غزہ میں 580 دنوں سے جاری کی نسل کشی کے ہولناک انسانی المیے کے لرزہ خیز اعدادو شمار

بصیرت نیوزڈیسک
قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی گئی نسل کشی کی جنگ کے 580 دن مکمل ہو چکے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 ءسے 8 مئی 2025 تک اس جارحیت اور نسل کشی کی تفصیلات میں چونکا دینے والے اعدادو شمار سامنے آئے ہیں۔ دوسری جانب یہ جنگی جرم ابھی بدستور جاری و ساری ہے۔ اس المناک عرصے کے دوران جاری تباہی، بربادی اور انسانی المیے کی چشم کشا تفصیلات فلسطینی سرکاری میڈیا دفتر نے تازہ رپورٹ میں جاری کی ہیں، جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
یہاں اس خونچکاں جنگ کے اہم اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں:
● 24 لاکھ سے زائد فلسطینی غزہ میں نسل کشی اور نسلی صفائی کا سامنا کر رہے ہیں۔
● اسرائیلی نسل کشی کی جنگ کو 580 دن گزر چکے ہیں۔
●قابض فوج 12 ہزار سے زائد اجتماعی قتل عام انجام دے چکی ہے۔
● 62 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا لاپتہ ہو چکے ہیں۔
● 10 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں جن میں وہ شہداء بھی شامل ہیں جو ملبے تلے دبے ہیں یا جن کا کوئی سراغ نہیں۔
● 52,760 شہداء ایسے ہیں جن کی لاشیں ہسپتالوں تک پہنچائی جا چکی ہیں۔
● 11,926 اجتماعی قتل عام صرف فلسطینی خاندانوں کے خلاف کیے گئے۔
● 2,200 فلسطینی خاندان مکمل طور پر مٹ چکے ہیں، جن کے تمام افراد بشمول والدین اور بچے شہید ہو گئے، ان کی مجموعی تعداد 6,350 سے زیادہ ہے۔
● 5,120 خاندانوں میں صرف ایک فرد زندہ بچا ہے، جبکہ ان کے 9,351 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
● 16,270 بچے شہید ہوئے جن کی لاشیں ہسپتال پہنچیں، جبکہ مجموعی طور پر 18,000 سے زائد بچوں کو قتل کیا گیا۔
● 311 نومولود بچے پیدا ہوتے ہی شہید کر دیے گئے۔
● 908 شیرخوار بچے بھی قتل عام کا نشانہ بنے۔
● 57 فلسطینی بھوک اور قحط کی وجہ سے شہید ہوئے، جن میں 50 سے زائد بچے شامل تھے۔
● 17 افراد سردی سے ٹھٹھر کر جان سے گئے، ان میں 14 بچے تھے۔
● 8,700 سے زائد خواتین شہید ہو چکی ہیں جن کی لاشیں ہسپتالوں تک پہنچیں، جبکہ مجموعی شہداء کی تعداد 12,400 سے زائد ہے۔
● 1,411 طبی اہلکار قابض اسرائیلی بمباری میں شہید ہو چکے ہیں۔
● 113 دفاعی رضاکار اور 214 صحافی بھی اسرائیلی حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔
● 754 امدادی کارکن اور سکیورٹی اہلکار بھی اسرائیلی نشانہ بنے۔
● 162 مرتبہ امدادی سکیورٹی اہلکاروں کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا۔
● 7 اجتماعی قبریں ہسپتالوں میں بنائی گئیں جن سے 529 شہداء کی لاشیں نکالی گئیں۔
● 119,264 افراد زخمی ہوئے جن میں سے 17,000 طویل مدتی علاج کے منتظر ہیں۔
● 4,700 سے زائد افراد کے اعضا کاٹے گئے جن میں 18 فیصد بچے تھے۔
● 60 فیصد سے زائد متاثرین خواتین، بچے اور بزرگ ہیں۔
● 409 صحافی زخمی یا معذور ہوئے۔
● 236 کیمپوں اور پناہ گاہوں پر بمباری کی گئی۔
● صرف 10 فیصد علاقے کو اسرائیل نے ’انسانی‘ علاقہ قرار دیا، حالانکہ وہاں بھی بار بار بمباری کی گئی۔
