راجیہ سبھا کی حقیقت و افادیت اور ارکان راجیہ سبھا کے انتخابات کی مثالیں

تیسری اور آخری قسط
مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی
*ارکان راجیہ سبھا کے انتخابات کی مثالیں*
*1- 2018میں مدھیہ پردیش کے* اسمبلی الیکشن میں کل نشستوں میں سے کانگریس کو ایکسو چودہ ،اور بی جے کو ایک سو نو سیٹیں حاصل ہوئیں ، چار آزاد امیدوار ، دو سماجوادی پارٹی اور ایک بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار بھی کامیاب ہوئے ، کانگریس نے سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے ممبران کی مدد سے سرکار بنالی ، وہاں حکومت کرنے لیے ایک سوسولہ(116) ممبران اسمبلی کی حمایت ضروری ہے ،
مگر سوا سال کے بعد بی جے پی نے کانگریس میں بغاوت کروادی ، اس کے پچبیس ممبران اسمبلی نے استعفی دے دیا ، اور وہاں کانگریس حکومت کو استعفی دینا پڑا ، دو بی جے پی ممبران کی سیٹیں بھی موت اور استعفی کے سبب خال ہوگئی تھیں ، اب کانگریس کے بعد صرف نوے (90) ممبران رہ گئے اور بی جے پی کے پاس ایکسو سات ممبران ،
بی جے پی نے وہاں مارچ2020 میں حکومت بنائی ,اوراپریل 2020 میں راجیہ سبھا کے لیے ہونے والے تین نشستوں کے انتخابات میں سے دو نشستیں حاصل کیں ، کانگریس نے بھی دو امیدوار کھڑے کیے تھے ،مگر اس کا دوسرا امیدوار ضروری اکیاون ووٹ حاصل نہ کرسکا ، دوسو تین رکنی اسمبلی میں تین نشستوں کے لیے چار امیدوار تھے ، کامیاب ہونے کے لیے اکیاون ممبران اسمبلی کی حمایت ضروری تھی ،
اگر کانگریس میں بغاوت نہ ہوتی تو مدھیہ پردیش میں کانگریس کی سرکار نہیں گرتی ، اور وہ وہاں سے راجیہ سبھا کے دو امیدوار کامیاب کرانے میں کامیاب ہوجاتی ، اس لیے کہ دوسوتیس ارکان والی اسمبلی میں اگر تین نشستوں کے لیے چار امیدوار اترتے ہیں تو کامیابی کے لیے انٹھاون ممبران اسمبلی کی حمایت ضروری ہے ، اور دونشستوں پر کامیابی کے لیے ایک سو سولہ ممبران اسمبلی کی حمایت ضروری ہے ،اور کانگریس کے پاس اپنے چودہ ،اور ایس پی ،اور بی ایس پی کے ملاکر کل ایک سو سترہ ممبران اسمبلی تھے ،
*2- کیرلا میں تقریبا پچاس* سالوں سے باری باری سے دو اتحاد حکومت کررہا ہے ، یہاں ہر پانچ سال بعد حکومت بدل جاتی ہے ، کانگریس کی قیادت والے اتحاد کا نام یوڈی ایف ( یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) ہے ، کانگریس کو بیس تا ترسٹھ سیٹیں ملتی ہیں ، جب کہ اس اتحاد میں دوسرے نمبر کی پارٹی مسلم لیگ ہے ، اس کو سات تا بیس سیٹیں حاصل ہوتی ہیں ، تیسری پارٹی کیرلا کانگریس مانی ہے ،اس کو پانچ تا دس سیٹیں حاصل ہوتی ہیں ، موجودہ اسمبلی میں کانگریس کی بائیس ، مسلم لیگ کی اٹھارہ اور کیرل کانگریس مانی کی پانچ سیٹیں ہیں ،
دوسرا اتحاد لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ ہے ، اس میں بڑی پارٹی سی پی آئی ایم ہے ،اس کو چوبیس تا اکسٹھ سیٹیں ملتی ہیں ،
اس اتحاد میں دوسری بڑی پارٹی سی پی آئی ہے ، اس کو تیرہ تاانیس سیٹیں ملتی ہے ،
موجودہ اسمبلی میں سی پی آئی ایم کی انٹھاون( 58) ٫ اور سی پی آئی کی کل انیس (19) سیٹیں ہیں ،
کیرلا اسمبلی کی کل نشستیں ایک سو چالیس ہیں ، اور موجودہ اسمبلی کی مدت مئی 2016 تا مئی 2021 ہے ،
