آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

دوسری جماعت میں امامت
سوال:آج کل کرونا کی وجہ سے بہت سی مسجدوں میں دو جماعتیں کرائی جارہی ہیں، ایسی صورت میں کیا دوسری جماعت کے ساتھ بھی تکبیرکہی جائے گی؟ (مصلح الدین، ملے پلی)
جواب:
بلا عذر دوسری جماعت مکروہ ہے؛ لیکن موجودہ حالات میں فاصلہ قائم رکھنے کے لیے علماء نے دوسری جماعت کی اجازت دی ہے؛کیونکہ یہ ایک عذر ہے؛اس لئے اس کے ساتھ تکبیر بھی کہی جائے گی، جیسا کہ فقہاء نے مسجد طریق یعنی شاہراہ پر آنے والی مسجدوں کے بارے میں کہا ہے، جس میں راستہ سے گزرنے والے لوگ نماز ادا کیا کرتے ہیں، وہاں چوں کہ دوسری جماعت کی اجازت ہے؛ اس لئے وہاں دوسری جماعت میں بھی اقامت کہنے کی اجازت ہے: (وکرہ ترکہما) معا (لمسافر)….. (أو) مصل (فی مسجد بعد صلاۃ جماعۃ فیہ) بل یکرہ فعلہما وتکرار الجماعۃ إلا فی مسجد علی طریق فلا بأس بذلک. (الدر المختار،کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ص: 56)۔

اذان مسجد میں دائیں طرف دی جائے یا بائیں طرف؟
سوال: اذان مسجد میں دائیں طرف دینی چاہیے یا بائیں طرف؟ ایک صاحب نے کہا کہ مؤذن کو دائیں طرف کھڑا ہونا چاہیے نہ کی بائیں طرف۔ (محمد محسن، قاضی پیٹ)
جواب:
اذان کے لیے کوئی خاص جگہ متعین نہیں ہے، سہولت اور آبادی تک زیادہ سے زیادہ آواز پہنچانے کی اہمیت ہے؛ اسی لئے بلند جگہ پر اذان دینا افضل ہے، مشہور فقیہ علامہ کاسانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:الأفضل أن یؤذن فی موضع یکون أسمع للجیران کالمئذنۃ ونحوہا، (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، فصل بیان سنن الأذان:1/149)، اصل یہ ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں کوئی تحدید منقول نہیں ہو، ان میں مقصد کو سامنے رکھنا چاہیے، اور اذان کا مقصد ہے ،زیادہ سے زیادہ لوگوں تک آواز کا پہنچانا۔
اذان میں ”اشھد ان محمداً رسول اللہ” کا جواب
سوال: ’’اشھد ان محمداً رسول اللہ‘‘ جب مؤذن کہے تو اس کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا چاہیے یا درود شریف بھی پڑھنا چاہیے (بلال احمد، محبوب نگر)
جواب:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے جواب کے سلسلہ میں ہدایت دی ہے کہ موذن جس طرح کہے، اسی طرح تم بھی کہو، پھر جب موذن اذان پوری کرلے تو مجھ پر درود پڑھو:إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَیَّ إلخ، (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر: 384)؛ لہذا اذان کے جواب میں صرف کلمات اذان ہی کو دہرانا چاہیے؛ البتہ اذان ختم ہونے کے بعد درود شریف پڑھنا چاہیے، پھر اذان کی دعا پڑھنی چاہیے؛ البتہ بعض حدیثوں میں موذن کے کلمہ شہادتین کہنے کے وقت’’رَضِیتُ بِاللہِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا‘‘کہنے کی تلقین منقول ہے(صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، حدیث نمبر: 386)؛ اس لئے کلمہ شہادت کو دہرانے کے ساتھ ساتھ اس کو بھی پڑھ لینا بہتر ہے۔

