بہار کا سیاسی منظرنامہ اور مسلمان:جائیں تو کدھر جائیں!

بختیار ثاقب قاسمی
چھتون دربھنگہ
بہار میں اسمبلی انتخابات 2020 کی تیاری زوروشور سے تو نہیں لیکن حکومتی سطح پر منصوبہ بند طریقے سے ضرور چل رہی ہے۔گذشتہ انتخابات کے بالمقابل اس دفعہ بہار کا الیکشن اس معنی کر بہت ہی الگ اور بے رنگ ہے کہ کورونا جیسی متعدی بیماری کے درمیان ہندوستان میں پہلا اسمبلی الیکشن ہونے جارہا ہے۔انتخابات کے موقع پر جہاں سیاسی پارٹیوں کی ضرورتیں اور چاہتیں ہوتی ہیں وہیں صوبے کے عوام کی بھی اپنی آرزوئیں اور ترجیہات ہوتی ہیں،لیکن بہار کے اس اسمبلی انتخاب میں حکمراں جماعت کو چھوڑ کر نہ عوام کی اسمیں دلچسپی ہے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں ایکٹیو پوزیشن میں نظر آرہی ہیں اور دونوں کی اپنی ہی مجبوریاں ہیں۔ صوبے کے عوام ؛ جن کے قیمتی ووٹوں کی بدولت حکومت بننی ہے،ان کے امیدوں اور امنگوں کی صورت حال یہ ہے کہ گذشتہ چھ مہینوں سے کوروناوبا،غیر منصوبہ بند لاک ڈاون،بے تحاشہ مہنگائ،بے موسم کی برسات،آندھی طوفان،اور سیلاب بلاخیز نے نہ صرف معاشی طور پر کمزور وناتواں کر رکھا ہے بلکہ انھیں اپنا مستقبل بھی بہت ہی دھندھلا اور موہوم نظرآرہارہاہے،جس کی بڑی وجہ ان کے وہ نوجوان ہیں جو عام دنوں میں شہروں اور پردیسوں میں نوکری اور روزگار کرکے اپنےاھل وعیال کے لیےروزی روٹی کا انتظام کرتے تھے،وہ گذشتہ چھ مہینوں سے اپنے گھروں میں مقید ہیں،وہ جائیں تو کہاں جائیں،انھیں ساری راہیں مسدود نظر آرہی ہیں۔ان کی صورت حال "نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن "کی ہے،وہ شہر جو انہیں روزگار فراہم کرتا تھا،وہ مسلسل کورونا سے نبردآزما ہےاور ان کا اپنا صوبہ بہار ؛جس پر انھیں ناز ہے،وہ روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت سے تا ہنوز محروم ہے۔لالو یادو کا پندرہ سالہ دور اقتدار جسے جنگل راج کا خطاب ملااور جس کی پاداش میں بہاریوں کو اپنی تمام تر صلاحیتوں اور جانفشانیوں کے باوجود انھیں اپنے ہی ملک میں تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہونا پڑا،نتیش کمار کی سربراہی والی حکومت سے لوگوں کی کافی امیدیں وابستہ ہوئیں اور بہار کے عوام نے کھلے دل کے ساتھ انہیں ایک دوٹرم نہیں بلکہ تاہنوزمکمل پندرہ سال انھیں بھی اقتدار کی کرسی پر بیٹھا کر رکھا ہے،لیکن کف افسوس کہ بہاری مزدوروں اور نوکری پیشوں کے پلاین میں کوئ کمی نہیں آئ،وجہ بالکل صاف ہے کہ صرف حکومت بدلی، حکومت کرنے کی پالیسیوں میں کچھ خاص تبدیلی اختیار نہیں کی گئ، اسے مزید واضح لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کرنے والے لوگ تو بدلے،لیکن حکومت کے ذریعے عوام کی حقیقی ضرورتوں اورحاجتوں کو پوری کرنے کی کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئ،البتہ نتیش کمار کے دور اقتدار میں پروپیگنڈہ اور اشتہار بازی کا خوب دور دورہ رہاہے،اسی کے بل بوتے وہ کم وبیش گذشتہ پندرہ سالوں سے حکومت کی کرسی پر براجمان ہیں،ورنہ صورت حال یہ ہے کہ سیلاب کی تباہی کی وجہ سے ہرسال لاکھوں ہیکڑ زمین کی فصلوں کا برباد ہونا اور ہزاروں مکانات کا تباہ ہوکر ندیوں میں سما جانا اور اس کے