ایک ہی بیٹی اور داماد کو پوری جا ئیداد دے دینا

?دارالافتاء شہر مہدپور ?
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
زید کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی، البتہ تین لڑکیاں شبنم، شمع اور شمیمہ تھیں
زید نے شبنم اور شمع کی شادی کی اور بعد میں شبنم کے شوہر اسلم کو گھرجنوائی ( گھر داماد) بنا لیا۔
اسلم مع اہلیہ شبنم سسرال میں سکونت پذیر ہوگیا اور مکمل طور پر ساس سسر کی خدمت بھی کرتا رہا
اور چھوٹی سالی شمیمہ کی شادی کی رسم بھی اسلم اور شبنم نے ہی انجام دی۔
زید کی زندگی ہی میں ان کی اہلیہ شبانہ کا انتقال ہوگیا۔
زید نے اپنا آبائی مکان 95000 میں فروخت کرکے اپنی بیٹی شبنم کے نام پر گھر بنانے کے لئے جگہ خرید دی تاکہ شبنم مع شوہر وبچوں کے گھر بنا کر رہ سکے۔
گھر بنا کر شبنم مع شوہر وبچوں کے اس میں رہنے لگی
زید بھی تاوفات اس میں بیٹی شبنم، داماد اسلم اور نواسے نواسیوں کی دیکھ ریکھ میں مقیم تھا۔
دریافت طلب امر یہ یے کہ
شبنم کے نام پرخریدی گئی جگہ اور اس پر اسلم کی کمائی سے بناہوا مکان زید کے ترکہ میں شمار ہوگا یا نہیں؟
واضح رہے کہ زید کے بھائی اور بھتیجے تھے جو زید سے الگ رہ رہے تھے۔
اگر ترکہ ہے تو کس کو کتنا ملے گا؟
اگر ترکہ نہیں یے تو زید کا اپنا آبائی مکان بیچ کر ساری رقم کی زمین خرید کر خدمت کرنے والی ایک ہی بیٹی شبنم کے نام کرنے کی وجہ سے زید عند اللہ ماخوذ تو نہیں ہوگا ؟
اگر ایسا ہے تو اس کی تلافی کی کیا شکل ہے؟
بینوا توجروا
والسلام
المستفتی: انعام الحسن قاسمی
خیرانی روڈ ساکی ناکہ اندھیری ایسٹ ممبئی
یکم صفر ١٤٤٢ھ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ
*الجواب حامدا ومصلیا ومسلما امابعد*
اپنی جملہ جائیداد کو کسی ایک لڑکی لڑکے کو دے کر دوسری اولاد کو محروم کردینا ناجائز اور سخت گناہ ہے۔ (1)
اگر کسی وارث کو محروم کرنے کا ارادہ نہیں ہے، بلکہ حالات کچھ اس طرح ہیں کہ اس طرح اپنی جائیداد و املاک کسی ایک کو دے دینے کی صورت میں اس کی خدمت اور دوسرے معاملات میں مدد ملے گی، تو اپنے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔(2)
بشرطِ صحتِ سوال صورت مسئولہ میں قرائن قویہ موجود ہیں کہ زید اپنی خدمت اور پھر دوسری بیٹی کی شادی وغیرہ کے لیے ایسے سہارے کا محتاج ہے۔ کیوں کہ ہمارے معاشرے میں جس لڑکی کے والدین اور بھائی نہ ہوں، اس کے لیے بہتر رشتوں میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔
اسلم کو گھر داماد بنا لینے کی صورت میں زید نے اپنی خدمت کے ساتھ ہی بیٹی کی شادی وغیرہ کی فکر و سعی کرنے کا انتظام بھی ملحوظ رکھا ہے۔ اور پھر بعد کے حالات سے اس کی تائید بھی ہوگئی۔ان ظاہری قرائن کی بنیاد پر امید ہے کہ زید اپنے دیگر ورثاء کو محروم کرنے کا گنہ گار نہیں ہوگا۔
چوں کہ اس نے اپنی زندگی میں ہی زمین خرید کر مکان بنانے کے لیے شبنم کوزمین مذکورہ پر قبضہ دے دیا تھا، اس لیے اس مکان کا مالک زید نہیں ہے۔ نہ وہ مکان زید کی میراث میں شامل ہے۔ بلکہ اس زمین اور مکان کا مالک شبنم ہی ہے۔ (3)
بریں بنا زید کے کسی وارث کو شبنم کے مذکورہ مکان میں حصہ مانگنے کاحق نہیں ہے۔
(1)أَکُلَّ وَلَدِکَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ؟ قَالَ: لَا. قَالَ: فَارْجِعْهُ.(بخاري، الصحيح، 2: 913، رقم: 2446، بيروت، لبنان: دار ابن کثير اليمامة. وفی مسلم، الصحيح، 3: 1241، رقم: 1623، بيروت، لبنان: دار احياء التراث العربي)
وفی روایۃ:عَنْ عَامِرٍ رضی الله عنه قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رضی الله عنهم وَهُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ يَقُولُ أَعْطَانِي أَبِي عَطِيَةً فَقَالَتْ عَمْرَهُ بِنْتُ رَوَاحَةَ لَا أَرْضَی حَتَّی تُشْهِدَ رَسُولَ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم فَأَتَی رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ إِنِّي أَعْطَيْتُ ابْنِي مِنْ عَمْرَةَ بِنْتِ رَوَاحَةَ عَطِيَةً فَأَمَرَتْنِي أَنْ أُشْهِدَکَ يَا رَسُولَ اﷲِ قَالَ أَعْطَيْتَ سَائِرَ وَلَدِکَ مِثْلَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ فَاتَّقُوا اﷲَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِکُمْ قَالَ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَتَهُ.(بخاري، الصحیح، 2: 914، رقم: 2447۔ وفی ابن أبي شيبة، المصنف، 6: 233، رقم: 30989، الرياض: مکتبة الرشد)
وفی روایۃ : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِکُمْ، اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِکُمْ.
سنن ابی داؤد کے الفاظ اس طرح ہیں:
اعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِکُمْ اعْدِلُوا بَيْنَ أَبْنَائِکُمْ.(أحمد بن حنبل، المسند، 4: 278، رقم: 18475، مصر: مؤسسة قرطبة۔
أبي داود، السنن، 3: 293، رقم: 3544، دار الفکر)
(7) من قطع میراث وارثہ، قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیامۃ۔ رواہ ابن ماجہ۔(مشکوۃ برقم الحدیث: 266)
(2) قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وھو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، فلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: 4/ 391، کتاب الہبة، الباب السادس)
(3) فی الدر المختار: وشرائط صحتھا فی الموھوب:ان یکون مقبوضا غیر مشاع.
وفی الردالمحتار: قولہ مشاع؛ ای فیمایقسم.(الردالمحتار: ج4/ص567)
فی الھندیۃ:
’’لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية‘‘.
(4/378، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)
(4) عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9 ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوز الھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
*کتبہ: (مفتی) محمد اشرف قاسمی*
خادم الافتاء شہر مہدپور ضلع اجین (ایم پی)
[email protected]
۹؍ صفر المظفر ۱۴۴۲ھ
27؍ ستمبر 2020ء
تصدیق:مفتی محمد سلمان ناگوری
ناقل: (مفتی) محمد توصیف صدیقی
معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور
Comments are closed.