بہار اسمبلی انتخابات 2020 اور مسلم اقلیتیں

✒️ :عین الحق امینی قاسمی

بہار اسمبلی انتخابات 2020 کی تیاری زوروں پر ہے ،ہر پارٹی کے ورکرز اپنی اپنی ڈفلی بجارہے ہیں ،اقتدار کی کرسی کس کے پالے میں جاتی ہے،یا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ،اس پر فی الوقت کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا ،البتہ جو سیاسی گھماسان ہے ،ایک دوسرے پر چھنٹا کشی ہے اور اخلاقی سیاست کاجو رخ ہے اس سے اتنا ضرورلگتا ہے کہ معاملہ بیٹی روٹی تک بھی جائے گا ،جو جتنا زور سے چلائے گا ،اور” چور بولے زور سے” کی مثل پر عمل کرتے ہوئے بے شرمی اور بے رحمی پر اترے گا ،وہی کرسی اقتدار پر قبضہ جمانے میں کامیاب ہوسکتا ہے ،چوں کہ جنتا کو بھی نہ روزگار سے مطلب رہا ،نہ تعلیم سے اور نا ہی ملک کی اکنامک ترقی سے :
کون جانے ہے میاں ارباب علم ودانش کو
جو چلاکر بولے ہے وہی مجلس پہ چھا جائے ہے
ووٹرز اب مدعوں پے ووٹ نہیں کرتے وہ لالی پاپ اور جذباتی نعروں پے ووٹ کرنے لگے ہیں ،ملک میں سیاست کی جو خوف ناک فضا اور ذہن تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ صرف اقلیتوں کے لئے ہی نہیں ،ملک کی بڑی اکثریت کے لئے بھی ناسورہے ،ملک کے ووٹرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بدلے کے بھاونا اورجذبے سے اوپر اٹھ کر ملکی سلامتی کے پیش نظر ووٹ کریں اور ایسے افراد کو اسمبلی بھیجنے کا کام کریں جن میں علم و حلم کی صلاحیت ہو ،جو انیکتا میں ایکتا اور کثرت میں وحدت کا سونچ اور تنگ نظری سے پرے ہٹ کر بلند گاہی کا حامل امیدوار ہو ،جن میں نام سے زیادہ کام پر بھروسہ ہو اور عام عوام کی خدمت ایک خادم کے طور پر کرنے کا جذبہ رکھتا ہو،چاہے وہ امیدوارکسی پارٹی اور کسی بھی ذات سے تعلق رکھتا ہو ،تاکہ پارلیمینٹ سے اسمبلی تک کا گریما ں اور وقار بحال رہے ۔
آج کی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے منتخب کردہ امیدواروں میں 90/95% تعدادمحض زور آور ،داغی ،اپرادھی،بے ایمان ،ان پڑھ جاہلوں کی ہوتی ہے ،سیاست میں پاپولریٹی کایہ مطلب نہیں کہ صرف غنڈے چور اچکے اور زندگی بھر ناچنے گانے والےہی اسمبلی میں چھاجائیں ،جن کے اندر خوف دلانے یا دل بہلانے کے سوا ملک وسماج کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی یا منصوبہ بند طریقے سے کمزوروں کو ایک زینا اوپر اٹھانے کے لئے ذاتی دلچسپی ہی نہ ہو ،ایسے لوگ وہاں بیٹھ کر دبنگوں کی زبان بول بول کر غریبوں ،مزدوروں اور غریب کسانوں کی قسمت کا فیہ کریں اورپڑھے لکھے ،گیانی امیدواروں کو حاشیہ پر رکھنے اور انہیں ٹھکانے لگانے کی اوچھی حرکت کی جائے۔
جہاں تک مسلم اقلیتوں کا سوال ہے کہ وہ 2020کے الیکشن میں کن مدعوں پہ ووٹ کررہے ہیں : اس حوالے سے اہم بات تو ذہن میں رہنی چاہئے کہ مسلمانوں نے آزادی کے بعد سے آج تک کسی بھی ایسے ایشوز پر ووٹ نہیں کیا ہے جس کا تعلق خالص مسلمانوں سے ہو ،بلکہ ہمیشہ ایسے مدعوں کو سپورٹ کیا ہے جس میں عموم ہو یعنی ایسا مدعا جس پر عمل درآمدگی کی صورت میں سب کا بھلا ہو ،چاہے روزگار کا مسئلہ ہو ،یا تعلیم یا پھر ہیلتھ اور صحت کا مسئلہ ہو ،عمومی سطح پر انہیں ایشوز پر مسلمان ووٹ کرتے چلے آئے ہیں اور اس میں انہوں نے کبھی ذات پات یا پارٹی کی سیاست بھی نہیں کی ،بلکہ کسی بھی ذات وپارٹی کا امیدوار سامنے آیا تو مسلمانوں نے ہمیشہ یہ مدعے ان کے سامنے ضرور رکھے ،اور جس کسی میں امید کی کرن نظر آئی اس کا مخلص بن کر پروانہ وار سپورٹ کرتے چلے آئے ہیں ،موجودہ پس منظر میں ان کی اس سونچ کو وسعت ظرفی مان لیجئے یا احساس کمتری …..
