دنیا ڈر رہی ہے ظالم سے،ظالم ڈر رہا ہے مظلوم سے ! تحریر:حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور

دنیا ڈر رہی ہے ظالم سے،ظالم ڈر رہا ہے مظلوم سے !
تحریر:حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور
سچ اور جھوٹ،حق اور باطل کی لڑائی ہمیشہ سے چلی آرہی ہے اور صبح قیامت تک جاری رہے گی، سچ بولنے والوں، حق پر چلنے والوں کو ہمیشہ مصائب و آلام سے گزر نا پڑا ہے۔ ظالم کتنا ہی بڑا اور قوت کا مالک کیوں نہ ہو لیکن وہ ہمیشہ سچ اور حق پر چلنے والے جس پر وہ ظلم کے پہاڑ توڑتا ہے اس سے خوف زدہ رہتا ہے،تبھی تو وہ چا ہتا ہے اس کی(یعنی مظلوم) کی آواز بند کردے، اس کو ختم کر دے وغیرہ وغیرہ، طاقت کے گھمنڈ وغرور میں وہ ظلم کا بازار گرم کرتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے وہ طاقتور تو ضرور ہے ’’ *خدا نہیں*؟‘‘ دنیا کا نظام چلانے والا خدائے بزرگ وبرتر ظالموں کی پکڑ کی قوت بھی رکھتا ہے ۔
قر آن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ:
بیشک ظالم لوگ نجات نہیں پائیں گے۔
( القر آن،سورہ انعام،6: آیت136)
رب تبارک و تعالیٰ نے بڑے بڑے ظا لموں کی پکڑ فر مائی، دنیا سے نیست ونابود کر دیا،فر عون سے بڑا ظالم کون تھا ؟جس کے ظلم کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔جس نے اپنی طاقت کے زعم (غرور) میں اعلان کر دیا مجھے خدا مانو (معاذ اللہ) لیکن اللہ کے سچے بندوں پر اس کے اعلان کا کچھ بھی اثر نہیں ہوا اور وہ اپنے حقیقی پرور دگار کی عبادت کرتے رہے،ظالم و جابر بادشاہ ان سچے خداپرست لو گوں کو مٹانے کی کوشش کرتا رہا۔آخر کار اللہ کی مدد مظلوموں پر آئی اور اس ظالم کو نا کامی کا منھ دیکھنا پڑا اور ذلت کی موت آئی اللہ تعالیٰ نے اس ظالم سے مظلوموں کو نجات دلائی اور پوری قوم پر ذلت کا عذاب مسلط فر مایا، اور موسیٰ علیہ السلام سے فر مایا۔
ترجمہ:(اے موسیٰ!اب) اس نافر مان قوم( کے عبرت ناک حال) پر افسوس نہ کر نا۔(قر آنی مفہوم،(سورہ انعام،5: آیت27)
یاد رہے مظلوموں پر توسبھی افسوس کرتے ہیں لیکن ظالموں پر افسوس نہ کرنے کا حکم تو خود رب تبارک وتعالیٰ دے رہا ہے۔ظلم کی داستانیں تاریخ میں رقم ہیں اور ہورہی ہیں انھیں پڑھیں اور اپنی زندگی میں اپنی ماتھے کی آنکھوں سے دیکھیں اور سنیں آج بھی سینکڑوں ذرائع ہیں جن سے آپ کو مظلوموں کی فریادیں، آہیں سنائی پڑیں گی اگر ایمان سلامت ہے،ضمیر زندہ ہے! تو۔ مظلوموں کی پکار پر حتی ا لامکان مدد کی کوشش کریں۔ ظالم حکمرا نوں اور ان کے حامیوں کے ساتھ رہنا ان کی تعریفیں کرنا ان کے قصیدے لکھنا تو دور کی بات نبی رحمت ﷺ نے ان کی طرف محبت بھری نظر سے دیکھنا بھی منع فر ما یا ہے: اپنی آنکھوں کو ظالموں کے مدد گار سے نہ بھرو(یعنی ان کی طرف نہ دیکھو) مگر اس حال میں کہ تمھارے دل ان کا انکار کررہے ہوں، ورنہ تمھارے نیک اعمال ضائع کر دیئے جائیں گے۔ اسی طرح امام ذہبی نے’’کتاب ا لکبائر‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’ایک درزی حضرت سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میں باد شاہ کے کپڑے سیتا ہوں،