اس اسمبلی میں ایل ڈی ایف کے 91، اور یوڈی ایف کے 47 ممبران ہیں ، ایک آزاد اور ایک بی جے پی ممبر ہے،
دونوں اتحاد میں دو دو ،چار چار ،اورایک ایک سیٹیں حاصل کرنے والی کئی پارٹیاں ہیں
یہاں سے ہمیشہ ایک ممبر راجیہ سبھا مسلم لیگ کا اور ایک ممبر راجیہ سبھا سی پی آئی ہوتا ہے اور کبھی کبھی دوسری چھوٹی پارٹیوں سے بھی راجیہ سبھا کا ممبر منتخب ہوجاتا ہے ،
کیرلا میں راجیہ سبھا کی کل نو نشستیں ہیں ، اپریل 2015,اپریل 2016،اور جولائی 2018 میں تین تین نشستوں کے انتخابات ہوئے تھے ، اور تینوں انتخابات میں سی پی آئی ایم کے ایک ایک ممبر منتخب ہوئے تھے ، 2015,اور 2016 کے انتخابات کے وقت یوڈی ایف کے 72,اور ایل ڈی ایف کے 68 ممبران اسمبلی تھے ، پھر بھی یوڈی ایف کے دو دو امیدوار راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے ، اور یہ سب بلا مقابلہ منتخب ہوگئے تھے ، کیرل میں ہمیشہ راجیہ سبھا کے ممبران بلا مقابلہ منتخب ہوتے ہیں ، اس لیے کہ یہاں بی جے پی کی طرح ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت کرنے والی پارٹیاں نہیں ہیں ،
یہاں جس اتحاد کے پاس بہتر(72) یا اس سے زائد ممبران اسمبلی ہوتے ہیں اس کے دو اور اتحاد مخالف کے ایک امیدوار راجیہ سبھا کے لیے بلا مقابلہ منتخب ہوجاتے ہیں ، اتحاد مخالف اپنا دوسرا امیدوار کھڑا ہی نہیں کرتا ،
*کیرلا سے راجیہ سبھا مسلم لیگ کی نمائندگی*
موجودہ کیرلا کی تشکیل یکم نومبر 1956کو ہوئی ہے ، اس سے قبل موجودہ کیرالا چار ریاستوں میں منقسم تھا ،
1- کاسرگوڈ کو آزادی کے بعد ریاست میسور کا حصہ بنادیا گیا تھا،
2- کنور ، کالی کٹ ، ویناڈ ، ملپورم ، اور پالکاڈ اور ترشور کے بعض حصے ریاست مدراس کا حصہ بنادیے گئے تھے ، آزادی سے قبل یہ تمام مالابار ضلع کے تحت آتے تھے اور مدراس پریذیڈنسی کے تحت تھے ، یہ علاقے چونکہ ڈائریکٹ انگریزوں کے تحت تھے ، اور اس علاقے خاص طور سے ملپورم اور کالی کٹ کے راجاؤں ،علماء اور عوام نے ہمیشہ غیر ملکی طاقتوں کی مخالفت کی ، اس لیے انگریزوں نے ہمیشہ اس علاقے کے عوام کو نظر انداز کیا اور ان پر ظلم کیا ، یہاں کے لوگوں نے ہر اس آواز پر لبیک کہا ، جو انگریزوں کے خلاف اٹھی ،
مولانا محمد علی جوہر کی خلافت تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اس علاقے کے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں ،
اس تحریک کی ناکامی کے بعد یہاں کے مسلمانوں نے مسلم لیگ کو مضبوط کیا ، یہاں کی مسلم لیگ میں بڑے بڑے صلحاء اور علماء بھی تھے ، قائد ملت حاجی محمد اسمعیل صاحب جو آزادی سے پہلے جنوبی ہند میں مسلم لیگ کے سب سے بڑے رہنما تھے ، وہ تمل ناڈو کے تھے ، وہ علماء کی طرح ایک مشت کی شرعی داڑھی رکھتے تھے ، اور نیکی میں مشہور تھے ، وہ نہ پاکستان گئے اور نہ مسلم لیگ کے خزانے سے ایک پیسہ لیا ، انہیں مسلم لیگ نے اپنے خزانے کا ایک تہائی حصہ لے لینے کی گذارش کی ، مگر قائد ملت نے یہ کہ کر لینے سے انکار کردیا کہ اب تقسیم ہند کے بعد پرانی مسلم لیگ سے ہمارا کوئی رشتہ نہیں ، ہم نئی مسلم لیگ بنائیں گے ، چناچہ انہوں نے دیگر قائدین کے ساتھ مل کر 1948میں انڈین یونین مسلم لیگ قائم کیا ،
کیرل کے ملابار علاقے سے آزادی سے قبل سے ہی مسلم لیگ آٹھ دس سیٹیں حاصل کرتی تھیں ، دھیرے دھیرے اس نے اپنے دائرۂ اثر کو بڑھایا ،