غیر مسلم لڑکی سے مسلمان ہونے کے بعد نکاح
سوال: ملازمت کے دوران ایک مسلمان شخص کا غیر مسلم شادی شدہ عورت سے تعلق ہوگیا؛ یہاں تک کہ اس کو حمل بھی ٹھہرگیا اور مسلمان لڑکا اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے، لڑکی نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور مسلمان ہوچکی ہے، دونوں کے درمیان نکاح کی کیا صورت ہوگی؟ (محمد صہیب، ٹولی چوکی)
جواب:
جب وہ لڑکی مسلمان ہو چکی تو اب مسلمان لڑکے کے لئے اس سے نکاح کرنا جائز ہے؛ بلکہ اس سے نکاح کرنے کو ترجیح دینا چاہیے؛ تاکہ وہ بے سہارا نہ ہو جائے، اور بے سہارا ہونے کی وجہ سے ایمان سے کفر کی طرف واپس نہ ہو جائے؛ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ اس کو تین بار ماہ واری آجائے، تین بار ماہ واری آنے کے بعد اب پہلے شوہر سے نکاح ختم ہو جائے گا اور اس مسلمان لڑکے کے لئے اس سے نکاح کرنا درست ہو گا، نیز بہتر تو یہ ہے کہ اس کے بعد مزید تین حیض گزر جائیں، تب یہ لڑکا اس سے نکاح کرے؛ مگر تین حیض کی یہ دوسری مدت ضروری نہیں ہے: ” وإذا أسلمت المرأۃ فی دار الحرب وزوجہا کافر أو أسلم الحربی وتحتہ مجوسیۃ لم تقع الفرقۃ علیہا حتی تحیض ثلاث حیض ثم تبین من زوجہا….. وإذا وقعت الفرقۃ والمرأۃ حربیۃ فلا عدۃ علیہا وإن کانت ہی المسلمۃ فکذلک عند أبی حنیفۃ رحمہ اللہ خلافا لہما”، (الہدایۃ،کتاب النکاح، باب نکاح أہل الشرک:1/214) اس کے ساتھ ساتھ اس لڑکے کو توبہ بھی کرنی چاہئے؛ کیونکہ وہ زنا کا مرتکب ہوا ہے جو سخت گناہ ہے اور اس لڑکی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بہتر سلوک کرنا چاہئے؛کیونکہ اگر شوہر کی بدسلوکی کی وجہ سے وہ مرتد ہوجائے تواندیشہ ہے کہ یہ لڑکا بھی عند اللہ ارتداد کے گناہ میں شامل سمجھا جائے ۔
دیوبندی، بریلوی کے درمیان رشتہ
سوال: دیوبندی اور بریلوی لڑکے اور لڑکی کے درمیان نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟ ہمارے یہاں ایک عالم نے کہا کہ یہ نکاح درست نہیں ہوتا؛ یہاں تک کہ ایک لڑکی اور لڑکے نے جو آپس میں نکاح کر لیا ہے، لوگ زبردستی اس کا رشتہ ختم کرانے اور طلاق دلانے پر آمادہ ہیں۔ (محمد سلیم، رامپور)
جواب:
بریلوی اور دیوبندی دونوں مسلمان ہیں، اور اہل السنت والجماعت میںشامل ہیں؛ اس لئے اگر وہ کلمہ طیبہ پڑھتے ہوں اوران کو اللہ کا، رسول کا، قرآن کے کتاب الہی ہونے کا اور عقیدۂ آخرت کا اقرار ہو تووہ مسلمان ہیں، ان میں سے کسی کو کافر قرار دینا غلو ہے، سوائے اس کے کہ کوئی شخص کھلے طور پر کفر و شرک کی بات کہتا ہو، یا دین میں یقینی طور پر ثابت شدہ کسی بات کا انکار کرتا ہو، اور ایسی بات کا مرتکب ہوجس کو سلف صالحین اور معتبر فقہاء نے باعث کفر قرار دیا ہو، اگر ایسا نہ ہو تو اس کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔

بیٹھ کر نماز جنازہ
سوال: ابھی کچھ عرصہ پہلے میرے اہل تعلق میں سے ایک صاحب کا انتقال ہو گیا، ان کے والد کافی ضعیف ہیں، لوگوں نے چاہا کہ وہ نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں؛ مگر انہوں نے اصرار کیا؛ چنانچہ ان کو لایا گیا؛ مگر انھوں نے کھڑے ہونے کے بجائے کرسی پر بیٹھ کر نماز جنازہ ادا کی، ان کے ساتھ کچھ اورضعیف بوڑھے رشتہ دار آ گئے تھے، انہوں نے بھی کرسی ہی پر بیٹھ کر نماز ادا کی؛ جب کہ نماز جنازہ کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اس میں قیام فرض ہے؟ کیا ان حضرات کی نماز ہوگی؟ (شفاء الدین قاسمی، دہلی)
جواب:
قیام تو صرف نماز جنازہ ہی نہیں؛ بلکہ ہر فرض وواجب نماز میں فرض ہے؛ بشرطیکہ نماز پڑھنے والا کھڑے ہونے پر قادر ہو؛ مگر لوگوں کے عذر کی رعایت شریعت کا خاص مزاج ہے؛ اسلئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت فرمائی ہے کہ جو شخص کھڑے ہوکر نماز نہ پڑھ سکے، اسے بیٹھ کر نماز ادا کرنی چاہیے؛ چنانچہ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگرچہ نماز جنازہ میں قیام فرض ہے؛ لیکن اگر کھڑا ہونے سے معذور ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے، یہاں تک کہ امام بھی بیٹھ کر نماز پڑھا سکتا ہے:ولو کان الوالی مریضا فصلی قاعدا والناس قیاما أجزأہم عندہما. (رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ: 2/209)۔
اگرچہ علامہ شامیؒ نے مرنے والے شخص کے ولی کے بارے میں یہ حکم لکھا ہے؛ لیکن دوسرے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ یہ حکم صرف ولی کے لئے نہیں ہے؛ بلکہ ہر اس شخص کے لیے ہے، جو کھڑا ہونے سے معذور ہو: ولا فرق فی المصلی قاعدا بعذر بین کونہ ولیا أو لا، (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، باب أحکام الجنائز، ص: 583)۔
خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ
سوال: کرونا کی موجودہ وباء میں ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ بیماری کی تکلیف یا لاک ڈاؤن کی وجہ سے ذریعہ معاش ختم ہو گیا اور فاقہ کی نوبت آ گئی، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے خودکشی کرلی، غیر مسلموں کے یہاں تو ایسے واقعات بکثرت پیش آئے؛ لیکن بعض مسلمان بھی اس کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے، ایسے لوگوں کے بارے میں یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان پر نماز جنازہ پڑھی جائے یا نہیں؟ براہ کرم رہنمائی کریں۔ (محمد مشتاق، دہلی)
جواب:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے پر نماز جنازہ نہیں پڑھی؛ لیکن آپ کا یہ عمل بطور تنبیہ کے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ایسے شخص پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؛ چنانچہ فتویٰ اسی پر ہے کہ چونکہ خود کشی کرنے والا مسلمان باقی رہتا ہے، ایمان کے دائرہ سے باہر نہیں نکل جاتا اور ہر مسلمان کا حق ہے کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے؛ اس لیے اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی: (من قتل نفسہ) ولو (عمدا یغسل ویصلی علیہ) بہ یفتی، (الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ص: 119)۔

قادیانی سے سامان خریدنا
سوال: میرا ایک ساتھی قادیانی ہو گیا ہے، وہ میرا ہم کلاس تھا اور وہ مجھ سے بہت محبت رکھتا ہے، اس نے ایک دکان کھولی ہے، اگر میں اس سے کوئی سامان خرید کروں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے خریدنا جائز نہیں اور خرید لیا جائے تو بھی میں اس کا مالک نہیںہو سکوں گا؟ (منیب الرحمن، بنگلور)
جواب:
اس سلسلے میں دو باتیں قابل غور ہیں: ایک یہ کہ اگر آپ نے اس سے کوئی سامان خرید لیا تو یہ خرید وفروخت درست ہوئی یا نہیں اور آپ اس کے مالک ہو گئے یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو چیز آپ نے خرید لی ہے، اگر اس کا استعمال جائز ہے تو یہ معاملہ درست ہو گیا اور آپ اس شیٔ کے مالک ہو گئے، یہی امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کی رائے ہے، اور اسی پر فتویٰ ہے : وبیع المرتد فإنہ موقوف عند الإمام علی الإسلام، ولا یتوقف عندہما. (رد المحتار، کتاب البیوع، فصل فی الفضولی: 5/111)؛کیونکہ شرعاً یہ ضروری نہیں ہے کہ بیچنے والا مسلمان ہو، غیر مسلموں کے ساتھ بھی خرید و فروخت ہو سکتی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا قادیانیوں کے ساتھ آپ کو ربط و تعلق رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کرنا چاہیے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قادیانی صرف غیر مسلم ہی نہیں ہیں؛ بلکہ مرتدبھی ہیں، یعنی وہ مسلمان تھا اور اسلام سے کفر کی طرف چلا گیا، ایسے لوگوں کے ساتھ ربط و تعلق رکھنا درست نہیں، اس میں اندیشہ ہے کہ وہ آپ کو بھی گمراہی کی طرف لے کر چلا جائے؛ اس لیے ایسے شخص سے ربط و تعلق رکھنا اور اس کی دکان سے سامان خریدنا مناسب نہیں ہے، غور کیجئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بحیثیت نبی سب سے امتیازی وصف خاتم النبیین ہونا ہے، مرزا غلام احمد قادیانی آپ کی اسی خصوصیت کو چھیننے اور اپنے آپ کو آخری نبی قرار دینے کے درپے ہے تو کیا ایسے شخص سے عقیدت و محبت رکھنے والا آپ کی دوستی کے لائق ہو سکتا ہے؟(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.