کیا میں بھی ظالموں کے مدد گار میں شامل ہوں؟ حضرت سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ نے فر مایا کہ تو خود ظالموں میں سے ہے-
ظالموں کے مدد گار تو وہ ہیں جو تجھے سوئی اور دھا گا بیچتے ہیں۔‘‘
آج تو ظالموں کو ایوارڈ دیئے جا رہے ہیں،اس کا مطلب ہے ظالم کے سارے کا موں کوسراہنا ہے آج کے اس سماج میں بہت بڑا المیہ ہے۔طاقت ایسا نشہ ہے کہ اس میں حق وبا طل،سچ اور جھوٹ کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے ،حاکم وقت پر صرف اپنی حکمرانی کا نشہ سوار رہتا ہے حکمرانی کسی کی ہمیشہ نہیں رہی نہ رہے گی،رب تبارک وتعالیٰ احکم الحاکمین ہے،سب کا حاکم ہے اس سے ڈرنا چائیے۔ظالم حکمرا نوں سے بچنے کے لیے کثرت سے توبہ استغفار کر نے کا حکم آیا ہے، عبادت میں کو تاہی نہیں کر نا ہے،اللہ کی مدد ضرور آئے گی،حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ظا لموں سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تجھے ظالم باد شاہ کے ساتھ ابتلاء واقع ہو جائے اور اس کے سبب تیرے دین میں نقصان پیدا ہو جائے تو اس نقصان کاکثرتِ استغفار کے ساتھ تدارک کر اپنے لیے اور اس ظالم باد شاہ کے لیے۔(تنبیہ المفترین،الباب اول،صبر ہم علی جوار الحکام،ص:42) معلوم ہوا ظالم حکمرانوں کو برا کہنے کے بجائے ہم اللہ تعالیٰ کے فرما ںبر دار بندے بن جائیں، اس کی بار گاہ میں سچی اورپکی توبہ کریں۔اس کے دربار میں سر بسجود ہو جائیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جائیں۔
*بلا تفریق مذہب وملت مظلوموں کی مدد کریں*:
ضرورت مند مظلو م کی مدد کرنا اسلامی تعلیم کا بنیادی حصہ ہے۔ نبی رحمت ﷺ کا فر مان عالیشان ہے:’’ کہ حاجت مندوں کی مدد کے لیے میں مدینہ کے دوسرے،سرے تک جانے کو تیار ہوں۔ ‘‘ایک اور حدیث پاک میں ہے: کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مدد گار چھوڑ تا ہے۔آج کمزوروں پر ظلم کرنا عام بات ہو گئی ہے آئے دن اخباروں و دیگر ذرائع سے خبریں آتی ہیں کی فلاں مقام پر طاقتور لوگوں نے کمزوروں پر ظلم کیا ان کا حق چھین لیا وغیرہ وغیرہ،حال اتنا خراب ہو گیا ہے کہ ان مظلوموں کی مدد کرنے کے بجائے لوگ اس پر خوش اور مطمئن ہیں،بے حیائی کی انتہا ہے کہ آج مسلمانوں کا بڑا طبقہ ان ظالموں کا ہم نوا اور حامی بناہواہے اور ان کے ظلم اور نا انصافیوں میں ان کی مدد کر رہاہے ، ان کی جے،جے کار کے ساتھ انھیں بڑے،بڑے انعامات واعزازات سے نواز رہا ہے۔ مظلوموں کی داد رسی کے بجائے، ان پر نمک مرچ چھڑک رہے ہیں یاد رہے اعلان خداوندی ہے ظالم کے ساتھ ظلم ہونے پر چپی سادھنے والوں پر بھی اللہ کا عذاب آئے گا۔
