مکرمی جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی جناب مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
عرض ہے کہ ادھرچند سالوں سے ملت اسلامیہ کے خواص وعوام میں آپ کے گمراہ کن افکاروخیالات سے ایک عجیب قسم کا اضطراب اورطوفان برپا ہے ۔
قرآن مجید کی ترتیب پر اعتراض کرتے ہوئے جب امت کو آپ نے شک اور تذبذب میں ہی نہیں بلکہ ان کے ایمان وایقان پرڈاکہ ڈالنے کا سلسلہ شروع کیا اس وقت ہی علماء امت نے آپ کے منحرف اورضال ومضل فکر کا بحمداللہ خوب تعاقب کیا اورمدلل ومسکت جواب بھی دیا جس کے نتیجے میں آپ نے ندوت العلماء کے بعض جید علماء وفقہاء کو تحریری طورپر سخت وسست بھی کہا تھا ۔ حالانکہ کسی عالم کو یہ زیب نہیں دے تا کہ وہ کسی عام مسلمان پر بھی لعن طعن کرے چہ جائے کہ اپنے کسی ہم منصب پر ہاں یہ اوربات ہے کہ اب اس دور شر اورانحطاط ونفاق میں بعض عالم بھی خوب بازاری گالی بولتے ہیں جیساکہ گزشتہ ہفتہ میراروڈ ممبئ کے ایک مدرسہ کے عالم مہتمم کی زبان سے میں نے خود گالیوں کی سماعت کی ہے جو انہوں نے اپنے ایک رشتہ دار عالم دین کو ان کا ذکر خیر میری زبان سے سن کر دیا ۔
اللہ اکبر ہم لوگ کس دور میں جی رہے ہیں ؟
تزکیئہ نفس کہاں گیا ؟
مدرسے کی تعلیم وتربیت اورقرآن وحدیث کا اثر بھی باقی نہ رہا ۔
بہرحال ترتیب قرآن مجید پر آپ کا یہ معاملہ ابھی سرد بھی نہیں ہواتھا کہ ہندوستان کے جمہور علماء ومسلمین کی بابری مسجد کی بازیابی کے سلسلے کی تمام تر مساعی کو آپ نے ناکام کرنے کی کوشش کی اور بابری مسجد کے قضیہ کو حل کرنے کے نام پر ایسے عناصر کی آپ نے رفاقت قبول کی جن پر برادران وطن کی ایک بڑی تعداد کو بھی اعتماد نہیں تھا چہ جائے کہ مسلمان ان کے تصفیے یاثالثی کو قبول کرتے اور پھر آپ نے دانستہ یانادانستہ اغوائے شیطانی میں بابری مسجد کی دست برداری کو قبول کرتے ہوئے اس کے عوض جن تجاویز کا احاطہ کیا تھا اس کا شمار بجز بیع مسجد کہ اورکچھ نہیں کہا جاسکتا تھا ۔
خداکاشکر ہے کہ ہمارے اکابر علماء نے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بروقت آپ کی ان تجاویز کی مذمت کرتے ہوئے اس کومسترد کردیا ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ تصفیہ کیلئے اس سے پہلے بھی ایک سرکاری کو شش بڑے پیمانے پر ہوئ تھی اس میں مسلم پرسنل لاء بورڈ خود شامل تھا اور اس وقت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رح شدید علالت کے دور سے گزررہے تھے بلکہ یوں کہیے کہ وہ مرض الوفات میں تھے لیکن ان کا دماغ زندہ تھا بصیرت موجود تھی ۔
اس بیٹھک میں بہ ظاہر ملک کے قابل لوگ ہندو مسلم دونوں طبقے سے تھے اور یومیہ میٹینگ کی رپورٹ حضرت قاضی صاحب مرحوم کو پیش کی جاتی ۔
قاضی صاحب اپولو ہاسپیٹل میں شریک تھے ۔
بسا اوقات وہ بسترعلالت پر ہی اس سلسلے کی تحاریر وتجاویز اور آراء کا خود مطالعہ فرماتے یا کسی سے سماعت فرماتے ۔
کئ دنوں کی طویل میٹینگ کے بعد جب تصفیے کی حتمی تحریر قاضی صاحب کے سامنے لائ گئ تو آپ نے اس کی سماعت کی اورفرمایا کہ یہ فیصلہ اور یہ تجویز ہمیں بابری مسجد کے سلسلے میں منظور نہیں ہے اور پھر بات وہیں پر ختم کردی گئ ۔
پھر حضرت قاضی صاحب نے فرمایا کہ اگر خدانخواستہ بابری مسجد کی اصل جگہ سے جس پر مسجد ہے ہم ایک انچ بھی ہٹ گئے تو مستقبل میں مسلمانوں کو بہت خسارہ ہوگا ۔
اللہ پاک مرحوم قاضی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عنایت فرمائے کہ انہوں نے اسی وقت یاران محفل میں سے بعض لوگوں کو تول لیاتھا کہ ان کارخ کدھر ہے ۔
مولانا ۔ آپ کے سامنے یہ واقعہ تو موجود تھا مگر افسوس کہ آپ نے اس کا استحضار نہیں کیا
مولانا المکرم ۔
اس وقت بھی جب وحی الہی اور شعائر الہی بابری مسجد پر آپ کے باطل افکار منظر عام پرآئے تھے میں نے چاہا تھا کہ آپ کی خدمت میں گزارش کروں کہ محترم آپ کا راستہ کدھر جارہا ہے ذرا اس کو دیکھیے ۔
مگر اس وقت ہمارے بعض قاسمی ندوی اور مظاہری دوستوں نے بروقت آپ کا محاسبہ کیا تو ہم نے آپ کے نام لکھے ہوئے چند سطروں کو سرد خانے میں ڈال دیا کہ اس کی ضرورت باقی نہ رہی ۔