مکینوں کا سب کچھ بہہ جانا اور لٹ جانا جیسے پندرہ سال قبل تھا،وہی صورت حال آج بھی ہے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے والےکل کارخانوں کا فقدان جیسے کل تھا،ویسے آج بھی ہے،بلکہ جو کل کارنے،خواہ وہ چینی ملیں ہوں یا پیپر مل ہوں یاان جیسےدوسرے کارخانے جو کسی حد تک چالو یا نیم مردہ حالت میں تھے،وہ بالکلیہ معدوم ہوگئے،آج ان کل کارخانوں کی کوئ بات کرنے والانظر نہیں آتا،اسکول اور سڑک جس کا خوب ذکرکیا جاتا ہے،اس کی صورت حال یہ ہے آج بھی نہ صرف دوردراز علاقوں کی سڑکیں بلکہ شہروں کی اکثرسڑکیں بھی پانی کے جماؤڑوں کی وجہ سے خستہ صورت حال کا شکار ہیں اور رہی بات اسکولوں کی تو ان کی حالت اسکول کے اساتذہ سے پوچھئے،پڑھانے کے علاوہ سبھی غیر منظم سماجی اسکیموں کے کام ان کے سر ڈال منڈھ دیے جاتے ہیں۔اسکولوں میں بحالی کے نام پر نہ جانے کتنی ہی انواع واقسام کے اشتہارات شائع کیے جاتے رہتے ہیں اور امیدوار سیکڑوں سپنے سجائے پورےبہار کا چکر کاٹ رہتے ہیں اور حالات یہ ہیں کہ 2011ء اور 2013ء میں ٹی ای ٹی ،ایس ٹی ئ ٹی اور سی ٹی ئ ٹی میں کولیفائڈ ہونے والے امیدوارآج بھی در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجور ہیں،چہ جائیکہ 2020 تک ٹیچر ابیلیٹی ٹیسٹ کولیفائیڈ ہونے والے لاکھوں امیدواروں کی بات کی جائے۔بحالی کے تمام ترقواعد پورے کیے جانے کے باوجودآئے دن پٹنہ ہائ کورٹ میں پیٹشن ڈلوائ جاتی ہےاور لاکھوں امیدواروں کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جاتا ہے اورادھر نتیش کمار کی سوشل انجنئرنگ کا کمال یہ ہے کہ پرائمری اسکول کو مڈل اسکول،مڈل اسکول کو ہائی اسکول اور پلس ٹو بناکر پرائمری اسکول کے ٹیچر کو ہائ اسکول میں ترقی کی بنیاد پر نہیں،کیوں کہ اس شکل میں ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا ہوگا اس لیے ڈپٹیشن کی بنیاد انھیں ڈھکیلا جارہا ہے۔تاکہ نتیش کمار ببانگ دہل اعلان کر سکیں کہ ہم نے اپنے وعدے کے مطابق ہر پنچایت میں ایک انٹرمیڈیٹ اسکول کھول دیا ہے۔ان تلخ حقائق اور سچائیوں کے درمیان حکمراں جماعت اسمبلی انتخاب کو بروقت کرانا چاہتی ہے،اسے لگتا ہے کہ اس نے بہار کی ترقی کو بام عروج پر پہنچا رکھا ہے اور مزید برآں بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت جو ہرانتخاب میں خواہ وہ کسی بھی صوبے کسی بھی سطح کا ہواپنے آزمائےہوئےفامولے ”ہندو مسلم کارڈ” اور ہزاروں کروڑ نہیں بلکہ لاکھوں کروڑ کے دھواں دار اعلانات اور نت نئے منصوبوں کے افتتاح کے ذریعے پوری طرح سے اپنے حق میں فضا سازگار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔اس کے برخلاف حزب مخالف یعنی راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس اور دیگرچھوٹی چھوٹی پارٹیاں وہ ابھی اپنے حواس کودرست کرنے میں ہی لگی ہوئی ہیں،ان پارٹیوں کی پہلی ترجیح یہ ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر نہ ہو اور ان کی دلیل یہ ہے کہ بہارمیں کووڈ19کے بڑھتے اثرات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ اس متعدی مہلک مرض کے بڑھتے گراف کے درمیان اتنے بڑے پیمانے پر انتخاب منعقد ہو،اپوزیشن کی اس بات میں دم بھی ہے،لیکن اصل بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس الیکشن لڑنے کی فی الحال کوئ تیاری ہی نظر نہیں آرہی ہے۔