(القرآن،سورہ انفال،8آیت25) تر جمہ: اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف ان لوگوںکوی پہنچے گا جو تم میں ظالم ہیں( بلکہ اس ظلم کا ساتھ دینے والے اور اس پر خاموش رہنے والے بھی انہیں میں شمار کئے جائیں گے)،اور جان لو کہ اللہ عذاب میں سختی فر مانے والاہے۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا جوقوم قد رت کے باوجود برائیوں اور ظلم کر نے والوں کو منع کر نا چھوڑ دیتی ہے تو وہ بھی تر ک فرض کی شا مت میں مبتلا ئے عذاب ہوتی ہے۔بہت سی احادیث اس ضمن میں موجود ہیں، ایک حدیث مطالعہ فر مائیںحضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت، تاجدار رسالت ﷺ نے ارشا دفر مایا:’’خدا کی قسم! تم ضرور نیکی کی دعوت دیتے رہنا اور برائی سے منع کرتے رہنا اور تم ضرور’’ظلم‘‘ کرنے والے ہا تھوں کو پکڑ لینا اور اسے ضرور حق پر عمل کے لیے مجبور کر نا ور نہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل بھی ایک جیسے کر دے گا پھر تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر لعنت کی گئی۔( ابو دائود، کتاب لملاحم، باب الامر و النھی، ج4/ ص163، حدیث:4336-4337)۔
*آزاد زندگی کزار نے کا حق سب کو ہے*:
پر ور دگار عالم نے ہر مخلوق کو آزاد زندگی گزار نے کا حق دیا ہے، طاقت کے زعم میں اگر کوئی دوسرے کی آزادی، اس کا علاقہ، اس کی ملکیت کو چھینتا ہے تو وہ بہت بڑا ظالم اور گناہ گار ہے۔ قر آن مجید میں چھ6معذب قوموں ، قوم ثمود، قوم ہود، قوم لوط، قوم نوح،قوم یونس، قوم مو سیٰ، وغیرہ کے علاوہ اور بہت سی قوموں کا ذکر موجود ہے،عبرت حاصل کر نے کے لیے انکا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ دنیا کے بڑے ،بڑے ظالم و جابر باد شاہوں کے غرور ،تکبر،گھمنڈ کو اللہ نے خاک میں ملا دیا رب ذوالجلال والاکرام سار ے باد شاہوں کا بادشاہ ہے اور اس کی پکڑ ہر شئے پر محیط(گھیرے ہوئے، مضبوط) ہے کسی کا حق چھیننا تو دور کی بات ہے سوچنا بھی اللہ رب العزت کو پسند نہیں۔ انبیاء کرام معصوم عن الخطاء ہیں ان کی طرف کسی خطا کا اشارہ کر نا بھی گناہ عظیم ہے۔ قرآن کریم میں ہے،دائود علیہ ا لسلام کے پاس ایک عبرت ناک سبق آموز مقد مہ آیا، اور حضرت دائود علیہ ا لسلام کی نیت پر اللہ رب ا لعزت نے اصلاح فر مائی کہ خود حضرت دائود علیہ السلام سے ہی فیصلہ کر وایا۔دلچسپ اور حکمت سے بھرے ہوئے واقعہ کو قرآن پاک کی روشنی میں سمجھیں اور عبرت پکڑیں!۔
(القر آن، سورہ ص38: آیت24)تر جمہ: دائود نے فر مایا بیشک یہ تجھ پر زیادتی کر تا ہے کہ تیری دنبی اپنی دنبیوں میں ملانے کو مانگتا ہے، اور بے شک اکثر ساجھے والے ایک دوسرے پر زیادتی کر تے ہیں مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور وہ بہت تھوڑے ہیں۔ اب دائود سمجھا کہ ہم نے یہ اس کی جانچ کی تھی تو اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑا اور رجوع لایا۔( سجدہ نمبر10)( کنزا لایمان)
حضرت دائود علیہ السلام نے دعویٰ سن کر دوسرے فریق سے پوچھا تو اس نے اعتراف کرلیا، آپ علیہ ا لسلام نے دعویٰ کرنے والے سے فر مایاکہ: ’’ بیشک تیری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا سوال کرکے اس نے تجھ پر زیادتی کی ہے اور بیشک اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر ایمان والے اور اچھے کام کر نے والے کسی پر زیادتی نہیں کرتے لیکن وہ ہیں بہت تھوڑے۔ دائود علیہ السلام کی یہ گفتگو سن کر فرشتوں میں سے ایک نے دوسرے کی طرف دیکھا اور تبسم کر کے وہ آسمان کی طرف روانہ ہو گئے۔