مگر اب جب کہ آپ نے دیدہ ودانستہ اپنی خودساختہ علمی تحقیق کا رخ کا ئنات کی بعد از رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے مقدس ہستی کی طرف کردیا اور ان کی شان میں اتہامات والزامات کا سلسلہ دراز کردیا جن کیلئے قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اقتدیتم اھتدیتم کی سند ملی تو پھر عام افراد امت کی طرح راقم کا دل بھی بہت مضطرب ہوا اورجی چاہا کہ آپ سے دریافت کروں کہ مولانا آپ نے وہ اثرات جو مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح سے قبول کئے تھے کہاں گم کردئے ؟
افسوس کہ آپ کو ان قرآنی آیات کا اورصحابئہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کیلئے لسان نبوت سے ارشاد فرما ئے گئے مبشرات کا بھی خیال نہ رہا ۔
آپ جذبات میں یہ بھول گئے کہ ماضی میں گستاخ صحابہ کی دنیا وآخرت میں کیا درگت بنی ۔
افسوس صد افسوس ۔ آپ وہی مولانا سلمان حسینی ندوی ہیں کہ جب عرب حکمرانوں کی بے راہ روی پر یا اصلاح معاشرہ پر کچھ بولتے تو لوگ گوش شوق سے سماعت کرتے مگر کہاں گم ہوئ وہ آپ کی بانکپن کس صہیونی اوررافضی اور کس شیعہ اثنا اشعری کی نظر لگ گئ کہ آپ نے خال المومنین حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی نہیں بخشا اورپھر سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر بھی بجلی گرادیا ۔ فیا حسرتا
مجھے آج آپ کی اس حالت پر حضرت اقبال مرحوم کا شعر یاد آرہا ہے
ع ۔۔۔۔۔
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
اب کھوگیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
مولانا یقین جانیے آپ کی سابقہ اعتدال والی گفتگو جذب قلندرانہ کی سی ہواکرتی تھی مگر اب محسوس ہوتا ہے کہ آپ سے وہ نعمت سلب کر لی گئ ہے ۔
آدمی جب مرحومین اورسب سے بڑی بات یہ کہ اساس دین کو ہی اپنی ناقص عقل وفکر کا محور بنا لیتا ہے تو بسا اوقات وہ شاہراہ الہی اورصراط مستقیم سے بہت دور چلاجاتا ہے مگر کبر کی وجہ سے وہ اپنی اس گمراہی کو تسلیم کرنے پر قادر نہیں ہوپاتا
ہمارے مرشد حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتابگڈھی قدس سرہ فرماتے تھے ۔
بھٹک کہ منزل جاناں سے دور جاپہونچے ۔
جو جوش عشق میں جذبات کو دبا نہ سکے۔
مولانا المکرم
ہم ہندوستانی مسلمان صدیوں سے عقائد کے مسئلہ سے بھی دوچارہیں اور مختلف مسالک میں بٹے ہوئے ہیں اور اس پر مستزاد کے سب کہ سب حکمرانوں کی سخت نظری کے بھی شکار ہیں ۔
نئ نسل کے تحفظ وبقاء اور وطن عزیز میں باوقار زندگی گزارنے کا مسئلہ بھی درد سر بنا ہوا ہے ۔
موب لیچنگ شباب پر ہے ۔ مسلمانوں میں ناخواندگی اوربے روزگاری اور ان کے علاقوں میں دیگر ایسے مختلف مسائل ہیں جس کی وجہ سے وہ اشتغال بالعبادات میں بھی کمزور ہیں ایسی حالت میں ان کے پاس بس ایک ہی سہارا اللہ کی کتاب قرآن مجید اور ایک ہی سرمایہ حب رسول وحب صحابہ موجود ہے آپ فرمودات رسول اورذوات صحابہ پر لب کشائ کرکے ہمارا یہ سہارا اورسرمایہ بھی چھین لے نا چاہتے ہیں کیا ؟
مولانا بس کیجیے صحابئہ کرام کے باہمی تعلقات کے بند باب کو دوبارہ نہ کھو لیے اس پر رضی اللہ عنھم ورضو عنہ ۔ کی مہر لگ چکی ہے ۔ ان کی آنکھوں نے ان کو دیکھا ہے جن کو مابعد صحابہ کسی نے نہیں دیکھا وہ سب صحابہ جبرئیل امین کے نظر کردہ ہیں اوراللہ پاک نے ان کا انتخاب کیا تھا اپنے حبیب معظم کی ہمراہی کیلئے ۔ آپ اس کا یقین کرلیں کہ کسی صحابی کے کسی عمل کے بارے میں آپ سے کوئ سوال نہیں ہوگا ۔ اورمعرکئہ کر بلا کیلئے بھی میدان محشر میں آپ کو ثالث نہیں بنایا جائے گا ۔
اس لئے للہ اس کمزورامت پر رحم کیجیے ۔
اور ہاں آپ سلمان حسینی ندوی ہیں ۔ حضرت مہدی عہ ہرگز نہیں خداکے واسطے مہدویت کا علان نہ کیجیے گا ۔
آپ مہدی والا کام بھی نہیں کررہے ہیں بجز کار نفسانی کے اس لئے آپ ہرگز ہرگز مہدی ہونے کا دعوی نہ فرمائیں یہ سراسر دغا اوردھوکے کی بات گی ۔
والسلام علی من التبع الہدی
محمد شاہد ناصری حنفی 13سبتمبر 2020
Comments are closed.