3- ارناکلم اور ترشور اضلاع کے زیادہ تر حصے نوابی ریاست کوچی کا حصہ تھے ،
4-موجودہ ارناکلم ضلع کے بعض جنوبی حصے ، الپی ، پتنم تٹا ، کوٹایم ، اڈکی ،کوٹایم ، کولم اور تریوندرم اضلاع نوابی ریاست ٹراونکور کا حصہ تھے ،
آزادی کے بعد کوچی اور ٹراونکور کو ملاکر ترو کوچی کی نام کی ریاست بنائی گئی تھی ،
1956 میں جب لسانی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل ہوئی تو وہ تمام علاقے جہاں کی اکثریت مادری زبان ملیالم تھی ان کو ملاکر کیرلا کی تشکیل ہوئی ،
کیرلا کی تشکیل کے بعد پہلا اسمبلی الیکشن اپریل 1957 میں ہواتھا ،اور اس وقت مسلم لیگ کے آٹھ اراکین بطور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے ، 2011 میں سب سے زیادہ بیس امیدوار کامیاب ہوئے ،
اب تک مسلم لیگ کیرلا اسمبلی کی بیس سے زیادہ نشستیں نہیں جیت پائی ہے ،
کیرلا میں کبھی بھی کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی ، اور مسلم لیگ اتحاد کی سیاست کا فائدہ اٹھاکر 1952 سے ہی اپنے نمائندے راجیہ سبھا میں بھیجنے میں کامیاب ہے
*مسلم لیگی راجیہ سبھا اراکین*
1- قائد ملت محمد اسمعیل صاحب 1952- 1958 کل چھ سال یعنی ایک ٹرم ، یہ کیرلا کی تشکیل سے قبل ریاست مدراس سے منتخب ہوئے تھے ،اس زمانے میں کیرلا کی تشکیل نہیں ہوئی تھی ، اور مسلم لیگ کا اثر والاعلاقہ مالابار جو یکم نومبر 1956 سے کیرلا کا حصہ ہے اس زمانے میں ریاست مدراس کا حصہ تھا ،
2- محبوب ملت ابراہیم سلیمان سیٹھ صاحب 1960 – 1966 ایک ٹرم ،یعنی چھ سال
ابرہیم سلیمان سیٹھ 1967 سے 1996 تک مسلسل 29 سال لوک سبھا کے ممبر رہے ، انہوں نے کیرلا کے تین پارلیمانی حلقوں ، کالی ،کٹ ، منجیری اور یونانی کی نمائندگی کی ، وہ 1967 اور 1972 میں کالی کٹ سے ، 1977,1980 1984 اور 1989 میں منجیری سے اور 1991 میں پونانی حلقے سے منتخب ہوئے تھے ، بابری مسجد کی شہادت کے وقت وہ مسلم لیگ کے آل انڈیا صدر تھے ، اور اس وقت کیرلا میں یوڈی ایف کی حکومت تھی ، 1991 کے اسمبلی الیکشن میں مسلم لیگ انیس سیٹیں جیت کر آئی تھی ، کانگریس کے ساتھ وہ حکومت میں شامل تھی ، اس کے چار وزراء اہم قلمدان سنبھالے ہوئے تھے ، ان حالات میں سلیمان سیٹھ صاحب نے اپنا ایمانی فرمان سنایا کہ مسلم لیگ کانگریس کی صوبائی حکومت سے الگ ہوجائے ، مگر اس فرمان کو کیرلا کی صوبائی قیادت نے ماننے سے انکار کردیا اور سیٹھ صاحب کو ہی مسلم لیگ سے نکال دیا ، سیٹھ صاحب بابری مسجد کی شہادت سے بہت دکھی تھے ، اور وہ کانگریس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے ، اور کانگریس کو سبق سکھانا چاہتے تھے ، جب کہ مسلم لیگ کی صوبائی قیادت کا مؤقف تھاکہ بابری مسجد کی شہادت بہت افسوسناک ہے مگر کیرلا کی ریاستی حکومت سے الگ ہوجانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، کانگریس کے پاس اپنے پچپن ممبران ہیں ، مسلم لیگ کے علاؤہ یوڈی ایف کی دیگر پارٹیوں کے سولہ ممبران ہیں ،ایسی صورت میں اگر مسلم لیگ حکومت اور اتحاد سے الگ ہوجانے تو بھی کانگریس حکومت باقی رہے گی ، اس لیے کہ ایک سو چالیس رکنی اسمبلی میں حکومت کرنے کے لیے اکہتر ممبران اسمبلی کافی ہیں ، اور یہ بھی امکان ہے کہ مسلم لیگ کے یوڈی ایف چھوڑنے کے بعد ایک ڈی ایف کی بعض چھوٹی پارٹیاں یوڈی ایف میں شامل ہوجائیں ، اور مسلم لیگ کو ایل ڈی ایف قبول نہ کرے ، ہم چار وزراء کے ساتھ مسلم قوم کی خدمت کر رہے ہیں ،
