اقتدار اعلی پر اقلیتوں کا تسلط

…………………………………………..
محمدخالد حسین نیموی قاسمی
مفتی مدرسہ بدرالاسلا م بیگوسرائے

یہ امر بہت سے لوگوں کے لیے باعث تعجب ہے کہ انتہائی معمولی تعداد رکھنے والے یہودی عالمی پیمانے پر بہت سے معاملات پر حاوی دخیل اور مؤثر کیسے ہوگئے. لیکن یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے. اکثر و بیشتر نظام سلطنت پر اقلیتوں کا ہی قبضہ رہا ہے. اور زیادہ تر مقامات پر آج بھی ہے،اقلیتوں کے سامنے اپنے وجود کو بچانے اور اپنے تشخص کے تحفظ کا چیلنج ہوتا ہے، لہذا وہ اپنے اندر اعلی قابلیت اور مضبوط استعداد پیدا کرتے ہیں ، جہد مسلسل اور زبردست پلاننگ کے ذریعے وہ مملکت کے لیے ایک ضرورت بن جاتے ہیں ،برخلاف اکثریتی طبقہ کے،وہ تو اپنی عددی برتری پر بےجا تفاخر میں مبتلا ہو کر کاہلی وسست روی کے شکار ہوجاتے ہیں، ایسا ہندوستان میں بھی ہوا ہے. مسلم سلطنت کی آٹھ سو سالہ تاریخ اس کے لیے شاہد عدل ہے، برہمن ودیگر نام نہاد اعلی طبقات اس ملک کی کل آبادی کے محض پندرہ فیصد ہیں لیکن ہزاروں سال سے پچاسی فیصد مول نواسیوں پر حکومت کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں….. کثیر مسلم آبادی والے ممالک ملیشیا اور انڈونیشیا میں غیر مقیم تمل ودیگر ہندو حکومت میں دخیل اور مؤثر ہیں. متعدد عرب ممالک کی یہی صورت حال ہے….اقلیتی طبقات اپنے وجود کو تسلیم کر انے کے لیے دیگر اکثریتی طبقات کے مقابلے کئی گنا زیادہ محنت کرتے ہیں اور بالآخر وہ اپنی صلاحیتوں اورشاندار منصوبہ بندی سے غالب آجاتے ہیں..اس میں صرف انڈین مسلمانوں کا استثناء کیا جاسکتا ہے کہ وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود متعدد اسباب کی بنیاد پر ان کی بڑی تعداد غفلت کے دبیز چادر تلے محو خواب ہے …. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے. کم من فءۃ قلیلۃ غلبت فءۃ کثیرۃ باذن اللہ .. کتنی ہی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعت پر غالب آچکی ہیں اللہ کے حکم سے ایسا ماضی میں بھی ہوا ہے. حال میں بھی ہورہا ہے اور مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا. یہ دنیا دارالعمل ہے جو عمل پیہم کرے گا انعام پائے گااور جو بے عملی یا بد عملی میں مبتلا ہو گا سزا پائے گا.. من یعمل سوء یجز بہ الخ محض آرزوئیں پالنے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے.
…………………………………………..
صدر جمعیہ علماء ہند بیگوسرائے

Comments are closed.