ڈاکٹر اسلم جمشید پوری سے ایک خوبصورت ملاقات: اردو ادب کے حوالے سے

✒️:عین الحق امینی قاسمی
ڈاکٹر اسلم جمشید پوری ایک کہنہ مشق استاذ ،افراد ساز،صاحب طرز ادیب،نقاد ،افسانہ نگار اور انقلابی شہر میرٹھ کے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں قائم شعبہ اردو کے عالی مرتبت صدر ہیں ،وہ ایک اچھے افسانہ نگار ہیں جس میں عموما وہ سماج کے دبے کچلے انسانوں کی ترجمانی کرتے دیکھائی دیتے ہیں ،ان کے افسانوں میں دیہی ماحولیات کی عکاسی ،خوب سے خوب تر ہوتی ہے،انہوں نے بچوں کے لئے بھی نظموں کے ساتھ خاصا مواد فراہم کیا ہوا ہے، یوں تو ان کی اب تک مختلف اصناف اردو میں پچیسیوں سے زائد کتابیں زیر قلم آچکی ہیں اور اگرصرف تنقید پر دیکھیں تو محمد علیم اسماعیل کی تحریر کے مطابق
"جدید اردو افسانہ بدلتی قدریں (ترتیب و تزئین)جدیدیت اور اردو افسانہ(تحقیق و تنقید) 2001، ترقی پسند اردو افسانہ اور اہم افسانہ نگار(تحقیق و تنقید) 2002، اردو افسانہ: تعبیر وتنقید (تحقیق و تنقید) 2006،اردو فکشن : تنقید و تجزیہ 2012،اردو فکشن کے پانچ رنگ(تحقیق و تنقید) 2017،عصمت شناسی(ترتیب) 2018، تجزیے (تنقید) 2018ان کی تنقیدی تصانیف ہیں جو تنقیدی میدان میں دستاویزی حیثیت کی حامل ہیں”
ڈاکٹر صاحب بہت ہی سنجیدہ اور ملنسار ہیں ،حساس طبیعت اور بلند خیالات کے حامل ہمہ جہت شخصیت ہیں،گفتگو میں میٹھاس، اعتماد ،ٹھہراؤ اور گہرائی ہے ،فکری شعور کی سطح کافی بلند ہے ،وہ جدید وقدیم کے فاصلوں کو پاٹنے کا ہنر رکھتے ہیں ،اردو کے فروغ کے لئے ان کا ذہن ،قلم ،فکر ،جذبہ،ا ورخیال سب ہی مصروف نظر آتے ہیں ،بہت سے کامیاب انسانوں کی طرح ڈاکٹر صاحب بھی وقت کے بڑے قدرداں ہیں ،یونیورسٹی میں طلباء وطالبات سمیت دیگر اعلی ذمہ داران کے درمیان مقبول بھی ہیں اور بھروسہ مند بھی ….. اعلی ذوق اور تحریکی مزاج واقع ہوئے ہیں ،باتوں کو سلیقہ سے پیش کرنے کا گن وہ خوب جانتے ہیں ،نئی پود کواپنے علم وہنر سے سینچنے سنوارنے اور انہیں اپنی تہذیبی وراثت کے تحفظ کا احساس کرانے میں بھی باپ کا جمال اور ایک کامیاب استاذ کے رعب وجلال کا خوب خوب پاس ولحاظ رکھتے ہیں ۔وہ نئی نسل کے تئیں مختلف جہتوں سے ان کی اعلی تعلیم اور مثالی قدروں کے سلسلے میں کوشاں رہتے ہیں ،ان کے لئے اچھے روز گار ومعیشت کے حوالے سے بھی وہ اپنے اندر تڑپا دینے والادرد رکھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ نئی نسل اونچی تعلیم اور بہترمعاش سے جڑیں، تاکہ سماج تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہوسکے ۔اس بلند نگاہی کے نتیجے میں حالاں کہ انہیں موجودہ پیڑھی کو پروان چڑھانے میں کئی طرح سے جتن کرنے پڑتے ہیں اور مختلف طرح کے جوکھموں سے بھی گذرنا پڑتا ہے ،مگر اس کے باوجود بھی وہ اس نئی پود سے بہت پرامید دیکھائی دیتے ہیں ۔
"اردو ادب میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت: فروغ وخدمات "کے حوالے سے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی شہر میرٹھ کے منشی پریم چند سیمنار ہال میں ان سےاس عاجز عین الحق امینی قاسمی کی ایک اہم خوبصورت ملاقات ہوئی ،دوران ملاقات انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ بہت دنوں سے نوجوانوں کو اردو ادب کے فروغ کے لئے متحد کرنے اور انہیں جوڑنے کی ضرورت کا شدت سے احساس کیا جا رہا تھا، جس کے لئے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی نے پہل کرتے ہوئےاس سلسلے میں انٹر نیشنل یوتھ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا ہے۔