ایل ڈی ایف کے قائدین نے مسلم لیگ کے کچھ فیصلہ کرنے سے قبل ہی یہ کہنا شروع کردیا کہ مسلم لیگ ایک فرقہ پرست جماعت ہے ، اور ہم اسے ایل ڈی ایف میں قبول نہیں کریں گے ،
کیرلا کی مسلم قیادت نے سیٹھ صاحب پر بہت ظلم کیاہے ، سیٹھ صاحب کی بات مانتے ہوئے بطور احتجاج مسلم لیگ کو حکومت سے الگ ہوجانے چاہیے تھا،
سلیمان سیٹھ صاحب اصلا بنگلور کے تھے ، البتہ ان کی امی ملیالی تھیں ،وہ کنور کی تھیں اور سیٹھ صاحب نے کوچی میں گھر بنالیا تھا،
انہوں نے انڈین نیشنل لیگ بنائی ،اور اپنی وفات تک وہ اس پارٹی کی نشو ونما کی کوشش کرتے رہے ، مگر انڈین نیشنل لیگ کو زیادہ مقبولیت نہیں ملی ، 2005 میں تراسی سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا ،
وہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر تھے ، ان کی تقریر بڑی عالمانہ اور دانشورانہ ہوتی تھی ، وہ انڈین یونین مسلم لیگ کے تاسیسی ممبران میں تھے ،اور قائدملت محمد اسمعیل صاحب کے بعد مسلم لیگ کے سب سے بڑے لیڈر تھے ،
3- عبداللہ کویا صاحب 1967- 1973
اور 1974- 1998
کل پانچ ٹرم یعنی تیس سال
4- حامد علی شمناد 1970- 1979
ڈیڑھ ٹرم ، یعنی کل نو سال
5- عبد الصمد صمدانی 1994 – 2006 دوٹرم یعنی
بارہ سال
یہ کیرلا کے مشہور مقرر اور عالم ہیں ، اور اپنی تقریر وں میں علامہ اقبال کے اشعار کا بکثرت استعمال کرتے ہیں ، اس لیے یہ کیرل میں محب اردو ، عاشق اقبال اور ماہر اقبالیات سے مشہور ہیں ، یہ 2011تا 2016 کیرلا اسمبلی کے ممبر بھی رہے چکے ہیں ، سلیمان سیٹھ کو پارٹی سے نکالنے کے بعد مسلم لیگ نے ان کو راجیہ سبھا کا مسلسل دوبار رکن بنایا تھا ، مگر اب پتہ نہیں کیوں ان کو مسلم لیگ نظر انداز کر رہی ہے ،
6- کرمبیل احمد، 1998 -2003
کل پانچ سال
7- پی کے عبد الوہاب ، 2004- 2010
اور 2015 – 2021
پی کے عبد الوہاب صاحب مسلم لیگ کے راجیہ سبھا ممبر ہیں اور ان کی مدت رکنیت راجیہ سبھا اپریل 2021 تک ہے ،
عبد الوہاب صاحب ایک بڑے بزنس مین ہیں ،
*تحریر کا مقصد*
اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ اسمبلی کے انتخابات کے وقت صرف یہ خیال نہ کریں کہ آپ صرف ممبر اسمبلی کو منتخب کر رہے ہیں ، یا کسی پارٹی کی ریاست میں حکومت بنوارہے ہیں ، بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ آپ کے ووٹ کے واسطے سے کس پارٹی کے ارکان راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہورہے ہیں ،
آئندہ نومبر 2020 میں بہار میں اسمبلی کا الیکشن ہے ، بہار کے عوام کو چاہیے کہ وہ جھارکھنڈ کے عوام کی طرح ہوش مندی کا ثبوت دیں ، اور فرقہ پرستوں کو ہرانے کی ہرممکن کوشش کریں ، ارجےڈی اتحاد کے علاوہ کسی کو بھی ووٹ نہ دیں ، سیمانچل کی مسلم اکثریت والی چند سیٹوں پر مجلس اتحاد المسلمین کو ووٹ دے سکتے ہیں ، مگر یہاں بھی بڑی عقلمندی اور حکمت سے متحد ہوکر مجلس کو ووٹ کریں ، دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو ووٹ دے کر نہ اپنا ووٹ ضائع کریں اور نہ ہی فرقہ پرستوں کو مضبوط کریں.
Comments are closed.