نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعداء سے کبھی

نثاراحمد حصیر القاسمی
شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ
سکریٹری جنرل اکیڈمی آف ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹیڈیز ۔ حیدرآباد۔
[email protected]
0091-9393128156
اسلام کے ابتدائی دور میں جس وقت مسلمان مکہ مکرمہ میں ظلم وجور کا شکار اور مصائب وآلام سے دو چار تھے، وہ کمزور وناتواں اور دنیوی اسباب کے اعتبار سے بے بس وتہی دست تھے، اللہ کے نبی صلعم انہیں عرب وعجم کی حکمرانی کا مژدہ سنا رہے تھے، اور قرآن کی آیتیں انہیں روئے زمین پر حکمرانی کی خوشخبری دے رہی تھی، جو ایمان والوں کے لئے باعث تسلی وحوصلہ افزاء تھی مگر اہل کفر میں یہ بات حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی ، وہ ان کمزوروں ولاچاروں کو دیکھ کر ان کا مذاق ڑاتے اور کہتے تھے کہ ذر ان پھٹیچروں کو دیکھو یہ قیصر وکسریٰ جیسی سپر پائور سے ٹکر لینے والے اور ان کے اقتدار پر قابض ہونے والے ہیں، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے خوشخبری پر مشتمل بہت سی آیتیں نازل فرما کر مومنوں کے حوصلے بلند کئے اور ان کے اندر ایک ولولہ اور امنگ پیدا کیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہوجائے۔ (النحل: 102)
اللہ تعالیٰ نے اس بے سروسامانی میں اور دشمنان اسلام سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کی صورت میں دو نیکیوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا کہ تمہیں یا تو فتح وکامرانی نصیب ہوگی یا مارے گئے تو شہادت کا درجہ حاصل ہوگا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مظلوم اور کمزور مسلمانوں کی مدد کرنے پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں، ایمان والوں کی یہ مدد ونصرت دنیا میں بھی ہوگی اور آخرت میں بھی ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں مارتے ہیں اور مرتے ہیں، اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تو رات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے، تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ طے کیا ہے خوشی منائو، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ:111)
یہ ان لوگوں کے لئے عظیم الشان خوشخبری ہے جنہوں نے اللہ کے دین کی حفاظت ونصرت کیلئے اپنی جان اور اپنے مال کو قربان کیا اور خود کو جنت کے عوض اللہ کے ہاتھ گویا فروخت کردیا۔ اللہ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ تمہیں یا تو فتح وکامرانی حاصل ہوگی، اور اس کے نتیجہ میں تمہیں اقتدار حاصل ہوگا تاکہ تم اس سرزمین پر اللہ کے حکم اور اس کی شریعت کو نافذ کرسکو۔ اسے امن کا گہوارہ بنا سکو، اس کے فساد وبگاڑ اور بدامنی ولاقانونیت کا خاتمہ کرسکو۔ انسانوں کو انسانیت کا درس دے سکو اور انہیں بندوں کی بندگی سے نکال کر رب کائنات کی بندگی کی طرف لا سکو۔ یا تمہیں شہادت نصیب ہوگی جو آخرت کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
کہہ دیجئے کہ تم ہمارے بارے میں جس چیز کا انتظار کررہے ہو وہ دو بھلائیوں میں سے ایک ہے، یعنی فتح وکامرانی یا شہادت ۔ (التوبہ:52)
اللہ تعالیٰ نہ ظلم کو پسند فرماتا ہے اور نہ ظالموں سے خوش ہوتا ہے بلکہ اس کے برعکس اسے ناپسند کرتا اور اس پر غضبناک ہوتا ہے، حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اے میرے بندو میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کردیا ہے، اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے، اس لئے تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (صحیح مسلم ، 2577)
اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا عدل متقاضی ہے کہ وہ اپنے کمزور ومظلوم بندوں کی مدد کرے بشرطیکہ بندہ ان ذمہ داریوں کو نبھاتا رہے جو اس پر عائد ہوتی ہیں اور اللہ کے نظام اور اس کے طریقہ کو اپنائے اور اس کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر گامزن رہے، اور ہر طرح کی ظلم وزیادتی اور دست درازی ونا انصافی سے بچتا رہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یقینا سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالیٰ ہٹا دیتا ہے ،کوئی خیانت کرنے والا نا شکرا اللہ کو ہرگز پسند نہیں جن مسلمانوں سے اہل کفر جنگ کررہے ہیں، انہیں بھی مقابلے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں، بے شک ان کی مدد پر اللہ قادر ہے، یہ وہ ہیں جنہیں ناحق اپنے گھروں سے نکالا گیا ، ان کے صرف اس کہنے پر کہ ہمارا پروردگار اللہ واحد ہے، اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو عبادت خانے اور گرجے اور مسجدیں اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے، جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی اسکی ضرور مدد کرے گا، بے شک اللہ بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پائوں جما دیں( اقتدار ان کے حوالے کردیں اور حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دیں) تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کر کریں، اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں‘ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ (الحج: 41-38)
آگے اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے
اور جس نے بدلہ لیا اسی کے برابر جو اس کے ساتھ کیا گیا تھا، پھر اگر اس سے زیادتی کی جائے تو یقینا اللہ تعالیٰ خود اس کی مدد فرمائے گا، بے شک اللہ تعالیٰ در گذر کرنے والا ، بخشنے والا ہے۔ (الحج:60)
سورئہ قصص میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
یقینا فرعون نے زمین میں سرکشی کر رکھی تھی، اور وہاں کے لوگوں کو گروہوں میں بانٹ رکھا تھا، اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا، اور ان کے لڑکوںکو ذبح کر ڈالتا تھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا ، بے شک وہ مفسدوں میں سے تھا، پھر ہم نے چاہا کہ ان پر احسان کریں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کردیا گیا تھا اور ہم انہیں کو پیشوا اور زمین کا وارث بنا دیں اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت واختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں۔ (القصص:6-4)
ان آیتوں کے اندر اس حقیقت کو واضح ودو ٹوک انداز میں بیان کیا گیا جو ظالموں سے اوجھل تھی اور ہر زمانہ کے فرعون سے اوجھل رہتی ہے، ان آیتوں کے اندر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو اپنا دفاع کرنے اور ظلم کا خاتمہ از خود کرنے کا پابند بنانے سے پہلے خود اللہ تعالیٰ نے ان کا دفاع کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری لی ہے اور یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ مومن اگر ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنے والا اللہ پر کلی اعتماد وبھروسہ کرنے والا، اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ماننے والا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کو ضرور ذلیل وخوار اور رسوا کرے گا، جب یہ اللہ کا وعدہ ہے تو مومن کو اس پر یقین رکھنا اور مطمئن رہنا چاہیے کہ اللہ ان کی ضرور حفاظت کرے گا، اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائے گا، ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ اس وجود کے اندر اصل قوت اور طاقت اللہ کی ہے، انسان کے بنائے ہوئے بڑے سے بڑے اور مہلک سے مہلک ہتھیار اس کے سامنے ہیچ اور بے کار ہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں، اور اللہ کی طاقت کسی کافر ومشرک کے ساتھ نہیں بلکہ ایمان والوں کے ساتھ ہوگی، خواہ اس دنیا کے اندر وہ نہتے اور ظاہری سازو سامان سے تہی دست ہی کیوں نہ ہوں اور جس کے ساتھ کائنات کی سب سے بڑی طاقت اور خالق ارض وسماء کا سہارا ہو بھلا اسے کس چیز کا خوف ہوسکتا۔
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکہ بیم ورجا دیکھ
اور اللہ کی طاقت جن کے خلاف ہوگی انہیں نہ کبھی چین وسکون حاصل ہوسکتا اور نہ وہ بے خوفی کی زندگی بسر کرسکتا ہے بلکہ یقینی طور پر اس کی زندگی قلق واضطراب اور خوف کے سائے میں کٹے گی، مگر ہمیں اس کے ساتھ ہی یہ بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ ایمان والوں کے ساتھ خدائی طاقت اسی وقت ہوتی ہے جبکہ وہ مضبوط ایمان کے ساتھ دشمنان اسلام کے مقابلہ پڑ ڈٹے رہیں اور دنیا کے اندر جو اسباب اختیا رکرنے کا حکم دیا گیا ہے اسے اختیار کریں، خواہ تھوڑی یا معمولی وحقیر ہی کیوں نہ ہو، مگر اسباب کا اختیار کرنا اولین شرط ہے۔
