تو یہ معلوم ہوجائے گا کہ تکلم(speech)اورخیال(thought)باہم اس طرح مربوط ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ، اس لئے فکر و خیال ، تکلم کو مہمیز کرتا ہے اور تکلم ،فکر و خیال پر اثر انداز ہوتا ہے –
قرآن پاک کے بیان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ نطق و گویائی کی قوت انسان کی سب سے نمایاں اور سب سے امتیازی خوبی ہے-
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
الرَّحْمَنُ (1) عَلَّمَ الْقُرْآنَ (2) خَلَقَ الْإِنْسَانَ (3) عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (4)
ترجمه:
رحمٰن نے قرآن کی تعلیم دی – اس نے انسان کو پیدا کیا ، پھر اس کو گویائی سکھائی –
خدا تعالیٰ کے ناموں میں سب سے محبوب نام اللہ ہے اور اس سے سب سے زیادہ قریب صفت ، صفتِ رحمان ہے ، اس لئے جب مشرکین کو اللہ اور رحمان میں تردد ہوا اور انہوں نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ پیغمبر ، دعوی توحید کا کرتے ہیں اور اور دو خداؤں کو سجدہ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس کےجواب میں کہا گیا کہ اللہ اور رحمن ایک ہی ذاتِ منبع الکمالات کے دونام ہیں ، نام کے تعدد سے ذات کا تعدد تو لازم نہیں آتا ـ
قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ (110)
ترجمہ:
آپ فرما دیجیئے کہ خواہ الله کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو گے سو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں ـ
صفتِ رحمت کا اعلیٰ ترین مظہر ، نعمتِ قرآن ہے ،
انسان خدائی تخلیق کا شاہکار اور اس کی صفتِ تخلیق کا نقطۂ کمال ہے اور اس (master piece) شاہکار کا سب سے امتیازی وصف قوّتِ بیان ہےـ
*زبان پر قابو رکھئے*
اسلام یہ کہتا ہے کہ انسان کو اپنی زبان کو خیر و بھلائی اور نیکی کے کاموں میں استعمال کرنا چاہیے ورنہ سکوت اور خاموشی اختیار کرنا چاہئے ، یہی ایک مومن کامل کی پہچان ہے ـ
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے
عن أَبي شُريْحٍ الخُزاعيِّ: أَنَّ النَّبيَّ ﷺ قَالَ: مَنْ كانَ يُؤمنُ باللَّهِ واليومِ الآخرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَسْكُتْ رواه مسلم بهذا اللفظ، وروى البخاري بعضه.
ترجمه:
جو بندہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ، اس کو چاہئے کہ خیر و بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے ـ
بندۂ مومن کو چاہئے کہ غیر ضروری باتوں سے اجتناب اور گریز کرے ، خاموشی کو اپنا شعار اور فکرِ آخرت کو اپنا شیوہ بنائے ، جب بات کرے تو فضول اور بیہودہ بکواس نہ کرے ، کسی کی توہین اور تذلیل نہ کرے ، عمدہ اور پاکیزہ بات کہے ، اسلوبِ کلام ایسا اختیار کرے ، جس سے لوگوں کو اکتاہٹ نہ ہو ـ
اگر زبان کو قابو میں نہ رکھا جائے اور عواقب و نتائج کی پرواہ کئے بغیر زبان کھولی جائے اور بےمحابا دوسروں کو تنقید و ملامت کا نشانہ بنایا جائے تو اس سے نہ صرف دینی نقصان ہوتا ہے بلکہ اس سے مختلف قسم کی معاشرتی اور سماجی پیچیدیگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں ، بدگمانی اور تکدّر پیدا ہوتا ہے ، رشتوں میں کڑواہٹ اور تلخی آجاتی ہے ، اس کے برخلاف غیر ضروری باتوں سے بچنے اور خاموشی اختیار کرنے سے سہولت اور آسانی کے دروازے کھلتے ہیں ، اس لئے رسول پاک ص نے فرمایا
من صمت نجا (رواه أحمد و الترمذي)
جس نے خاموشی اختیار کی وہ نجات پاگیا ـ
ایک حدیث میں آپ ص نے فرمایا
و السُّكوتُ خيرٌ من إملاءِ الشَّرِ (رواه أحمد و مالك و إبن ماجة)
ترجمه:
شر انگیزی سے بہتر خاموش رہنا ہےـ
جس شخص کو اپنی زبان پر قابو نہ ہو وہ دوسروں کی تکلیف اور ایذا کاسبب تو بنتا ہی ہے ، خود اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے ، وہ اپنے لئے اس دنیا کی مشکلیں بھی خریدتا ہے اور جہنم کا ایندھن بھی جمع کرتا ہے ـ
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول : آپ کو میرے تعلق سے کون سی چیز سب سے زیادہ خوف اور اندیشے میں ڈالتی ہے ؟ آپ ص نے اپنی زبان کو پکڑ کر کہا کہ یہ( زبان )
رواہ الترمذي
*عبادات کے حسن و قبول کا دار و مدار زبان پر*
