نام مرنے سےترامٹ نہیں سکتا قاسم!

زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغ خوش نوا شـــاخ پر بیٹھا کـــوئی دم چہچہایا، اڑگیا

شکستہ خاطر
سراج اکرم قاسمی
نائب مدیر مدرسہ الہدایہ، کنشاسا کونگو افریقہ

زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغ خوش نوا
شـــاخ پر بیٹھا کـــوئی دم چہچہایا، اڑگیا

ماضی قریب میں مردم خیز صوبۂ بہار نے جن چند بہار آفریں علمی شخصيات کو پالا پوسا، پروان چڑھایا اور ملک و بیرونِ ملک سے ان کی علمی رفعت و عظمت، اخلاقی بلندی، دور بینی اور پیش اندیشی کا لوہامنوایا، ان میں سرِفہرست *مولانا ابوالمحاسن سجادؒ، مولانا سید منت اللہ رحمانیؒ اور قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ تھے*، اسی سلسلۂ زریں کی یہ آخری کڑی مخدوم عالی قدر *قاضئ شریعت مولانا محمد قاسم* صاحب مظفرپوری کی ذات گرامی تھی ـ

مولانا مہینوں علالت سے دو چار رہے، اس دوران سوشل میڈیا کے توسط سے ملک و بیرون ملک مولانا کی صحت یابی کے لیے دعائيں جاری رہیں ، اسی کا اثر ثھا کہ ابھی چند روز پہلے برادر گرامی مولانا *ممتاز اشرف راہی* نے یہ مژدۂ جاں بخش سنایا کہ مو لانا روبہ بصحت ہوا چاہتے ہیں؛ لیکن *بیمار کا یہ تبسم تیمارداروں کے لیے محض ایک تسلی ثابت ہوا* اور جس سانحے کا ڈر تھا وہ آخرش پیش آکر رہا۔ مولانا یکم ستمبر ٢٠٢٠ کی شب پونے تین بجے دائمی سفر کے لیے روانہ ہوگئے اور اس طرح ان کی عارضی زندگی کی شام اور حیات جاودانی کی صبح ہو گئی۔

مولانا نے اپنے پیکر خاکی کو گو خاک کا لبادہ اوڑھادیا ہے؛ پر:
*نام مرنے سے ترا مٹ نہیں سکتا قاسم !*

آپ نے اپنے بعد حسنات کا جو عظيم قیمتی ذخيرہ چھوڑا ہے وہ آپ کے نام کو ہر طلوع ہونے والے سورج کے ساتھ زندہ تر تا بندہ تر کرتا چلا جائے گا اور آپ امارت کی عمارت، شکرپور کی صدارت،سپول کی قیادت، مادھوپور کے دروبام، مسلم پرسنل لا بورڈ کے اسٹیج، اپنی مفید علمی تصانیف اور ہزاروں فیض یافتگان کے درمیان سے ہمیشہ جھانکتے اور جلوہ گر ہوتے رہیں گے؛ کیوں کہ:

*ومامات من تبقی التصانيف بعده*
*مخلــدة والعلــــم والفضل و لــده*

(اہل علم کی تصانیف اور ان کا علم وفضل انھیں دوام عطا کر دیتا ہے ـ)

متعارف بزرگ شخصیتوں میں قاری صدیق احمد باندویؒ کے بعد بندہ جن سے سب سے زیادہ متأثر تھا وہ حضرت والا ہی تھے ـ اللہ تعالی نے مولانا کو سادگئ وتواضع ،علمی رفعت، بلند ظرفی و خورد نوازی، شب بیداری وآہ سحر خیزی، تحمل و برداشت اور جفا کشی میں اسلاف کا نمونہ بنایا تھا ـ وہ میلوں میل پیدل چلتے، پر تازہ دم رہتے ـ خلاف مزاج بڑے بڑے واقعات کو بھی اس طرح پی جاتے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ـ ان کے سادہ رہن سہن ،نشست و برخاست اور رفتار و گفتار سے ایک عامی یہ سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص علم و فن کے سمندروں کا پایاب، زاہد شب زندہ دار، درس و تدریس کا سرتاج، تصنيف و تالیف کا فرماں روا، دنيائے خطابت کا سحبان، بوحنيفۂ وقت اور قاضیوں کا قاضی ہے۔
آپ کی گفتگو، ملنے جلنے کا انداز سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا آئینہ دار ہوتا کہ *لا يحسب جليسه أن أحدا أكرم عليه* ہر واردو صادر یہی سمجھتا کہ وہی آپ کا سب سے زیادہ مقرب ہے ـ یہی وجہ ہے کہ آپ کی وفات حسرت آیات پر ہروہ شخص خون کے اشک برسا رہا ہے، جس نے آپ کی ایک ادنی سی جھلک بھی دیکھ لی تھی ۔

