کسانوں کے بہانے اجارہ داری کا نظام محمد صابر حسین ندوی

کسانوں کے بہانے اجارہ داری کا نظام
محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
موجودہ سرکار اپنے آپ کو تمام قوانین و ضوابط سے برتر مانتی ہے، وہ جمہوریت کی نمائندگی کرنے کے باوجود ڈکٹیٹر شپ میں یقین رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کہیں بھی خود کو ذمہ دار نہیں مانتی، جہاں کہیں بھی عوام کی بات آئے، ان پر مصائب اور مصالح کی بحث ہو وہاں گورنمنٹ خود کو الگ کر لیتی ہے، وہ یا تو سنہرے وعدے اور اعلان سے کام چلاتی ہے یا پھر جھوٹی تسلی، بہانہ بازی کو اپنا پشت بنا لیتی ہے، چنانچہ اس کے پاس کوئی ڈاٹا نہیں رہتا، این آر سی، سی اے اے اور این پی آر وغیرہ کے ذریعہ پورے ملک کی معلومات جمع کرنے اور محب وطن و غدار وطن کا فیصلہ کرنے والے اتنا نہیں جانتے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مزدوروں کی ہجرت میں کتنے افراد مارے گئے، کون نہیں جانتا کہ جلد بازی میں صرف چار گھنٹے کی نوٹس پر لاک ڈاؤن لگا کر سرکار نے کیسا قہر بپا کیا تھا، شہروں سے مہاجر مزدوروں نے ہجرت کرنے میں ہی عافیت سمجھی، ان دنوں رپورٹنگ کرتے ہوئے متعدد رپورٹرس نے موتوں کی تعداد بتائی جو بنا کسی غلطی کے ہی جان گنوا بیٹھے تھے، تو وہیں ڈاکٹروں کو بھگوان ماننے والے اور کرونا وائرس میں سردست محافظ کہہ کر ان پر پھولوں کی بارش کروانے والے بتا ہی نہیں پا رہے ہیں؛ کہ کتنے ڈاکٹروں نے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے جان دی ہے، غرض یہ کہ سرکار شتر بے مہار ہے، وہ محض اپنے امیر دوستوں کے سامنے جواب دہ ہے، ملک کی جائدادیں بیچ کر پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے اور انہیں ملک کا سرغنہ بنا دینے کے کگار پر ہے، بلاشبہ یہ حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی خطرناک کام کر رہی ہے، اس کے مقاصد بہت بھیانک ہیں، یہ کسی کے حق میں نہیں سوائے جو امیر ہیں، براہمن واد ہیں۔
ذرا اندازہ کیجیے! فی الوقت ودھان سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائیوں کا کوئی فائدہ نہیں، سوال کرنے کی اجازت ویسے بھی ختم کردی گئی ہے، بغیر کسی مشورہ کے وہی منصوبہ پاس کئے جاتے ہیں، جن سے صرف ہندوازم کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے؛ حتی کہ اس نے کسانوں کو بھی لات ماردی ہے، جو دیش کی جان ہے، جن سے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے جنہیں اکانومی میں ریڑھ ہڈی سمجھا جاتا ہے، خود لاک ڈاؤن میں اناج کے سوا کوئی اور ضرورت نہیں رہ گئی تھی، انہیں بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ امیروں کی جھولی میں اپنا اناج پہنچائیں، اپنی محنت اور خون پسینے سے اگائی فصل کو اونے پونے دام میں بیچ دیں، آزادی ہند کے بعد یہ بڑا سوال تھا کہ کیسے کسانوں کو خود کفیل بنایا جائے، انہیں ان کی واجب محنتانہ دلائی جائے؛ کیونکہ بھارت میں زمینداری تھی، بنیاگری کا راج تھا، گاؤں اور قصبوں میں کسانوں کو روک کر سارا غلہ خرید لیا جاتا تھا، بسااوقات کھیت میں لگی فصل ہی برائے