مہذب کون، وحشی کون؟

(غزہ کا المیہ اورمہذب دنیا کی منافقت: مغربی تہذیبی افکار کا غروب ہوتا آفتاب)

 

ازقلم: ڈاکٹر محمّد عظیم الدین

(اسسٹنٹ پروفیسر، آرٹس کامرس کالج، بیودہ، امراوتی، مہاراشٹر)

موبائل: 8275232355

 

تاریخ کے ہر دور میں طاقتور نے اپنے مفادات کی چھڑی سے "تہذیب” اور "وحشت” کے درمیان ایک لکیر کھینچی ہے۔ اس لکیر کے ایک طرف وہ خود کھڑا رہا، اپنی برتری کے گن گاتا ہوا، اور دوسری طرف ان سب کو دھکیل دیا جو اس کی تعریف پر پورے نہ اترتے ہوں۔ گزشتہ چند صدیوں سے مغرب نے اس لکیر کو اتنا گہرا اور واضح کر دیا ہے کہ اس نے خود کو تہذیب کا واحد وارث اور باقی دنیا کو تاریکی اور جہالت کا مسکن قرار دے دیا۔ اس نے جمہوریت، انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور انفرادی آزادی جیسے عظیم افکار کو اپنی عالمگیر برتری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا، اور دنیا کو باور کرایا کہ یہی وہ اقدار ہیں جو انسان کو جانور سے ممتاز کرتی ہیں۔ لیکن آج، غزہ کی خون آلود سرزمین اور اس کے ملبے سے اٹھتا دھواں ایک ایسے آئینے کا کام کر رہا ہے جس میں مغرب کا حقیقی چہرہ، اس کے تمام تر تضادات اور منافقتوں کے ساتھ، عیاں ہو رہا ہے۔ غزہ کا المیہ محض ایک علاقائی تنازعہ یا جنگی بحران نہیں، یہ اس مغربی تہذیبی عمارت کے انہدام کا اعلان ہے جس کی بنیادیں کھوکھلی اور ستون دوغلے پن سے تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مغربی تہذیبی افکار کے اس آفتاب کے غروب ہونے کا منظر ہے، جس کی روشنی کبھی دنیا کو عدل اور انصاف سے منور کرنے کا دعویٰ کرتی تھی۔

اس سوال کا جواب کہ "مہذب کون، وحشی کون؟” غزہ کی زمینی حقیقت میں پوشیدہ ہے۔ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع 365 مربع کلومیٹر کی یہ پٹی، جو پہلے ہی 2007 سے جاری اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل کہلاتی تھی، 7 اکتوبر 2023 کے بعد ایک وسیع و عریض مقتل گاہ میں تبدیل ہو گئی۔ اسرائیل نے اپنی بے مثال فوجی طاقت کے ساتھ جو منظم بربریت شروع کی، اس نے جنگ کے تمام تسلیم شدہ قوانین اور انسانیت کے ہر اخلاقی ضابطے کو تار تار کر دیا۔ فلسطینی وزارت صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار، جو عالمی اداروں کے مطابق بھی کم اندازے پر مبنی ہیں، جون 2025 تک 56,000 سے زائد شہداء کی نشاندہی کرتے ہیں، جن میں 20,000 سے زائد معصوم بچے اور 15,000 سے زائد خواتین شامل ہیں۔ یہ محض ہندسے نہیں، یہ ان گنت خاندانوں کی نسل کشی کے نوحے ہیں، ان ادھورے خوابوں کی کہانیاں ہیں جنہیں بموں اور گولیوں سے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔ معروف طبی جریدے "دی لانسیٹ” سمیت کئی عالمی صحت کے اداروں نے خبردار کیا ہے کہ بھوک، پیاس، بیماریوں اور طبی سہولیات کے مکمل خاتمے سے ہونے والی بالواسطہ اموات اس تعداد کو کہیں زیادہ بڑھا سکتی ہیں۔