بہر حال مسلم اقلیتوں کے بڑے طبقے نےکبھی بھی الگ خیمہ زن ہونے کی پالیسی نہیں اپنا ئی ،بلکہ سبھوں کے ساتھ جینے اور چلنے میں ملک وقوم کی بھلائی کا ہمیشہ خیال کیا ،اسی لئے مسلمانوں نے مسٹرجناح کو ٹھکرا کرموہن داس کرم چند کو گاندھی بنا نے میں اپنی مثالی سیکولر ذہنیت کا ثبوت پیش کیا ،مگر یہ بھی المیہ رہا کہ انہوں نے اپنوں کو ٹھکرا کر جس پر بھی بھروسہ کیا ،اس نے ہی مسلمانوں کو ووٹ بینک سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی اور اب تو سیاسی صورت حال یہ ہے کہ مسلمان ووٹ بینک کے بھی قابل نہیں رہے ،مگر یہ نظریہ پائدار نہیں ہے ،اس لئے کہ آج بھی ملک میں اکثریت سنجیدہ ذہن افراد کی ہے چاہے برسر اقتدار پارٹی تشدد پسند ہی کیوں نہ ہو ۔چوں کہ:
اونچے اونچے درباروں سے کیالینا
ننگے بھوکے بیچاروں سے کیا لینا
ساتھ ہمارے کئی سنہری صدیاں ہیں
ہمیں سنیچر اتواروں سے کیا لینا
پاؤں پساروساری دھرتی اپنی ہے
یہاں اجازت مکاروں سے کیا لینا
اپنا مالک اپنا خالق افضل ہے
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا
بہار میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں اگر دیکھیں تو اس ماحول میں بھی دیگر پارٹیاں مسلم ووٹرز پر ہی نگاہ رجمائے ہوئے ہیں ،برسر اقتدا این ڈی اے میں جے ڈی یو کا جھکاؤ بھی مسلم ووٹوں کی طرف شروع سے رہا ہے اور آج بھی ہے ،کا م اور سنجیدہ مزاجی کی وجہ سےاس کا سیدھا فائدہ بھی ماضی قریب کے الیکشنوں میں اسے ملتا رہا ہے ۔ مہا گٹھ بندھن میں چاہے آرجے ڈی ہویا کانگریس، ان سب کا تو وجود ہی مسلم ووٹوں سے رہا ہے ،اسی لئےجب جب انہوں نے چالاکی کی یا پیٹھ دیکھانے کی پالیسی اپنائی ،مسلم ووٹروں نے انگوٹھا دیکھانے کا ایسا کام کیا کہ جس کی وجہ سے وہ اقتدار سے دور ہوتی چلی گئیں ،چنانچہ کانگریس نے سدا احسان جتلا کرمسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا تو راجد نے خوف دیکھا کر مسلمانوں کا ووٹ لیا ۔
سنا ہے کہ ایک تیسرا محاذ سامنے آنے والا ہے جس میں بطور خاص ،جن ادھیکار پارٹی اور ایم آئی ایم وغیرہ کی شمولیت ہورہی ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ تیسرے محاذ کی ضرورت ہے اور یہ تیسرا محاذ بھی اگر مسلمانوں کو ہی ٹک ٹکی نگاہ سے دیکھ تا رہا اور اس کی طرف سے دلت ووٹروں پر محنت کرکے اسے زیادہ زیادہ قریب لانے کی کوشش نہیں کی گئی تو سارا گر گوبر ہوجائے