بہار ،بنگال ،اڑیسہ مصر ،ودیگر دسیوں کنٹریز میں تنظیمیں بن چکی ہیں ،اس کا مقصد نوجوانوں کو متحد و متحرک کرنا ہے تاکہ مابعد جدیدیت کے نام پر جو فراڈ کیا گیا ہے اور ایک طرح سے اردو ادب کے تعلق سے جو جمود کی سی کیفیت پیدا کردی گئی ہے اسے ختم کیا جائے اورادب کے حوالےسے نوجوان حرکت میں آئیں اور کام کو آگے بڑھائیں ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ادب کی بنیاد چوں کہ تخلیق ،تحقیق ،تنقید اور تحریک پر ہے اس لئے جب تک ہمارے نوجوانوں کا تحریکی مزاج تیار نہیں ہوتا ،ادب کے نام پر کچھ بڑا نہیں ہوسکتا ۔
بات چیت کے دوران مزید انہوں نے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں اپنی آمد کو لے کر یہ بھی کہا کہ میرے کئی خواب ہیں ،ان میں پہلا خواب ہےمیرٹھ کو اردو ادب کے مین اسٹریم میں شامل کرنا ،اس میں بہت حد تک الحمد للہ میں کامیاب ہوا ،آج اس یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے فیض یافتہ احباب کی ایک معتدبہ تعداد ہے جوتقریر ،تحریر ،تصنیف ،تالیف ودیگر جہتوں سے اردو ادب میں میرٹھ کا نا روشن کررہے ہیں ۔دوسرا ایک خواب ہے کہ ملکی سطح پر اپنا ایک نیوز چینل ہونا ، جس میں اردو ،انگلش اور ھندی اخبارات کے اجرا کے ساتھ ساتھ ا لکٹرانک میڈیا ہاؤسز کا قیام بھی شامل ہے ۔ باتوں بات میں جمعیۃ علماء ہند کا تذکرہ چھر گیا پھر اس کی نسبت سے یہ بات بھی آئی کہ جمعیۃ اس کام کو اچھی طرح کرسکتی ہے ، وہیں وفد میں شامل مذکورہ یونیورسٹی کےممتاز طالب علم رہےمولانا محمد جبریئل صاحب نے کہا کہ گزشتہ دنوں مولانا محمودمدنی صاحب کی طرف سے بات آئی تھی کہ "جمعیۃ اس کام کو کرنا چاہتی ہے ،پیسے بھی میرے پاس اس فنڈ کے لئے ہیں ،مگر مجھے اس کام کے لئے افراد چاہئیے "اس پر ڈاکٹر صاحب موصوف کا مثبت جواب یہ تھا کہ اچھا ہے وہ آگے بڑھیں ،ہمارے پاس اس سمت میں کام کرنے والے کئی احباب ہیں ان سے بات کی جاسکتی ہے ۔ان کی گفتگو مدارس کے موجودہ نظام تعلیم سے متعلق بھی کچھ پل کے لئے ہوئی ،جس میں انہوں نے فضلاء مدارس کو روزگار سے جوڑنے اور ملک کے ایک ایک فرد کے لئے نفع بخش بنانے کے سلسلے میں نئی تعلیمی پالیسی کےلئے خود کو مضبوط اور تیار رکھنے کے تعلق سے مفید مشورہ بھی دیا ،انہوں نے فضلاء مدارس کو جدید علوم اور بہر صورت عصری علوم کے حصول کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ آنے والا دور،جدید علوم اور ٹکنالوجی کا دو رہوگااس میں وہی لوگ مفید ثابت ہوسکتے ہیں جنہیں ان علوم کی خاطر خواہ جانکاری ہوگی ۔
مجموعی سطح پر یہ ملاقات بہت اہم اور یادگاررہی اور اس موقع پر ڈاکٹر صاحب کی طرف سے اردو ادب یا دیگر پہلوؤں سے متعلق جو پیغام پیش کئے گئے ہیں وہ موجودہ پس منظر میں وقت کااہم تقاضہ ہے جس کی طرف ڈاکٹر صاحب موصوف نے توجہ دلائی ہے ،خدا کرے کہ یہ چیزیں ہماری عملی زندگی میں داخل ہوجائیں اور ایک ترقی یافتہ قوم کی حیثیت سے ہماری پہچان دنیا کے سامنے ہوسکے ۔
انہوں نے ضلع بیگوسراے بہار کے لئےاپنی ہر ممکن مدد ورہنمائی کے لئے وقت دینے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے ۔وفد میں شامل جمعیہ علماء شہر میرٹھ کے نائب صدر مولانا محمد جبرئیل نے ڈاکٹر صاحب موصوف کا اخیر میں شکریہ اداکیا اور کوئی ڈھائی بجے دن میں ہم لوگ پھروہاں سے اپنی منزل کے لئے روانہ ہوگئے۔
…………………………………………..
* نائب صدر جمعیہ علماء بیگوسراے
Comments are closed.