دین میں عبادات کی جو اہمیت ہے اس سے کون ناواقف ہے ، کم وبیش ہر شخص جانتا ہے کہ نماز دین کا سب سے اہم ستون ہے ، روزہ مومن کے لئے ڈھال اور حصولِ تقویٰ کا سب سے اہم ذریعہ ہے ، حج طاعتِ بدنی اور طاعتِ مالی کے اجتماع کا مظہر ہے، لیکن یہ بات شاید کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ان نورانی اعمال کی قبولیت کا دار و مدار بھی زبان پر ہے ، اگر زبان ٹھیک ہے تو یہ اعمال نیکیوں کی میزان میں پورےاتریں گے اور اگر زبان درست نہیں ہے تو یہ عبادتیں ردّ کر دی جائیں گی –
سنن أبو داؤد ، ترمذی اور ابن ماجہ میں ایک طویل حدیث حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ص مجھے ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں پہنچا دے اور دوزخ سے میری حفاظت کرے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے بڑا اور اہم سوال کیا ہے ، لیکن اللہ نے اپنی توفیق سے اس کا جواب میرے لئے آسان کردیا ہے ، دیکھو! اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز قائم کرو ، زکات دیا کرو ، روزے رکھا کرو ، حج کرو ، پھر آپ نے ابوابِ خیر کی نشاندہی فرماتے ہوئے کہا کہ روزہ مومن کے لئے سپر اور ڈھال ہے ، صدقہ اور تہجد گناہوں سے پیدا ہونے والی آگ کو ایسے بجھا دیتا ہے جیسےپانی آگ کو ، پھر آپ نے فرمایا کہ دین کا سر اسلام ہے ، اس کا ستون نماز ہے اور اس کا ذروۂ سنام ( بلند چوٹی) جہاد ہے ، آخری بات اس حدیث میں آپ ص نے یہ ارشاد فرمائی کہ ان سب کا دار و مدار جس چیز پر ہے وہ زبان ہے ، آپ نے فرمایا کہ اپنی زبان کو بے احتیاطی اور بیباکی سے روکو ، اس لئے کہ قیامت کے دن زبان کی بے احتیاطی اور بیباکی ہی لوگوں کو دوزخ میں منہ کے بل ڈلوائے گی ـ
حدیث کے آخری ٹکرے میں بد زبانی اور بد کلامی کے وبال کا جس انداز میں ذکر آیا ہے ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر زبان قابو میں نہ ہو تو ساری عبادتیں اور طاعتیں بے وزن اور بے قیمت ہیں ، اوراد و وظائف اور تہجد و نوافل کی کثرت مخلوق کی دل آزاری کے وبال کو کم نہیں کر سکے گی اور در اصل یہی میدان بھی ہے انسان کے اخلاقی اور روحانی جوہر کے امتحان کا ورنہ طاعات و عبادات میں تو فرشتے انسانوں سے کہیں بڑھ کر ہیں
*میر صاحب تم فرشتہ ہو تو ہو
آدمی ہونا تو مشکل ہے میاں*
انسان اگر نفس کی خواہشوں اور زبان کی بیباکیوں اور بے احتیاطیوں پر قابو پالے تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ، آپ ص نے فرمایا کہ جو میرے لئے زبان اور خواہشاتِ نفس کا ذمہ لے لے ، میں اس کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں (البخاري)
*اسلام کا نظام عبادت اور زبان کی اصلاح*
اگر اسلام کے نظامِ عبادت پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ احکام کے پہلو بہ پہلو اس بات کی بھی رعایت رکھی گئی ہے کہ زبان کو بے احتیاطی اور بے اعتدالی سے روکا جائے ، چنانچہ جہاں روزے کی فرضیت و فضیلت اور اس کے روحانی فوائد و ثمرات کو سمجھایا گیا ہے ، وہیں روزے کی حالت میں غیبت ، جھوٹ ، فحش اور لڑائی سے بھی سختی سے روکا گیا ہے،
فریضۂ حج کی ادائیگی کا جہاں حکم دیا گیا ، وہاں فحش کلامی اور لڑائی جھگڑے سے بھی سختی سے روکا گیا ، اگر اس کا تاکیدی حکم نہ دیا گیا ہوتا ، تو حج جیسی مشکل عبادت میں ، نفس کی بے اعتدالی اور زبان کی بے احتیاطی سے بچنا بہت مشکل ہوتا ـ زکات و صدقات کے باب میں جس طرح غریبوں اور محتاجوں کی مالی معاونت کا تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا اسی طرح ان کو ڈانٹے ، جھڑکنے اور احسان جتانے سے بھی بہت سختی سے روکا گیا ـ
*الفاظ ، تحریرات اور اشارات*
یاد رکھنا چاہیے کہ زبان کا دائرۂ کار بہت وسیع ہے ، زبان کا تعلق صرف ان الفاظ سے نہیں ہے جو زبان سے نکلتے ہیں اور کانوں تک پہنچتے ہیں ، بلکہ اظہار ما فی الضمیر کی وہ تمام صورتیں اس میں داخل ہیں ، جس کو انسان اپنے خیالات اور احساسات کی تعبیر کے لئے اختیار کرتا ہے ، خواہ وہ الفاظ ہوں ، تحریرات ہوں یا اشارات –
اس لئے ضروری ہے کہ ایک خطیب جب وعظ و خطابت کی مجلس آراستہ کرے تو اس کو تنقید و تعریض کی محفل نہ بنائے ، ایک انشاپرداز جب قلم اٹھائے تو قلم کی حرمت کا پورا پاس و لحاظ رکھے ، ایک شیخ جب ارشاد و سلوک کی مسند پر بیٹھے تو تنقید و ملامت کے چھینٹے نہ اڑائے ، اشارات کے ذریعے مافی الضمیر کے اظہار میں مدد ضرور لی جائے لیکن اس کے ذریعے کسی کی تحقیر و تنقیص نہ کی جائے ـ
(جاری)
Comments are closed.