ان آیتوں میں سے ایک بات یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ دشمنان اسلام کی سرکشی وچیرہ دستی اگر حد سے بڑھ جائے اور کمزور وناتواں وبے بس مسلمانوں کو اپنے دین وایمان اور جان ومال کی حفاظت کی کوئی تدبیر نظر نہ آرہی ہو اور وہ خود کو بے سہارا سمجھنے لگے ہوں ، سوائے اللہ کے سہارا کے اور ان کی نگاہ اللہ کی طرف اٹھ رہی ہو تو اس وقت اللہ کی طاقت اسے سہارا دینے کے لئے اس کی طرف ضرور متوجہ ہوتی ہے۔ نوح علیہ السلام نے ایک ہزار پچاس سال کی عمر پائی اور 950 سال تک اپنی قوم کو دعوت دیتے اور اللہ کی طرف بلاتے رہے مگر قوم ان کی طرف متوجہ کیا ہوتی کہ انہیں مار ڈالنے کی دھمکی دینے لگی۔
انہوںنے کہا کہ اے نوح، اگر تو باز نہ آیا تو یقینا تجھے سنگسار کردیا جائے گا۔(الشعراء:116)
نوح نے ان کی گمراہی وزیادتی کے خاتمہ اور ان کی اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی پھر وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’رب انی مغلوب فانتصر‘‘ اے میرے پروردگار میں بے بس ہوں تو میری مدد فرما ، پھر قادر مطلق نے اس زبردست کائنات کی چکی کو گھما دیا اور اس کا انجام وہ ہوا جو رہتی دنیا کے لوگوں کے لئے نشان عبرت بن گیا، تو سرکشی ، ظلم وبربریت ، بے جا قتل وغارت گری اور سفاکی وخونریزی جب حد سے بڑھ جاتی ، بے گناہ ایمان والوں کی جان مال ، عزت وآبرو ارزاں ہوجاتی ، انسانیت کو شرمسار کرنے والی حرکتیں سرزد ہونے لگتیں اور ظلم تشدد اور جوروجفا کا ننگا ناچ شروع ہوجاتاہے تو اللہ خود اس کے ازالے کا انتظام کرتا ہے، کبھی انسانوں کے ذریعہ اور کبھی اس کے بغیر ہی آسمانی نظام وتدبیر کی شکل میں ، اللہ کمزوروں اور مظلوموں کو ضرور سہارا دیتا انہیں ظالموں سے نجات دلاتا اور ان ظالموں کے اقتدار کو ختم کرکے ان کمزوروں کو امامت کے منصب پر فائز کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بہت جلد جان لیںگے وہ کہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔ (الشعراء:227)
اس دنیا کے اندر اللہ کا نظام ہے کہ وہ دیریا سویر مجرمین وظالمین سے انتقام لے کر رہتااور اپنے مومن بندوں کی مدد ضرور کرتا ہے جیسا کہ سورئہ روم کی آیت نمبر 47 کے اندر اس کی صراحت موجود ہے۔
حضرت ابودراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلعم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جو مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی آبرو کا دفاع کرے گا تو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کو اس سے دور کردے گا ، پھر آپ صلعم نے سورئہ روم کی اس آیت کی تلاوت کی، ’’ و کان حق علینا نصر المومنین ‘‘ اور ہمارے اوپر لازم ہے ایمان والوں کی مدد کرنا ۔ (الکافی الشافی فی تخریج احادیث الکشاف ۔ 3442 فیہ لین)
اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مومنین سے دنیا میں فرعون کیخلاف ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا اور فرمایا کہ تم اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو ہی غلبہ حاصل ہوگا۔
یہ درست ہے کہ مسلمان ظالموںکے ہاتھوںمارے اور کاٹے جائیںگے جیسا کہ سابق میں خود انبیاء کو قتل کیا گیا اور ان پر ایمان لانے والوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا گیا مگر اللہ ان ظالموں کو یوں ہی نہیں چھوڑ دے گا بلکہ ان پر خود مسلمانوںکو یا کسی دوسرے کو مسلط کرے گا جو ان سے ان کے مظالم کا انتقام زیادہ بدترین طریقہ سے لے گا۔
