نقوش حیات:مشفق ملت مولانا محمد شفیق عالم قاسمی نیموی

دوسری قسط۔
بہ قلم :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی
مشفقِ ملت حضرت مولانا محمد شفیق عالم قاسمی بانی و مہتمم جامعہ رشیدیہ جامع مسجد بیگوسرائے نے ایک عرصے تک پوستہ ڈھاکہ میں حافظ جی حضور حضرت مولانا محمد اللہ صاحب اور پیر جی حضور حضرت مولانا شمس الحق فرید پوری (خلفاء حکیم الامت حضرت تھانوی) کی نگرانی میں رہ کر حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی اور ابتدائی فارسی کی تعلیم حاصل کی. اس کے بعد جامعہ عربیہ قرآنیہ لال باغ ڈھاکا کوخیرباد کہہ کر بیگوسرائے بہار آگءے اور آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے اکابر کے مشورے سے اپنے وطن میں ہی قلب شہر میں واقع تاریخی مدرسہ بدرالاسلام کا انتخاب کیا
مدرسہ بدرالاسلام بیگوسراءے کی مختصر تاریخ :
مدرسہ بدرالاسلام الاسلام بیگوسرائے ایک تاریخی اور بافیض مدرسہ ہے، جو اپنے قیام کے سو سال پورا کررہا ہے. اس کی بنیاد بہار کے پہلے امیر شریعت حضرت مولانا شاہ بدرالدین قادری مجیبی کے نام سے معنون کرکے حضرت مولانا شاہ محی الدین مجیبی (امیر شریعت ثانی ) اور حضرت مولانا شاہ قمر الدین(امیر شریعت ثالث) نے رکھی. اس کی تاسیس امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ سے پہلے کی ہے …اس کی تحریک یوں پیدا ہوءی کہ حکیم سید محمد سراج الدین صاحب جو بیگو سرائے کے نامی گرامی طبیب تھے،،، اصلاً قادر آباد کے رہنے والے تھے، انھیں اللہ تعالی نے زبردست دست شفا اور روحانی کمالات عطا کیے تھے . وہ حضرت امیر شریعت اول کے دست گرفتہ اور ان کے خاص اعتماد یافتہ تھے. انھوں نے اپنے رفقاء ڈاکٹر امجد علی اور مولوی محمد یوسف مرحوم محلہ سراءے وغیرہ کے ساتھ مل کر اس ادارے کو قائم کیا. اس کے ابتدائی اساتذہ میں حافظ عبد الجلیل مظفر پوری اور مولانا یحییٰ (منصور چک) تھے اور ابتدائی طلبہ میں حافظ محمد ابراہیم صاحب میرگنج (بحالت احرام حرم شریف میں انتقال ہوا اور مکہ مکرمہ میں دفن ہوئے ) تھے. عین اس زمانے میں اس ادارے کو قائم کیا گیا جب تحریک خلافت شباب پر تھی..اور قاءدین ملت کی طرف سے جنگ آزادی کا بگل پھونکا جاچکا تھا. رفتہ رفتہ یہ مدرسہ بھی اپنے بانیوں کے زیر اثر تحریک آزادی اور مجاہدین آزادی کے مراکز میں سے ایک مرکز بن گیا.. جمعیت علمائے ہند اور امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے اکابر سے اس ادارے کا خاص تعلق تھا. شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا علاقہ مشرق کا جب بھی سفر ہوتا تھا تو بیگوسرائے سے گزرتے ہوئے گاہے بگاہے مدرسہ بدرالاسلام تشریف لاتے تھے..تشریف آوری کے تعلق سے "مکتوبات شیخ الاسلام” مرتبہ مولانا نجم الدین اصلاحی میں حضرت شیخ مدنی کا ایک خط بنام مولانا ادریس صاحب، موجود ہے . مرشد دوران حضرت مولانا عبدالرشید صاحب رانی ساگری( خلیفہ قطب عالم حضرت مولانا محمد علی مونگیری) اس ادارے کے تاحیات سرپرست رہے. انھیں کے نام سے اس ادارے کی ایک جائیداد بھی رجسٹرڈ ہے… جو حضرت مولانا ادریس صاحب کے عہد میں حاصل کی گئی تھی ..