بندہ فراغت کے معاً بعد بہار کے ممتاز ادارے *مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ*(دربھنگہ)سے 1998 تا 2005 وابستہ رہا ـ انگواں مادھو پور میرے مدرسے کی آمد ورفت کےلیے ایک گزرگاہ؛ بلکہ مولانا اور مولانا کے خانوادے کی اپنائیت کی وجہ سے دل کی آماج گاہ تھی ـ ادھر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رح کی رحلت کے بعد حضرت قاضی شریعت رح شکرپور کے باضابطہ صدر محترم نام زد کر دیے گئے تھے، اس لیے بندے کو یہ سعادت و خوش بختی حاصل رہی کہ ہفتے دوہفتے مہینے دو مہینے میں ملاقات تقریباً یقینی تھی، ہر ملاقات علم وفکر میں بالیدگی، اخلاق و مروت میں بڑھوتری،طہارت باطنی اورجہل ومعاصی کے اعتراف کا سبب ضرور بنتی؛ مگرواہ رے مولانا کی جادوئی نظر کہ شرمندگی اور پست حوصلگی کی بجاۓسنورنےاور کچھ کر گزرنے کا عزم پیدا کر دیتی۔

*جوشے تمہارے سامنے آئی نکھر گئی:*
یہ سچ ہے کہ آج پڑھنے پڑھانے اورلکھنے لکھانے والوں کی کثرت ہے، پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علمی ذوق کے حامل پتہ مار رجال ساز افراد کی نایابی نہیں تو کم یابی ضرور ہے؛ مگر لوح و قلم عطا کرنے والی ذات نے مولانا کو علم وفن کی بلندی کے ساتھ ذوق بھی علمی اور تربیتی بخشا تھا، اس لیے
*جوشے تمہارے سامنے آئی نکھر گئی*

جوبھی آپ کے دامن سے وابستہ ہو گیا وہ دنیائے علم و فن کاماہ درخشاں اور نیرتاباں ہوگیا، مولانا کے تشجیعی کلمات اور تربیتی اسلوب نے ہزاروں اپاہجوں کو دوڑتا کردیا،جن میں قلم پکڑنے اور زبان کھولنے کی بھی صلاحیت نہیں تھی آج وہ انھی کلمات اور اسلوب کی بدولت ملک وبیرون ملک میں معروف ومقبول مثالی اہل قلم اور صاحب بیان شمار کیے جاتے ہیں ۔ سچ ہے:
*کب فلک کو یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں*
*کـوئی معشـوق ہے اس پردۂ زنگاری میں*

*تیری فطرت میں خاک ساری تھی:*
زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں *من تواضع لله رفعه الله* (جوشخص تواضع و خاک ساری اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے رفعت وبلندی عطا کرتے ہیں) مولانا کی رفعت وعظمت، شہرت وعزت اور ہر دل عزیزی میں جہاں آپ کی علمی گہرائی وگیرائی ،طہارت قلبی اور حسن باطن مؤثر ہے، وہیں اس کا ایک اہم، بنیادی اور فیصلہ کن سبب آپ کی تواضع و انکساری بھی ہے ـ آپ کی صحبت میں ہم جیسے کہتر کوبھی مہتری کا دھوکہ ہونے لگتا تھا ـ ذیل کے ان ہر دو واقعات سے اس کا کچھ اندازہ ہوگا۔

