بہار الیکشن اور دور اندیشی

 

تحریر: محمد وجہ القمر
مدھوبنی بیوروچیف بصیرت آن لائن

‘ پانچ سال بے مثال’ کا نعرہ موجودہ حکومت کے ذریعہ دیا جانے لگا اور مختلف الجہت کارناموں کی فہرست عوام کے سامنے پیش کی جانے لگی, ساتھ ہی ہر پارٹی اپنی چھوٹی اور بڑی کارکردگیوں کے ذکر سے نہیں چوک رہی بلکہ اپنے کچھ منجھے ہوئے اور کچھ نئے چہرے کے ذریعہ عوامی مزاج کو بھانپتے ہوئے اپنی کامیابی کا منصوبہ تیار کر رہی ہے۔دوسری طرف ہر سطح پر پسماندہ مسلم قوم پھر کشمکش کا شکار ہے کیوں کہ کچھ ایئر کنڈیشنز میں دن کاٹ رہے چہرے مسلم رہنما کی صورت میں ہر پارٹی سے ووٹ کے بکھراؤ کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور وہ نام نہاد چہرے قوموں کے زوال کا ٹھیکہ لئے رہنمائی کا ڈھونگ کرتے ہوئے مسلم ووٹ شئیرنگ کو بے وقعت کرکے اپنے حصے کی روٹی سینکیں گے اور پھر پانچ سال تک غنودگی کے عالم میں گزار دیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلم قوم کی بڑی آبادی کی آواز اٹھانے میں نقاہت اور کمتری محسوس کریں گے نیز ‘پارٹی کے دائرہ کار’ کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے سوالوں کو بالائے طاق رکھ دیں گے۔ 2015 کے بہار اسمبلی کے الیکشن میں جس طاقت کو روکنے کی ناکام کوشش ہوئی تھی اسی کے ساتھ مل کر بہار میں حکومت چل رہی ہے, پھر لوک سبھا میں تمام سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں سے اس طرح منہ پھیرا کہ ٹکٹ کے بٹوارے میں اور پھر الیکشن تک اسے سمجھنا سمجھانا نہایت آسان ہے شرط ہے کہ دانش مندی کا مظاہرہ ہو۔ ان تمام کے بعد پے در پے مرکزی حکومت کے کارنامے اور سپریم کورٹ کی مہر تمام پسماندہ طبقے خاص کر مسلم اقلیت کو بے چین کردینے والے تھے اور اسی بے چینی کا مظاہرہ مختلف اوقات میں احتجاجوں کے ذریعہ ظاہر ہوا۔ این آر سی, سی اے اے ہو یا دہلی فسادات, بابری مسجد کے فیصلے ہوں یا ہجومی تشدد, کرونا مہاماری ہو یا کسانوں اور نوجوانوں کی بے روزگاری, ہر سطح پر مایوسی ملی ہے۔ مسلم اقلیت اور دلت طبقہ کی زندگی کو پھر سے رونق افروز بنانے کے لئے صرف اور صرف موجودہ حالات میں اسدالدین اویسی کا چہرہ ہی نظر آتا ہے جس طرح نوے کی دہائی میں پچھڑوں کی آواز بن کر لالو یادو آئے تھے۔
بہار الیکشن میں مسلم ووٹ کی حصہ داری کافی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے شرط یہ ہے کہ سلیقہ سے گرایا جائے۔ رام ولاس پاسوان اپنے پاسوان سماج کے ووٹ کے دم پر لوک سبھا اور ودھان سبھا میں اپنی حاضری لگاتار دے سکتے ہیں, جیتن رام اپنے سماج کے دم پر نئی پارٹی بنا سکتے ہیں, رالوسپا جیسی پارٹی حکومت کا حصہ بن سکتی ہے تو اویسی ہمارے سیاسی رہنما کیوں نہیں ہو سکتے, اخترالایمان جیسا قائد جس نے مولانا اسرارالحق قاسمی کے لئے خود کو روک لیتا ہے وہ ہمارے سپہ سالار کیوں نہیں ہو سکتے؟ آخر ہم اے سی میں بیٹھنے والوں, پارلیمنٹ میں بےآواز رہنے والوں اور پارٹی گائیڈ لائن پر قوم کو بیچنے والوں پر کب تک بھروسہ کریں؟ بہار کا یہ اسمبلی الیکشن نہایت اہم اس معنوں میں ہے کہ مسلم رہنما کی حصہ داری ودھان سبھا سے لے کر لوک سبھا اور راجیہ سبھا تک چاہئے کیوں کہ تمام نام نہاد (جھوٹی) سیکولر پارٹیوں کے راز افشاں ہوچکے ہیں, باطل اپنی جمعیت مضبوط کرکے آگے بڑھ رہا ہے اور ہماری آنکھوں میں اب بھی دھول جھونک رہا ہے لہذا اس بار اگر ہم نے تذلذل کی کیفیت طاری رکھی اور دانشمندانہ و ہوش مندانہ قدم نہ اٹھائے تو یاد رکھئے کہ آپ برما جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ بہار میں کم از کم 50 سیٹ بآسانی اور یک جست نکال سکتے ہیں اور حکومت کا باوقار حصہ بن سکتے ہیں۔مگر کاش۔۔۔۔۔کہ ہوش کے دامن تھام لیں۔

Comments are closed.