استاذ العلماء حضرت مولانا ادریس نیموی :
مدرسہ بدرالاسلام اگرچہ 1920 میں قائم ہو چکا تھا، لیکن اس کا دائرہ کار اتنا وسیع نہیں ہوا تھا. اس ادارے کی نشاۃ ثانیہ کا کام اللہ تبارک وتعالی نے اپنے وقت کے مشہور و معروف عالم دین استاذ الاساتذہ، شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس نیموی رحمتہ اللہ علیہ سے لیا.. مولانا ادریس صاحب دارالعلوم دیوبند کے قدیم فارغ التحصیل اور حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے بالکل ابتدائی زمانے کے شاگردوں میں سے تھے اور اپنے شیخ حضرت مدنی اور جمعیت علماء پر مر مٹ تھے. اسی نسبت سے آپ بیگوسرائے سب ڈویژن کے جمیعت علماء کے صدر بھی تھے. آپ کی ولادت تخمیناً (1905ء) انیس سو پانچ عیسوی میں ہوئی اور وفات (1992ء) میں ہوئی.. انداز ا( 1932_35) میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی.. سب سے پہلے جامعہ محمدیہ عربیہ گوگری، کھگڑیا سے وابستہ ہوئے. اور اس ادارے میں ایک عرصہ تک خدمات تدریس انجام دیتے رہے … اس ادارے کو آپ کے زمانہ میں کافی ترقی حاصل ہوئی… آپ کی نسبت سے طلبہ کی کثیر تعداد جمع ہوگءی…
جامعہ محمدیہ میں پڑھنے والے شاگردوں میں ایک نمایاں نام مشہور محدث حضرت علامہ عثمان غنی علیہ الرحمہ (١٩٢٢ _٢٠١١) سابق شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور اور مدبر عالم دین اور امارت شرعیہ کے رکنِ رکین حضرت مولانا محمد شرف الدین کا بھی ہے.. بندہ خالد نیموی کے والد مولانا دلاور حسین مرحوم نے بھی اسی مدرسے میں حضرت مولانا ادریس نیموی سے تعلیم حاصل کی تھی…
جامعہ محمدیہ گوگری میں ایک عرصہ گذارنے کے بعد آپ کی شہرت دور دراز علاقوں تک پہنچ گئی. جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ علمی وروحانی مرکز جامعہ رحمانی مونگیر کے لیے حضرت سید شاہ مولانا منت اللہ رحمانی علیہ الرحمہ نے آپ کو طلب کیا… چنانچہ آپ خانقاہ رحمانی مونگیر تشریف لے گئے اور وہاں ایک عرصہ تک ترجمہ قرآن مجید، جلالین بیضاوی اور الاتقان وغیرہ کتب تفسیر و متعلقات تفسیر اور نحو کی متعدد کتابوں کی تعلیم دیتے رہے… اسی وجہ سے علماء کے مابین مفسر قرآن یا شیخ التفسیر کے لقب سے مشہور ہوئے… بعد ازاں آپ نے حکیم سراج الدین صاحب اور حضرت مولانا سید محمد علی برونوی اور مولانا سید عبد الاحد قاسمی صاحب کے اصرار پر اور دوسرے بزرگوں کے مشورے سے مدرسہ بدرالاسلام کے نظام کو سنبھالا اور اس ادارے کو اس وقت کے ہمدردان و مخلصین ڈاکٹر محی الدین اختر، نور محمد پیشکار، حکیم محمد یاسین صاحب، سید اختر ہاشمی، جناب حبیب اللہ، حاجی عبد الرحمن، حاجی میاں جان (والد ماجد مولانا سعید مظاہری) اور سید نذیر الدین اشرف (والد ماجد سابق وزیر سید جمشید اشرف) وغیرہ کے تعاون سے علمی انحطا ط کو دورفرمایا اور علمی واصلاحی فروغ کے لئے مثالی اقدامات کئے اوردیکھتے دیکھتے یہ ادارہ شمالی بہار کے زیادہ تر علاقوں میں مشہور ہو گیا… انہوں نے اس ادارے کو اپنے خون جگر سے سینچا… مدرسہ کی توسیع و تعمیر کے لیے بڑا قطعہ اراضی اور بلڈنگ خریدی، اس پر شاندار دو منزلہ عمارت تعمیر کروائی.. پورے بہار سے طلبہ کشاں کشاں یہاں آنے لگے.
ہجوم بلبل ہوا چمن میں جب گل نے کیا جمال پیدا
قدر دانوں کی کمی نہیں اکبر کرے تو کوئی کمال پیدا
آپ نے ہی اس ادارے کے مزید فروغ کے لئے حضرت مولانا اسماعیل صاحب عظیم آبادی کو بحال کیا… جنہوں نے اس ادارے کی شہرت کو چار چاند لگانے کا کام کیا
حضرت مولانا ضیاء بلواروی جنرل سیکرٹری تحریک خاکسار اور مولانا حکیم شمش الضحٰی لکھمنیا اور حکیم محی الدین مہواری شہید (شاگرد مفتی اعظم کفایت اللہ) اس ادارے کی تعلیمی نگرانی کے فرائض انجام دیتے تھے.