اس کے باوجود لالو یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتادل کا رویہ اپنی ہم خیال پارٹیوں کے تعلق سے منصفانہ اور دوستانہ نہیں ہے اور شاید اسی بناء پر نہ ان کا اب تک الائنس کا اعلان ہوسکا ہے کہ کون کون پارٹیاں مہاگٹھبندھن میں شامل ہیں اور نہ ہی سیٹوں کی تقسیم پر تال میل ہوسکا ہے۔ان سب باتوں کے درمیان مسلمانوں کے ووٹ اور ان کے رجحان کی بات کی جائے تو اس دفعہ کی صورت حال گذشتہ انتخابات کے بالمقابل بالکل مختلف اور جداگانہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ اسدالدین اویسی کی مجلس پارٹی جسے اب دویندرپرساد یادو کی سربراہی والی پارٹی سماجوادی جنتا دل ڈیموکریٹک کے ساتھ اتحاد کے بعدیو ڈی ایس یعنی یونائٹیڈ ڈیموکریٹک سیکولر کے نام سے جانا جائے گا،پورے دم خم کے ساتھ میدان میں آنا ہے۔گذشتہ اسمبلی انتخاب 2015جس میں اویسی نے 35 سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اور چھ سیٹوں پر اپنے امیدواراتارے اور اس میں بھی کسی سیٹ پر کامیابی نہیں ملی،ان کے مخالفین کا اسےبار بار ذکر کرنا اس دفعہ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوسکے گا،اس کی وجہ صاف ہے کہ گذشہ انتخاب میں نتیش کمار کے کٹھبندھن میں آنے کے بعد سیکولر بنام کیمونل کی ایک فضا بنی اور پورا سیکولر ووٹ یکمشت عظیم اتحاد کے کھاتے میں چلا گیا،لیکن اس دفعہ کی صورت حال بہت مختلف ہے،نتیش کمار "مرجاؤں گا،مٹی میں مل جاؤں گا لیکن بی جے پی میں نہیں جاؤں گا "بغیر مرے مٹے بی جے پی کے ساتھ حکومت کرنے کا مزہ لے رہے ہیں اور سی اے اے اور این آرسی کے مدعے پر پارلیامنٹ اور پارلیامنٹ کے باہر کھلے دل کے ساتھ بی جے پی کی حمایت کرچکے ہیں ۔ رہی راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس تو اسے مسلمانوں کا ووٹ تو چاہیے لیکن مسلمانوں کی حصہ داری پر ان کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں،چائیکہ مسلم قیادت کو تسلیم کرے،یہی وجہ ہے کہ مجلس پارٹی کی تمام تر خواہشوں کے باوجود لالو کے بیٹوں نے اپنے اتحاد میں شامل نہیں کیا۔ لالو نے اپنے پندرہ سالہ دور اقتدار میں 14 فیصد ووٹ رکھنے والے یادوؤں کو صوبے کے تقریبا تمام شعبہ ہائے جات میں متمکن کردیااور 16 فیصد ووٹ رکھنے والے مسلمانوں کے لیے جھوٹی ہمدردی اور جان ومال کے تحفظ کے پروپینڈے کےسوا کچھ بھی نہیں دیا۔ایسے میں بالخصوص وہ نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ جو اویسی کی اسپیچ اور ان کے ذریعے پارلیامنٹ میں اٹھائے جانے والوں مدعوں سے اپنے آپ کو کنکٹ اورجڑاؤ محسوس کرتا ہے،وہ کہیں نہ کہیں اویسی کی طرف امید کی نظر سے دیکھتا ہے،اور یہی امید ووٹوں میں تبدیلی کا مظہر ہوسکتی ہے۔کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں جو سیکولرزم کو بچانے کی دہائ دیتی ہیں اور مسلمان بھی اس جھانسے میں آتے رہے ہیں،اسے بھی احساس ہوچلا ہے کہ سیکولرزم کو بچانے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں پر ہی کیوں؟(بصیرت فیچر)
Comments are closed.