یہ کوئی حادثاتی جنگی نقصان نہیں تھا، بلکہ ایک سوچی سمجھی اور منظم حکمت عملی تھی جس کا مقصد فلسطینیوں کی زندگی کو ہر سطح پر ختم کرنا تھا۔ اسرائیلی افواج نے جان بوجھ کر اسپتالوں کو نشانہ بنایا؛ الشفاء، القدس اور انڈونیشین ہسپتال اس کی واضح مثالیں ہیں، جہاں مریضوں کو بستروں پر، ڈاکٹروں کو آپریشن تھیٹروں میں اور پناہ لیے ہوئے شہریوں کو راہداریوں میں قتل کیا گیا۔ اسکول، جو اقوام متحدہ کے زیر انتظام تھے اور جہاں ہزاروں بے گھر خاندانوں نے پناہ لے رکھی تھی، ملبے کے ڈھیر بنا دیے گئے۔ عبادت گاہیں، چاہے وہ تاریخی العمری مسجد ہو یا قدیم ترین گرجا گھر، بمباری سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ اسرائیل نے بھوک کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے غزہ کی تمام زمینی گزرگاہیں بند کر دیں، امدادی ٹرکوں کی قطاروں کو سرحد پر روک دیا، اور جو چند ٹرک داخل ہوئے، ان پر بھی بمباری کی۔ اس نے زرعی زمینوں کو تباہ کیا، پانی کی لائنیں کاٹ دیں اور بیکریوں کو نشانہ بنایا تاکہ زندگی کا ہر وسیلہ ختم ہو جائے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خود اسے "انسانیت کے لیے ایک بھیانک خواب” اور "بچوں کا قبرستان” قرار دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جو ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے کہ اس کے نزدیک اسپتال، اسکول، عبادت گاہ اور امداد کے منتظر بھوکے شہری، سب کے سب جائز فوجی اہداف ہیں، جو بچوں کی بھوک اور بیماری کو اپنی فتح سمجھے، اسے تاریخ کے کس پیمانے پر "مہذب” کہا جا سکتا ہے؟

اس کھلی وحشت اور بربریت کے مقابل، خود کو تہذیب کا علمبردار کہنے والی دنیا، بالخصوص امریکہ اور اس کے کلیدی یورپی اتحادیوں کا کردار، اس المیے کو ایک نئی، زیادہ تاریک گہرائی عطا کرتا ہے۔ ان ممالک کا ردِعمل محض خاموشی یا بے حسی نہیں، بلکہ اس جرم میں کھلی اور بے شرمانہ شرکت ہے۔ جب غزہ کی گلیاں بچوں کے خون سے رنگین ہو رہی تھیں، واشنگٹن، لندن اور برلن سے اسرائیل کے لیے مزید مہلک ہتھیاروں اور بموں کی کھیپ روانہ کی جا رہی تھی۔ امریکہ نے نہ صرف اسرائیل کو 14.3 بلین ڈالر کی اضافی فوجی امداد فراہم کی، بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی ہر کوشش کو اپنے ویٹو کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ 1972 سے لے کر آج تک فلسطین سے متعلق 53 قراردادوں کو ویٹو کرنے کا امریکی ریکارڈ اس کی یکطرفہ اور ظالمانہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ وہی مغرب ہے جس نے یوکرین پر روسی حملے کے چند ہی دنوں میں روس پر سخت ترین معاشی پابندیاں عائد کر دیں، اس کے اثاثے منجمد کر دیے، اسے عالمی کھیلوں سے باہر کر دیا اور روسی صدر کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن جب اسرائیل اس سے کہیں زیادہ سنگین جنگی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے، تو مغربی رہنما اسے اسرائیل کا "اپنے دفاع کا حق” قرار دیتے ہیں۔ یہ دوغلاپن اتنا واضح اور تکلیف دہ ہے کہ اس نے "انسانی حقوق”، "عالمی قانون” اور "بین الاقوامی برادری” جیسے الفاظ کو بے معنی اور مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔ جب ایک یوکرینی بچے کی موت پر پوری مغربی دنیا سوگ مناتی ہے، لیکن ایک فلسطینی بچے کی ویسی ہی موت پر خاموش رہتی ہے یا اسے "افسوسناک مگر ناگزیر” قرار دیتی ہے، تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس "مہذب” دنیا کی نظر میں تمام انسان برابر نہیں ہیں۔ اس کی ہمدردی اور انصاف کا پیمانہ صرف رنگ، نسل، مذہب اور سیاسی مفادات پر مبنی ہے۔ اس منافقت کے بعد، مغرب کس منہ سے خود کو اخلاقیات اور تہذیب کا چیمپئن کہہ سکتا ہے؟