حضرت مولانا ادریس صاحب کے ابتدائی اساتذہ میں مولانا ابوالحسن پنچویری بھی تھے. مولانا ادریس صاحب ان کا زبردست اکرام کیا کرتے تھے. جب بھی وہ ان کے گھر یا مدرسہ بدرالاسلام تشریف لاتے تھے. تو تبرکاً ان سے درس لیا کرتے تھے اور ان کی ضیافت کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا .. حضرت شیخ مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی آپ کی وارفتگی کا منظر اس سے بھی فزوں تر تھا.. ٥دسمبر سن (1957ء)میں حضرت شیخ مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر اور پھر ٢٢فروری ١٩٥٨ء میں حضرت مولانا ابوالکلام آزاد کی وفات پہ مدرسہ بدرالاسلام بیگوسراءے میں زیر صدارت مولانا ادریس نیموی باوقار تعزیتی اجلاس منعقد ہوا اس میں بیگوسرائے ایس ڈی ایم خاص طور پر شریک ہوئے. اس اجلاس کی تفصیلات سہ روزہ "الجمعیۃ” دہلی میں شائع ہوئی تھی.
اس تعزیتی اجلاس میں ماہر قانون وکیل جھارکھنڈی بابو نے یہ شعر حضرت کے لیے پڑھا تھا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
. سیاسی طور پر بھی مولانا ادریس صاحب کافی مضبوط سمجھے جاتے تھے. بہار کے پہلے وزیر اعلیٰ شری کرشن سنہا حضرت مولانا ادریس کی کافی عزت کرتے تھے اور عقیدت مندانہ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے.. مدرسہ کے اجلاس کے موقع پر یہاں تشریف لائے اور مدرسہ سے متصل رشیدیہ اردو مکتب کو منظوری دی جو آج بھی قائم ہے.
آپ کا زمانہ مدرسہ بدرالاسلام کا مبارک و مسعود عہد تھا، اس زمانے میں عام طور پر ریاستی وملکی شخصیات اور اکابر کی تشریف آوری ہوتی رہتی تھی. جن میں قطب وقت حضرت مولانا عبدالرشید رانی ساگری، حضرت مولانا ابوالوفاء شاہجہاں پوری، حضرت قاری فخرالدین گیاوی. حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی، محدث کبیر ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمن اعظمی خاص طور پر قابل ذکر ہیں. انھیں بزرگوں کے قدم رنجہ فرماءی کا فیض ہے کہ یہ ادارہ مختلف نشیب وفراز دیکھنے کے باوجود اب بھی کءی جہات سے متحرک وفعال ہے..
ادب اور علمیت میں ممتاز شخصیت کے مالک اور "العلالۃ النافعہ” کے مصنف حضرت مولانا عبد الاحد قاسمی آپ کے رفقاء میں سے تھے… اور آپ کی علمی قابلیت کے مداح تھے. فرماتے تھے کہ مجھ پر شیخ الادب مولانا اعزاز علی کی نسبت سے ادب کا غلبہ ہے اور مولانا ادریس صاحب نحو وتفسیر میں ممتاز ہیں.
.. حضرت مولانا ادریس صاحب کی خاص خوبی یہ تھی کہ آپ نے ہر ہر طبقے سے طلبہ کا انتخاب کیا اور انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تاکہ مسلمانوں کی ہر برادری میں میں علم کا بودوباش ہو. چنانچہ آپ کی تحریک پر بیگوسراءے کے دور دراز دیہی علاقوں میں میں بھی علم کی روشنی عام ہوءی. .اور مدرسہ بدرالاسلام ان کے دلوں کا دھڑکن بنا ..
علمی قابلیت کے ساتھ آپ زبردست رعب وداب کے مالک تھے، لائسنس والا راءفل عام طور پر آپ کے پاس ہوتا تھا، ایک مخصوص بگھی تھی جس سے آپ دعوتی اسفار کیا کرتے تھے. کچہری مسجد میں جمعہ سے قبل بڑی اہمیت کے ساتھ خطاب فرماتے تھے… لوگ دور دراز سے آپ کا خطاب سننے کے لیے آیا کرتے تھے، حضرت مولانا ڈاکٹر محی الدین طالب صاحب مدظلہ خلیفہ حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی فرماتے ہیں :کہ آپ کا خطاب کافی مؤثر، دلنشیں اور جامع ہوا کرتا تھا، خطبہ کے وقت سر پر عمامہ اور ہاتھ میں عصا ہوا کرتا تھا. آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص قسم کی وجاہت سے نوازا تھا.
عاجز راقم السطور نے بھی اپنے بچپنے میں حضرت کو دیکھا کہ جمعہ کے خطبہ میں الحمد للہ علی الذات عظیم الصفات سمی السمات کبیر الشان جلیل القدر الخ پڑھا کرتے تھے.
