موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
سال رواں 2020 میں ہم سے بچھڑنے والی عظیم علمی، فکری و ادبی شخصیات کی فہرست میں آج ایک مزید نام پروفیسر یسین مظہر صدیقی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا شامل ہو گیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔یہ خبر مجھ جیسے ادنیٰ طالب علم سمیت بڑے بڑے اصحاب علم و فکر کے لیے انتہائی رنج و الم کا باعث ہے۔ کیوں نہ ہو ایک ایسی شخصیت جس نے اپنی زندگی سیرت نگاری کے لیے وقف کر دی ، اپنی تحقیق و جستجو کا محور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں کو بنایا اور وہاں سے رنگ و برنگ کے پھول لاکر ایک ڈالی میں سجا دیا،ایسے علمی شخص کا کوچ کر جانا یقیناً کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں ہے۔
آپ کی پیدائش 1944 میں یوپی (انڈیا) کے لکھیم پور میں ہوئی تھی۔ ابتدائی تعلیم گھر پہ حاصل کی ۔اعلی تعلیم کے لیے دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا ۔وہاں 1959 میں فراغت کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی آئے اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا۔پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے، جہاں شعبہ تاریخ سے وابستہ ہوئے اور 1983 میں علوم اسلامیہ کے پروفیسر بنے۔
آپ اسلامی علوم و تاریخ میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔ قدیم و جدید مآخذ و مصادر پر آپ کی نگاہ بہت ہی گہری تھی۔دینی علوم کے ساتھ عصری علوم سے بھی فیضیاب ہوئے تھے جس وجہ سے فکر و نظر کا دائرہ کافی وسیع ہو گیا تھا۔علامہ شبلی نعمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی نے سیرت النبی پر خامہ فرسائی کرنے کا جو بالکل ہی منفرد اچھوتا سائنٹفک انداز ایجاد کیا تھا اس روایت کو آپ نے آگے بڑھایا۔اور سیرت و تاریخ پر درجنوں گراں قدر و بیش بہا کتابیں تصنیف وتالیف کیے ،جن میں چند یہ ہیں۔ (1)عہد نبوی کا نظام حکومت(2)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خواتین ایک سماجی مطالعہ(3) خطبات سرگودھا سیرت نبوی کا عہد مکی(4)خلافتِ اموی خلافت راشدہ کے پس منظر میں (5)بنی ہاشم اور بنی امیہ کے معاشرتی تعلقات۔اس کے علاوہ آپ نے مختلف رسائل کے لیے مضامین تحریر کیے، متعدد کانفرنسوں میں معلوماتی مقالات پیش کیے۔
آج سے 6 برس پیشتر پروفیسر مرحوم سے میری پہلی ملاقات دارا المصنفین اعظم گڑھ (انڈیا) میں ہوئی تھی جہاں وہ (علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کی وفات کے سو برس گزرنے پر منعقد ) سہ روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ کل ہی کی بات ہو ۔سچ پوچھیے تو اس مختصر سی پہلی ہی ملاقات میں آپ کی نورتن شخصیت نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا تھا، آپ کے بلند اخلاق ، ہنس مکھ چہرہ ، اور دلنشیں انداز کلام سے میں کافی متاثر ہوا تھا ۔اس پہلی ملاقات کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ افففففف اتنی بڑی علمی شخصیت، نامور مصنف اور ایک مشہور یونیورسٹی کے پروفیسر ہونے کے باوجود شگفتہ مزاج، فراخد دل ، سادگی پسند ،ہر طرح کے تکلف اور آؤ بھاؤ سے کوسوں دور۔ علم و فکر ، طنز و مزاح، عاجزی و انکساری اور زہد و تقویٰ کا ایسا حسین امتزاج کسی شخصیت میں بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ورنہ میرا مشاہدہ ہے کہ عموما جب کسی کو تھوڑی سی شہرت ملتی ہے تو وہ اپنے چہرے پہ مصنوعی سنجیدگی طاری کر لیتے ہیں، جلدی کسی بات کا جواب دینا خلاف شان خیال کرتے ہیں، اپنے ارد گرد خوشامدیوں کا پہرہ بٹھا دیتے ہیں۔ مگر پروفیسر مرحوم کی زندگی اس طرح کی ہر فضولیات سے پاک و صاف تھی۔ ایک طرف وہ نرم طبیعت کے مالک تھے،تو دوسری طرف بہت ہی اصول پسند انسان تھے۔ آپ نے دوران کلام بتایا تھا کہ قاضی مجاہد الاسلام رحمہ اللہ نے دینیات کے نصاب کے لیے کتاب لکھنے کی فرمائش کی۔ آپ نے کتاب تیار کر دی مگر اس میں بعض باتیں ایسی تھیں جو قاضی مرحوم بلکہ ایک بڑے حلقہ کے نظریہ سے متصادم تھی۔ جس بنا پر ترمیم کرنے کے لیے کہا گیا مگر آپ نے صراحت کے ساتھ جواب دیا کہ میں نے جو کچھ بھی تحریر کیا ہے اس کے پختہ دلائل موجود ہیں لہذا ترمیم ممکن نہیں ہے ۔بالآخر وہ کتاب قبول نہیں کی گئی اور مولانا بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹھے۔ اسی طرح آپ کی شخصیت میں مزاح کا پہلو تھا، علمی اور سنجیدہ گفتگو کے وقت بھی خود بھی ہنستے تھے اور دوسروں کو بھی ہنساتے تھے مگر ادب کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
آپ کی ذات میں خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں پوچھ لیا کہ آپ اپنے مادر علمی بغرض زیارت کیوں نہیں آتے ہیں ؟۔ مسکرا کر جواب دیا کہ بن بلائے جانا میری عادت نہیں ہے ۔ جہاں بلایا جاتا ہے وہیں جاتا ہوں ۔ جب تک علی میاں ندوی رحمۃ اللہ باحیات تھے مسلسل آنا جانا ہوتا تھا مگر ان کے بعد یہ سلسلہ موقوف ہو گیا۔ پروفیسر مرحوم شخصیت پرستی کے سخت مخالف تھے اور وہ اس کا شکوہ بھی کرتے تھے۔ آپ کا ماننا تھا کہ شخصیت پرستی فکری ارتقاء کے لیے زہر ہلاہل اور تحقیقی کاموں کے راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور یہ مزاج دین کے بھی خلاف ہے۔ آپ کا کہنا تھا کہ کسی بھی عظیم شخصیت کی قدردانی ضرور کی جانی چاہیے مگر اس کی پرستش ہر گز نہیں۔ آپ ایک عظیم مورخ و سیرت نگار تھے ۔اپ نے علمی تلاش و جستجو کے لیے” كل كلام يوخذ و يرد سوی كلام الله و رسوله” کو شعار بنائے رکھا تھا۔
جامعہ ملیہ میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کے تلمیذ خاص مشہور صاحب قلم مولانا عبد السلام قدوائی ندوی رحمۃ اللہ پروفیسر مرحوم کے ہر دلعزیز استاد ،سرپرست بلکہ اتالیق کی حیثیت رکھتے تھے۔میری نظر میں اس کی تین وجہ تھیں۔(الف) پروفیسر مرحوم انتہائی ذہین و فطین ، طلب علم کے شوقین اور محنتی تھے (ب) دونوں کا تعلق دارا العلوم ندوہ العلماء سے تھا (ج) اور دونوں ہم وطن تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت کو پروان چڑھانے میں مولانا عبد السلام قدوائی ندوی رحمۃ اللہ کا اہم کردار رہا ہے۔ پروفیسر مرحوم نے اپنے استاد کی وفات پر جو تحریر لکھی تھی اس کی سطر سطر سے محبت و عقیدت ،خلوص و اپنائیت جھلکتی ہے ۔اس میں ایک واقعہ تحریر کیا ہے جسے ہم "عجیب اتفاق” سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جو علامہ شبلی سے شروع ہو کر پروفیسر مرحوم پر ختم ہوتا ہے۔ اس کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ پروفیسر مرحوم نے قدوائی صاحب کی خدمت میں اپنی تحریر پیش کی جو کہ ان کی توقع کے مطابق نہیں تھی ۔قدوائی صاحب نے خوب ڈانٹا ۔یہی واقعہ قدوائی صاحب کے ساتھ بھی پیش آیا تھا جب وہ دارا العلوم ندو میں زیر تعلیم تھے تو سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو کچھ لکھ کر دکھایا اس میں پختگی نہیں تھی جس بنا پر سید صاحب نے خفگی کا اظہار کیا تھا اور اسی طرح کا واقعہ خود سید صاحب کے ساتھ پیش آیا تھا جب انہوں نے اپنے استاد یعنی ہمارے ممدوح علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کو اپنی ایک تحریر دکھائی تو علامہ نے اس کو چاک کر دیا اور امید پر نہ اترنے کی وجہ سے ناراض ہو گئے۔
پروفیسر مرحوم سے بالمشافہ استفادہ کرنے والے سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ ان کی متنوع شخصیت اور حیات و خدمات کے جائزہ لینے کا حق صحیح معنوں میں یہی حضرات ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ان شاءاللہ جلد ہی آپ کے شاگرد اور قریبی احباب اس جانب توجہ دیں گے۔رب کریم پروفیسر مرحوم کی مغفرت فرمائے درجات بلند کرے خدمات کو بخشش کا ذریعہ بنائے صالحین کی صف میں شامل کر دے ۔امین یا رب العالمین۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

امیر العزیز  (قلمی نام )
27 محرم 1442 ہجری

Comments are closed.