(1) جاڑے کی برفیلی رات تھی ـ ماسٹر محمد قاسم صاحب(پوہدی بیلا)مولانا کے مہمان تھے ـ بندہ بھی ادیب العصر قاری شبیر احمد صاحب(ناظم: مدرسہ اسلامیہ شکر پور بھروارہ)کے ساتھ اس رات وہیں تھا ـ ماسٹر صاحب مسجد سے متصل گھرکے جنوبی کمرے(جس سے اس وقت لائبریری اور مہمان خانے دونوں کا کام لیا جاتا تھا )میں قیام فرماہوئے،اور مولانا آرام کےلیے گھر کے اندر تشریف لے گئے ـ جب رات کا آخری پہر ہوا، تو مجھے غسل کا تقاضا ہوا، میں نے سوچا کہ ان حضرات کے بیدار ہونے سے پہلے غسل سے فارغ ہولوں تو بہتر ہے ـ میں اسی شش و پنج اور ادھیڑ بن میں تھا کہ ٹھیک اسی وقت دونوں بزرگوں کے دروازے تہجد کےلیے کھلے ـ میں چپکے سے مسجد کے باہری نل کی طرف نکلنا ہی چاہتا تھا کہ قاضی صاحب کو شاید اس کا احساس ہوگیا کہ میں غسل کرنا چاہتا ہوں، اور وہ میرے لیے بالٹی لے کر آگے آگے چلنے لگے ـ کہرےکی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ نظر نہیں آرہا تھا اور قاضی صاحب کے ہاتھ میں ٹارچ تھی، اس لیے بار بار آواز بھی دے رہے تھے کہ مولانا! ادھر آئیے، ادھر سے چلیے ـ میں مولانا کی بلند ظرفی، خورد نوازی اور انکساری سے شرمندہ ہورہاتھا، بالآخر بڑی منت سماجت کے بعد مولانا نےبالٹی مجھے دی اور لوٹنے لگے ـ میں تنہا نل کی طرف بڑھا ابھی ایک دو لوٹے ہی بدن پر ڈالے ہوں گے کہ کسی کے نل چلانے کی آواز محسوس ہوئی ـ میں نے دیکھا کہ وقت کا قاضی شریعت، زمانے کا شیخ الحدیث، شبلی عصر اور مربی دہر، ایک نوجوان ان پڑھ دیہاتی کےلیے نل چلا رہاہے ـ میرےانکار کے باوجود مولانا نل چلاتے رہے ـ آخر کار میں نے ہینڈل پکڑلیا تب مولانا الگ ہوے اور فرمایا: شدید ٹھنڈک ہے ، اس لیے میں نے سوچا کہ نل چلا دوں تاکہ آپ بعجلت غسل کرلیں ـ پھر نل سے ہٹ کر ٹارچ دکھانے لگے، میں دست بستہ کھڑا ہوگیا، اب یہ مجسم انکسار واپس ہوا ۔

*دفتر ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات*
*تھی سراپا دین ودنیا کا سبق تیری حیـــات*

(2) ایک بار اور قاری صاحب کے ساتھ مولانا کے در دولت پر شب گزارنے کا موقع ملا ـ اس مرتبہ مسجد میں چند علما کی مختصر تقریر کا اعلان تھا، چنانچہ مغرب کے وقت جب سب لوگ مسجد میں داخل ہوگئے، تو میں نے اندازہ کیا کہ یہ مرد قلندر بالقصد بعد میں آیا اور مسجد کے دروازے کے سامنے ہم چند لوگوں کے اتارے گئے چپل جوتے کو اٹھا کر سلیقے سے کنارے رکھنے لگا ـ میں قریب ہی تھا لپکا، تو فرمانے لگے: جب لوگ مسجد سے نکلیں گے تو یہ چپل جوتے خراب ہو جائیں گے، اس لیے کنارے رکھ رہا ہوں ـ واقعی :
*رفعتیں چــومتی ہیں ان کے قـــدم*
*جن کی فطرت میں خاک ساری ہے*

علیم وخبیر مولانا کے درجات بلند فرمائے ،انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے ـ ان کی ملکی وملی خدمات کو قبولیت اور دوام بخشے ـ پس ماندگان بالخصوص فرزند عالی قدر مولانا عبد اللہ مبارک، برادرزادگان مولانا رحمت اللہ، نعمت اللہ ،منت اللہ صاحبان، برادر عزیزحافظ ناظم صاحب اور دیگر اعزہ واقارب کوصبر جمیل عطا فرمائے ـ آمین ـ

Comments are closed.