یہ بحران محض سیاسی منافقت کی ایک مثال نہیں، بلکہ یہ ان تمام مغربی تہذیبی افکار کا عملی جنازہ ہے جن کا پرچار پچھلی تین صدیوں سے کیا جا رہا تھا۔ روشن خیالی (Enlightenment) کے دور سے ابھرنے والے نظریات، جیسے جان لاک کی انفرادی آزادی، روسو کا سماجی معاہدہ، اور کانٹ کا آفاقی اخلاقی قانون، مغربی تہذیب کی فکری بنیاد سمجھے جاتے تھے۔ ان نظریات نے ایک ایسے سماج کا خواب دکھایا تھا جو عقل، انصاف اور انسانی وقار پر قائم ہو۔ 1948 کا انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ اسی فکری سفر کا عروج تھا، جس نے یہ اعلان کیا کہ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور حقوق و عزت میں برابر ہیں۔ لیکن غزہ کی صورتحال نے اس پوری فکری عمارت کو ایک جھٹکے سے زمین بوس کر دیا ہے۔ آج یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ عظیم افکار اور بلند و بانگ اصول اس وقت تک ہی مقدس ہیں جب تک یہ مغربی استعماری اور جغرافیائی و سیاسی مفادات کے دائرے میں رہیں۔ جیسے ہی کوئی مظلوم قوم، جیسے فلسطینی، ان اصولوں کا حوالہ دے کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہے، مغرب کے چہرے سے تہذیب کا نقاب اتر جاتا ہے اور اس کے پیچھے وہی پرانا استعماری چہرہ نظر آتا ہے جو صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔

مغرب کا جمہوریت کا دعویٰ اس وقت کھوکھلا ثابت ہوتا ہے جب وہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو دہائیوں سے تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ اس کا عدل و انصاف کا تصور اس وقت دم توڑ دیتا ہے جب وہ ایک قابض ریاست کو مظلوم کے خلاف ہر طرح کا ظلم کرنے کی کھلی چھوٹ دیتا ہے اور عالمی عدالتوں کے فیصلوں کو نظر انداز کرتا ہے۔ اور اس کے انسانی حقوق کا سارا بیانیہ اس وقت ایک بے رحمانہ مذاق بن جاتا ہے جب غزہ کے لاکھوں شہری زندگی، خوراک، پانی اور تحفظ کے بنیادی ترین حقوق سے محروم کر دیے جاتے ہیں اور مغرب اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ درحقیقت، اقوام متحدہ جیسے ادارے، جو عالمی امن اور انصاف کے ضامن سمجھے جاتے تھے، آج مغربی طاقتوں، بالخصوص امریکہ، کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ سلامتی کونسل کا ادارہ امریکی ویٹو کی وجہ سے مفلوج ہے، جبکہ دیگر اداروں کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ یہ عالمی نظام کی ناکامی نہیں، بلکہ اس نظام کا حقیقی چہرہ ہے، جسے بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ وہ طاقتور کے مفادات کا تحفظ کرے۔