اب حضرت دائود علیہ ا لسلام سمجھ گئے کہ اللہ نے تو صرف انہیں آزمایا اور دنبی ایک کنایہ (اشاروں میں بات کرنا،اشاروں میں سمجھانا) اشارہ تھا جس سے مراد عورت تھی کیونکہ نناوے(99) عورتیں( بیویاں) آپ علیہ السلام کے پاس ہوتے ہوئے ایک اور عورت کی آپ علیہ ا لسلام نے خواہش کی تھی اس لیے’’دنبی‘‘ کے پیرائے میں سوال کیا گیا تھا، جب آپ نے یہ سمجھا تو آپ نے رب کریم سے معافی مانگی اور سجدے میں گر پڑے اور اللہ تعا لیٰ کی طرف رجوع کیا۔
*نوٹ*: یاد رہے کہ یہ آیت ان آیات میں ہے جن کے پڑھنے اور سننے والوں پر سجدہ تلاوت واجب ہو جاتا ہے۔
*اصلاح کرنے کاطریقہ*:
اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں وحی کے ذریعے سے اپنے پیارے نبی دائود علیہ السلام کی تر بیت فر مانے کے بجائے جو خاص طریقہ اختیار فر مایا اس میں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کر نے والے کے لیے بھی ہدایت موجودہے جب وہ کسی کی اصلاح کرے تو حکمت سے ایسا طریقہ اختیار کرے جس ے سامنے والے کی دل آزاری بھی نہ ہو اور وہ اپنی غلطی خود ہی محسوس کرلے، اشارہ، کنایہ مثال دے کر سمجھانے کا طریقہ بہت اثر کر تا ہے اس سے سامنے والے کی دل آزاری بھی نہیں ہوتی اور مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کی تر بیت بھی فر مادیتا ہے اور وہ بھی عاجزی اور انکساری کرتے ہیں۔
*کسی کی آزادی نہ چھینیں*:
کوئی طاقتور کمزور کوآزادی سے محروم نہیں کر سکتا،حدیث پاک میں ہے’’ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے دوست اور سب سے زیادہ اس کے مقرب وہ باد شاہ ہوں گے جو عادل (انصاف کر نے والے) ہوں اور سب سے زیادہ دشمن اور سب سے زیادہ عذاب میں وہ ہوں گے جو حکمراں ظالم ہوں‘‘(بخاری،مسلم،احمد ،نسائی،) حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے ساری دنیا پر انسانوں،جنوں،اور پرندوں وغیرہ وغیرہ پر حکومت بخشی،آپ کاعدل و انصاف کمزوروں پر بھی عام تھا قر آن کریم سورہ نمل میں اس کا ذکر صراحت سے موجود ہے۔ایک بار آپ اپنے لشکر کے ساتھ چیونٹیوں کی وادی(گھاٹی،درہ ،کوہ، نیچی زمین) سے گزر رہے تھے چیونٹیوں کی سردار جس کا نام ’’منذرہ تاخیہ‘‘ تھا نے چیو نٹیوں کو حکم دیا کی اپنے بلوں میں گھس جائو،ایسا نہ ہو کہ سلیمان علیہ ا لسلام کا لشکر تم کو دیکھ نہ پائے اور تم سب ان کے پیروں تلے رونددیئے جائو،سلیمان علیہ السلام نے چیو نٹیوں کی سردار کی بات سن لی اور لشکر کو حکم دیا کہ چیونٹیوں پر ظلم نہ ہو اس لیے لشکر کوٹھہرا دیا،معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام کی حکومت میں سب سے کمزور مخلوق کوبھی آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق حاصل تھا۔
؎ *مظلوم کے دل کا نالہ تاثیر میں ڈوبا ہوتا ہے* ٭ *ظالم کو کوئی جاکر دے خبر انجام ستم کیا ہوتا ہے*
*جب ظلم گزر تاہے حد سے قدرت کو جلال آتاہے* ٭ *فرعون کا جب سر اُٹھتاہے موسیٰ کوئی پیدا ہوتا ہے*
اللہ ہم سب کو ظلم کرنے سے بچائے اور مظلوموں کی مدد کی بھی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین-رابطہ،09279996221, [email protected]
Comments are closed.