گا اورمسلم ووٹروں کے انتشار کی وجہ سے اس کا سیدھا فائدہ این ڈی اے کو مل جائگا اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں جن ادھیکار پارٹی کے سپریمو پپو یادو نے زمینی محنت ضرور کی ہے اور وہ ہر محاذ پر نظر آتے رہے ہیں ،اس کا بھی فائدہ اس بار ان کو ملے گا مگر یہ تب ممکن ہے جب دلتوں سے ووٹ حاصل کرنے میں دیکھنا ہے کہ وہ کتنے کامیاب ہوتے ہیں ؟
رہی بات ایم آئی ایم کی تو اس ملک میں ہر پارٹی کو الیکشن لڑنے کا حق ہے ،ملک کے دستور کے مطابق پارٹی چھوٹی ہو یا بڑی وہ جہاں اور جتنی سیٹوں پر چاہے الیکشن لڑے ،یہ اس کا دستوری حق ہے ،اس حوالے سے ایم آئی ایم کے سلسلے میں الیکشن لڑنے نہ لڑنے کے مدعے پر کچھ بولنا غیر مناسب ہوگا ،مگر جہاں تک ایم آئی ایم کی سیاسی پالیسی یا فکری برتری کا سوال ہے تو اس میں تقریبا ہر پارٹی برابر کی شریک ہے ،مذہبی تفریق ،جذباتی نعرے بازی اور ذات پات کی سیاست کے حمام میں سبھی ننگی ہوچکی ہیں ،کسی میں بھی سیکولر یت کی لاج لحاذ باقی نہیں رہی ،اگر کوئی پارٹی سیکولر کا ماسک لگائے ہوئی ہے تو وہ صرف ووٹ کے لئے ،الیکشن ہوتے ہی موقع پاکر اس کا مکھوٹا اترجاتا ہے ،اس کی زندہ مثال دہلی میں عام آدمی پارٹی کا مکھیا اروند کیجریوال ہے ۔
البتہ ایم آئی ایم کو اس بات پر زور دینا ہوگا کہ جیسا کہ اس نے شروع دن سےدلت مسلم اتحاد کا یقین دلایا ہے ،اپنے اس عہد پر قائم رہتے ہوئے ہوشمند دلت امیدیوار بھی کھڑا کرے اور اس کے لئے دلتوں پر زبردست محنت کرے ،جس حلقے میں اس کے امیدوار نہیں ہوں گے اپنے اتحادی پارٹی کے لئے محنت کرے ۔اپنے ورکز پر بھی قابو رکھے اور دلت ورکز کو بھی جوڑ کرچلے، عام طور پرلو گوں کے جو مقا می
مدعے ہیں اس کو ذہن میں رکھ کر سنجیدہ لب و لہجے میں اس کو حل کرنے کی یقین دہانی ہو اور مسلمانوں کے درمیان آپس میں مسٹر اور ملا کی تفریق سے ہر حال میں گریز کیا جائے ،اس لئے کہ یہ بھی ایم آئی ایم کے لئے ایک بہت بڑا فیکٹر ہے ،اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ڈراور خوف کی سیاست سے باہر آئیں ،ہمت وحوصلہ کے ساتھ سیاست میں اپنی مضبوط حصے داری کو یقینی بنائیں اور رحم وکرم کی بھیک مانگنے کےبجائے اپنے اتحاد اور قائد پر بھروسہ کرتے ہوئے خاموش حکمت عملی کو موجودہ سیاست میں جگہ دیں ۔
…………………………………………..
معہد عائشہ الصدیقہ کھاتوپور رحمانی نگر بیگوسرائے

Comments are closed.