● المواصی جیسے ’محفوظ‘ علاقے پر 38 مرتبہ بمباری کی گئی۔
● 41,000 بچے والدین یا ان میں سے ایک سے محروم ہو چکے ہیں۔
● 14,500 سے زائد خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔
● 65,000 سے زائد بچے بھوک اور غذائی قلت کے باعث موت کے دہانے پر ہیں۔
● 22,000 مریض بیرونِ ملک علاج کے منتظر ہیں، لیکن قابض اسرائیل انہیں سفر کی اجازت نہیں دیتا۔
● 12,500 کینسر کے مریض موت کے قریب ہیں۔
● 2.13 ملین سے زائد افراد مہلک وباؤں کا شکار ہوئے۔
● 71,338 افراد ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
● 60,000 حاملہ خواتین کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث خطرات لاحق ہیں۔
● 350,000 دائمی مریض دوا کی عدم دستیابی کے باعث خطرے میں ہیں۔
● 6,633 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں 362 طبی اہلکار اور 48 صحافی شامل ہیں۔ ان میں سے تین ڈاکٹر اذیت کے باعث جیل میں شہید ہو چکے ہیں۔
● 2 ملین سے زائد افراد اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔
● 68 دن سے تمام زمینی راستے بند ہیں، خوراک اور ایندھن کی ترسیل مکمل طور پر روکی جا چکی ہے۔
● 37,400 امدادی ٹرک غزہ پہنچنے سے روکے گئے۔
● 29 تکیوں اور 37 امدادی مراکز پر اسرائیلی حملے کیے گئے۔
● 113,000 خیمے قابل استعمال نہیں رہے۔
● 280,000 خاندان رہائش سے محروم ہو چکے ہیں۔
● 225 سرکاری دفاتر، 143 تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔
● 13,000 طلبا و طالبات شہید اور 785,000 تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔
● 800 اساتذہ، 150 ماہرین تعلیم بھی شہید کیے جا چکے ہیں۔
● 828 مساجد مکمل طور پر تباہ، 167 کو شدید نقصان پہنچا۔
● 3 گرجا گھر اور 19 قبرستان بھی اسرائیلی حملوں میں نشانہ بنے۔
● 2,300 لاشیں اسرائیل نے قبروں سے چرا لیں۔
● 210,000 سے زائد رہائشی یونٹ مکمل طور پر تباہ، 110,000 قابلِ رہائش نہیں رہے۔
● 100,000 ٹن سے زائد بارودی مواد شہری علاقوں پر گرایا گیا۔
● 38 ہسپتال، 81 صحت مراکز اور 164 طبی ادارے تباہ کیے گئے۔
● 144 ایمبولینس اور 54 ریسکیو گاڑیاں اسرائیلی حملوں میں تباہ ہوئیں۔
● 206 تاریخی مقامات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
● 3,780 کلومیٹر بجلی کی لائنیں اور 2,105 ٹرانسفارمر تباہ کیے گئے۔
● 1.88 ارب کلو واٹ بجلی کی کمی نے نظامِ زندگی کو مفلوج کر دیا۔
● 330,000 میٹر پانی کی لائنیں اور 655,000 میٹر نکاسی آب کا نظام تباہ کر دیا گیا۔
● 2.85 ملین میٹر سڑکیں تباہ کی گئیں۔
● 1.25 ارب ڈالر کا زرعی نقصان ہوا۔
● 178,000 زرعی دونم میں سے 92 فیصد زمین تباہ ہو چکی ہے۔
● 85 فیصد زرعی گرین ہاؤسز تباہ ہو چکے ہیں۔
● 100 فیصد ماہی گیری کا شعبہ مکمل تباہی سے دوچار ہے۔
● 46 اسپورٹس کمپلیکس، کھیل کے میدان اور جم تباہ کیے گئے۔
● 719 پانی کے کنویں بھی نشانہ بنے۔
● غزہ کے 88 فیصد علاقے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔
● نسل کشی کی اس جنگ میں اب تک 42 ارب ڈالر سے زائد کا ابتدائی مالی نقصان ہو چکا ہے۔
Comments are closed.