نام قیمت پر فروخت کردی جاتی تھی، عوام اناج لگاکر بھی کچھ خاص کمائی نہ کرپاتی تھی، ایسے میں کم سے کم آمدنی کی ضمانت دی گئی، زمین دوراں کا زور توڑا گیا، ان کیلئے خاص مارکیٹ بنائے گئے جہاں وے اپنا اناج بیچ سکیں، اپنی مرضی کا سودا کرسکیں، مناسب لگان پاسکیں، صحیح معنوں میں یہ ایک بڑا فیصلہ تھا، ایک انقلاب تھا، جس نے بہت حد تک کسانوں کو سہارا دیا، انہیں کھیتی کھلیان کے کاموں میں دلچسپی کا سامان فراہم کیا، جس نے آگے چل کر سبز انقلاب کی صورت پائی، مگر آج گورنمنٹ نے اس انقلاب کو ہی کچل دیا، راجیہ سبھا نے وہ منصوبہ پاس کردیا جس کے مطابق کسان اپنا اناج کہیں بھی بیچ سکتے ہیں، اگرچہ یہ سننے کہنے میں بہت دلچسپ ہے، اس سے کسانوں کی آزادی محسوس ہوتی ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے ذریعے ثالثی کرنے والے اور ملک کے امیر حوصلہ پائیں گے، انہیں مارکیٹ میں جانے سے پہلے اناج بیچنے پر مجبور کریں گے، ان کے فصل کی قیمت گرادیں گے، کسانوں میں تقابلی مزاج پیدا کر کے ان کا استحصال کریں گے، کم سے قیمت بھی نصیب نہ ہوگی۔
ویسے بھی کسان سب سے زیادہ خودکشی کرتے ہیں، اس کے بعد اس شرح میں مزید اضافہ ہوگا، ممکن ہے کہ چند اجارہ دار پورے نظام. پر قابض ہوجائیں گے، سرکار پھر غلہ کو ترسے گی، راشن کی تقسیم نہ ہونے پر غرباء کی حالت خستہ ہوگی، پھر راشن بھی کسی امبانی و اڈانی سے لینا پڑے گا، منہ مانگی قیمت دینی پڑے گی، ایک طرف سرکار لاچار ہوتی جائے گی تو دوسری طرف عوام غریبی و فقیری کے دلدل میں دھنستی جائے گی؛ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں کسانوں نے علم احتجاج بلند کر رکھا ہے، ہریانہ اور پنجاب کی سڑکیں اٹ دی گئی ہیں، انہیں جب احتجاج کرنے سے روکا گیا، ان پر ڈنڈے برسائے گئے، انہیں کھدیڑ کر مارا گیا، جمہوری نظام میں جمہور کو ہی ستم کا نشانہ بنایا گیا اور کرونا وائرس کا بہانہ بنا کر ان کے راستے روکے گئے تو انہوں نےٹریکٹروں ہر ریلیاں نکالیں، پنجاب کے ایگریکلچر منتری نے استعفیٰ دیا، مگر ان سب کے باوجود مرکز نے ایک نہ سنی اور کسانوں کو بھولا بتلا کر اور یہ کہہ کر کہ انہیں بہلایا جارہا ہے وہ بل کو پاس کر بیٹھے، راجیہ سبھا میں چیخ و پکار تھی، اپوزیشن بھی ناراض تھے، اس کے باوجود نہ جانے کیسے قانون کو منظوری دے دی گئی، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کوئی جمہوری نظام نہیں؛ بلکہ تاناشاہی ہے، اب بھی ملک کے کسانوں میں غصہ ہے، اندازہ ہے کہ یہ لہر مزید تیز ہوگئی، بھلے ہی کوئی اسے کوریج نہ دے؛ لیکن عوام ودھان سے راجیہ سبھا تک دباؤ بنائے گی، ہوسکتا ہے کہ حکومت کان میں تیل ڈال لے، مگر پورا یقین ہے کہ ملک میں انارکی پھیلے گی، لوگوں کا غصہ بھڑکے گا اور سیاست تیز ہوجائے گی؛ ایسے میں مسلمانوں کو چاہئے کہ حق پرستوں کا ساتھ دیں، ملک میں اٹھنے والی نئی کرانتی کو پروان دیں وہ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اور بہت سے مسائل کو نبھاتے ہوئے ایک زخم ان کا بھی برداشت کریں، ممکن ہے کہ یہ چھوٹا زخم بڑے بڑے زخموں کا مداوا بن جائے۔
20/09/2020
Comments are closed.