تاہم، اس تاریکی میں امید کی ایک کرن بھی موجود ہے، اور وہ مغرب کے اپنے عوام کی بیداری ہے۔ جہاں ایک طرف مغربی حکومتیں اسرائیل کی نسل کشی میں اس کی پشت پناہی کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف لندن، پیرس، برلن، نیویارک، اور سڈنی کی سڑکوں پر لاکھوں انصاف پسند شہری اپنی ہی حکومتوں کی منافقت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک تنازعے پر مغربی عوام اور ان کی حکومتوں کے درمیان اتنی گہری اور واضح خلیج پیدا ہوئی ہے۔ یونیورسٹی کیمپسز میں طلباء کے مظاہرے، دانشوروں اور فنکاروں کی آوازیں، اور سوشل میڈیا پر چلنے والی عوامی مہمات اس بات کی علامت ہیں کہ مغرب کا ضمیر، جسے اس کی حکومتوں نے سلا دیا تھا، اب جاگ رہا ہے۔ یہ عوامی بیداری نہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے، بلکہ یہ اس تہذیبی بحران کی بھی نشاندہی کرتی ہے جو اب مغرب کے اپنے گھر کے اندر پہنچ چکا ہے۔ حکومتوں کی بے حسی اور عوام کے بڑھتے ہوئے غصے کا یہ تصادم مغربی معاشروں کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

عالمی سطح پر بھی مغرب کی اخلاقی ساکھ اپنی کم ترین سطح پر آچکی ہے۔ مشرق وسطیٰ، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ پر مشتمل "گلوبل ساؤتھ” کے ممالک اب مغرب کے دوغلے معیار کو واضح طور پر دیکھ اور مسترد کر رہے ہیں۔ برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک نے عالمی عدالتوں میں اسرائیل کے خلاف آواز اٹھائی ہے، جبکہ ترکی، آئرلینڈ اور اسپین جیسے ممالک نے مغرب کی منافقانہ پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی ہے۔ یہ ممالک اب یہ سمجھ چکے ہیں کہ مغرب کا "قواعد پر مبنی عالمی نظام” (Rules-Based International Order) دراصل "مفادات پر مبنی استعماری نظام” کا دوسرا نام ہے۔ اس عالمی بیداری کے نتیجے میں ایک نئی کثیر قطبی دنیا کی تشکیل کی راہیں ہموار ہو رہی ہیں، جہاں مغرب کو اب واحد اخلاقی یا سیاسی طاقت کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔

پس، آخری تجزیے میں، "مہذب کون، وحشی کون؟” کا سوال اپنا جواب خود دے رہا ہے۔ وحشت صرف ہتھیار اٹھانے اور خون بہانے کا نام نہیں؛ وحشت اس منظم ریاستی دہشت گردی کا نام ہے جو بچوں اور عورتوں کو جان بوجھ کر نشانہ بناتی ہے۔ وحشت اس بے حسی اور منافقت کا نام ہے جو ہزاروں معصوم جانوں کے ضیاع پر اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کا محل تعمیر کرتی ہے۔ وحشت اس فکری بددیانتی کا نام ہے جو ایک ظالم قابض کو مظلوم اور ایک نسل کشی کے مرتکب کو ہیرو بنا کر پیش کرتی ہے۔ اس تعریف کی رو سے، آج کا اسرائیل اور اس کی پشت پناہی کرنے والا مغرب، تہذیب کے نہیں، بلکہ وحشت کے کیمپ میں کھڑے ہیں۔ غزہ کا المیہ تاریخ کے کٹہرے میں ایک ایسا مقدمہ بن چکا ہے جہاں ملزم کوئی ایک ملک یا گروہ نہیں، بلکہ وہ پورا مغربی تہذیبی بیانیہ اور عالمی نظام ہے جس نے طاقت کو حق پر اور مفاد کو اخلاقیات پر ترجیح دی۔ غزہ کا خون اس نام نہاد مہذب دنیا کے چہرے پر ایک ایسا نہ مٹنے والا داغ ہے، جو اس کے تہذیبی آفتاب کے مکمل غروب اور اس کی اخلاقی موت کا کھلا اعلان ہے۔ تاریخ جب لکھی جائے گی تو غزہ کو صرف ایک شہر کے قتل عام کے طور پر نہیں، بلکہ ایک ایسی تہذیب کے خاتمے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کا وزن نہ اٹھا سکی۔

Comments are closed.