سید قطب نے اپنی تفسیرفی ظلال القرآن میں سورۃ الصافات کی آیت 173-172 کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ اسلامی عقائد کو مٹانے کی خواہ کتنی ہی کوشش کرلی جائے اور کسی نظریہ یا فلسفہ کو مسلط کرنے کی کتنی ہی جتن کیوں نہ ہو، اسلامی عقیدہ اور اس کے ماننے والے باقی رہیںگے اور خود ساختہ افکار ونظریات اور اس کا نظام ایک نہ ایک دن زوال سے ضرور دو چار ہوگا کیونکہ اللہ کا وعدہ اور اس کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ اپنے بھیجے ہوئے پیغمبروں اور ان کے ساتھ ایمان کی راہ پر چلنے والوں اور ان کے لشکروں کو غلبہ عطا کرے گا، یہ اللہ کا بنایا ہوا اٹل نظام ہے اور جس طرح سورج ، چاند اور دوسرے ستاروں کی گردش میںکوئی تخلف نہیں اور شب وروز کی آمد ورفت میںخلل نہیں بلکہ یہ سب اللہ کے اس کائناتی نظام کے تحت چل رہے ہیں ، اسی طرح اللہ کا یہ بھی نظام ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو غلبہ عطا فرمائے گا اور ان کی مدد کرے گا، بشرطیکہ وہ اللہ کے دین اور اس کی شریعت کو نافذ کریں، اسکے حکم کو مانیں اور اس پر عمل کریں، بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری کو نبھائیں، نماز قائم کریں اور دوسرے فرائض کو انجام دیں، اللہ نے نطام بنایا ہے کہ مٹی خشک ہو کر خواہ کتنی ہی سخت اور مردہ کیوں نہ ہوجائے ، بارش کے قطروں سے اس میں جان آجاتی ہے، اسی طرح مسلمان کمزور ولاچار وناتواں ہوجانے کے بعد اگر ان میں ایمان کی حرارت پیدا ہوجائے اور وہ ایمان واسلام کی حفاظت کے لئے عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے اور اسباب کو اختیار کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں تو معمولی ساز وسامان کے باوجود انہیں کامیابی ملے گی، اور اللہ انہیں زمین کا وارث بنا دے گالیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ان کی جدوجہد حکومت واقتدار حاصل کرنے کیلئے نہیں بلکہ دین وایمان کی خاطر اس کے احکام کو نافذ کرنے کے لئے ہو، ہمارے اعمال واخلاق ، عادات واطوار ، کردار وطرز زندگی اہل کفر سے جدا گانہ اور مومنانہ ہو۔ مومن کو اللہ کے وعدہ پر اعتماد ہونا چاہیے اور یقین کرنا چاہیے کہ ہم اپنی کامیابی کی مدت کا جو تصور رکھتے ہیں، یہ کامیابی ہمیں اس سے بھی پہلے مل سکتی ہے، ہمارے ملک کی فضا اگرچہ اس وقت تاریک ہے مگر ہر تاریکی کے بعد صبح کی روشنی آتی اوراس تاریکی کو اجالے میں تبدیل کردیتی ہے، اللہ کا یہ بھی نظام ہے کہ ہر آسانی کے بعد تنگی اور ہر تنگی کے بعد آسانی ہے، کبھی یہاں ہماری حکومت تھی، ہمارا غلغلہ تھا اور ہمارا ایک مقام ومرتبہ تھا، آج زمانہ اسکے برعکس ہے، ظالموں کو غلبہ حاصل ہے، اور وہ مسلمانوں پر ظلم وستم کی ساری حدیں پھلانگ چکے ہیں، آسانی کے بعد ہماری یہ تنگی کا زمانہ ہے، اور اس کے بعد نظام کائنات کے تحت لازمی طور پر ہمارے لئے آسانی آنے والی اور مظالم کے بادل چھٹنے والے ہیں، ہم جتنی جلد اللہ کے دین اور اس کی نصرت سے جڑ جائیں اتنی ہی جلدی ہماری یہ مصیبت دور ہوسکتی ہے۔کیونکہ اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے پائوں جمادے گا۔ (محمد:7)
کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعداء سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعداء سے
ہم اپنے خالق ومالک اور پروردگار کو اپنے عمل سے بتائیں کہ ہم دین پر قائم ہیں، اور رہیںگے ، خواہ ہمارے اوپر کتنے ہی مصائب کے پہاڑ توڑے جائیں اور اہل کفر ہمارے خلاف کتنا ہی زور آزمائی کرتے رہیں، ہمارا قدم متزلزل نہیں ہوگا، اور ہم اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں، اور ساتھ ہی اللہ سے غلبہ دین کے لئے دعا بھی کرتے رہیں اور اپنے اعمال کو بھی درست کرنے کی کوشش کریں ، اگر ہمارے اور دشمنان اسلام کے اعمال وافعال، سلوک وکردار ، اخلاق واوصاف ، عادات واطوار اور طرز زندگی میں کوئی فرق نہیں رہا ہماری سرگرمیوں کا محور بھی حب جاہ ومال رہا ، ہماری جدوجہد کا مقصد بھی حصول اقتدار اور محض اپنی بالا دستی وحکمرانی اور اس کا پھیلائو رہا تو ہمیں روئے زمین پر تکمین حاصل نہیں ہوگی کہ ہم میں اور اہل کفر میں کوئی فرق نہیں ، اللہ ہمیں یہ سب کچھ اس وقت عطا کرے گا جبکہ ہماری جدوجہد دین کی سربلندکے لئے ہو، اور اس کے لئے ہمیں اپنے کردار واخلاق کو دوسروں سے ممتاز کرنا ہوگا، اسی طرح مؤمنانہ زندگی اپنانی ہوگی جس طرح دنیاپر حکمرانے والے ولے ہمارے اسلاف کی زندگی تھی جن کے دلوں سے دنیا کی محبت نکل چکی تھی اور دین کی سربلندی ہی ان کی زندگی کا اصل مقصد بن گیا تھا۔
اٹھو نقارئہ افلاک بجا دو اٹھ کر
ایک سوئے ہوئے عالم کو جگا دو اٹھ کر
Comments are closed.