بیگوسرائے ودیگر علاقوں کے معروف علماء کی بڑی تعداد ہے، جنھیں حضرت مولانا محمد ادریس سے شرف تلمذ حاصل ہے، جن میں مولانا شفیق عالم نیموی کے علاوہ حضرت مولانا علامہ عثمان غنی(١٩٢٢_٢٠١١) . حضرت مولانا شفیق عالم پورنوی سابق استاذ جامعہ رحمانی مونگیر ، (آپ نے مولانا سے جامعہ رحمانی اور دیوبند جانے سے قبل ان گھر نیما میں رہ کر ان سے تعلیم حاصل کی) حضرت مولانا شرف الدین قاسمی رح، حضرت مولانا عبدالعظیم حیدری مدظلہ قاضی شریعت بیگوسرائے، حضرت مولانا معین انصاری رح ، سابق صدر المدرسین بشارت العلوم نیما، حضرت مولانا عبدالحلیم سابق جنرل سیکرٹری جمعیۃ علماء بیگوسراءے ,مشہور خطیب حضرت مولانا امین خان چترویدی مدظلہ ، اور انتہائی متحرک اور فعال اورجمعیت علماء کے ترجمان اور سماجی خدمت گار جناب مولانا نفیل الرحمان قاسمی سرونجوی مدظلہ ، مولانا محمد قاسم مظاہری( سوجا بھرا) استاذ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور، مولا نا عبد الرزاق انصاری، مولانا عبد الجبار مظاہری، مولانا ظہور عالم قاسمی سابق صدر جمعیت علماء کھگڑیا، مولانا داؤد صاحب مانڈر، مولانا ڈاکٹر انعام الحق مہنوی سمستی پوری، حضرت مولانا الحاج حبیب اللہ صاحب اور حضرت مولانا محمد اسحاق قاسمی رح سابق صدر جمعیت علماء بیگوسراءے خاص طور پر قابل ذکر ہیں.. عرصہ تک آپ مشہور تعلیمی ادارہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں تعلیمی خدمات انجام دیتے ر ہے… کچھ عرصہ مدرسہ تجوید القرآن مونگیر میں حضرت مولانا سعد اللہ بخاری کی معیت میں کام کیا. بعد ازاں مدرسہ بدرالاسلام بیگوسراءے تشریف آوری ہوئی . درمیان میں مختصر میعاد کے لیے مدرسہ حسینیہ مانڈر میں بھی ذمہ دارانہ طور پر خدمات انجام دیں.. پھر مدرسہ بدرالاسلام واپسی ہوئی…. عمر کے آخری مرحلے میں اپنے وطن نیما میں مقیم ہوکر طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو فیضیاب فرماتے رہے…آپ کے آخری دور کے تلامذہ اور مستفیدین میں مولانا جسیم الدین قاسمی، مفتی داؤد مظاہری مفتی عبدالجبار مظاہری، پرنسپل مدرسہ بدرالاسلام ، مولانا سمیع حیدر، مولانا مصطفی مظاہری، مولانا رقیم مظاہری، مولانا غیاث الدین قاسمی قاری محمد عیسی مظاہری اور صاحب زادہ مولانا زبیر احمد قاسمی شامل ہیں..
آپ کے قاءم کردہ نہج پر ادارے کو کافی فروغ ہوا اور بعد کے عہد میں مدرسہ بدرالاسلام بیگوسراءے میں ، مولانا محمد جابر صاحب کٹکی(صدر جمعیت علماء اڑیسہ)، حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی (سابق ممبر پارلیمنٹ) حضرت مولانا قاضی عبد العظیم حیدری مظاہری مدظلہ ، حضرت مولانا شریف الحسن قاسمی،حافظ زین العابدین، حافظ منصور احمد رحمانی، حضرت مولانا مکرم الحسینی (ریاستی ناظم جمعیۃ علماء بہار)، مولانا یحییٰ بیرپوری، مولانا سعید احمد مظاہری، قاری کلیم الدین، قاری سلیم الدین حافظ محمد سعید صاحب پور کمال وغیرہ کی بھی بحالی ہوءی .
آپ کی وفات (١٩٩٢) میں ہوئی. آپ کی روح اس وقت پرواز کی جب آپ کا سر مولانا شفیق عالم کی گود میں تھا… آپ نے جنازہ پڑھانے کے لیے اپنے شاگرد اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا شرف الدین صاحب کے نام کی وصیت کی تھی لیکن جب ان کا وصال مولانا ادریس صاحب کی زندگی ہی میں ہوگیا تو آپ نے کافی افسوس کیا . نماز جنازہ صاحب زادے مولانا قمر الھدی نے پڑھائی.
مولانا شفیق عالم کے تذکرہ میں حضرت مولانا ادریس نیموی کا ذکر تفصیل سے اس لیے کیا گیا کہ آپ کی شخصیت کی تعمیر میں ان کا بڑا دخل ہے. ان سے محبت بھی بہت کرتے تھے.. یہ عاجز جب جامعہ رشیدیہ میں زیر تعلیم تھا. اس وقت حضرت صاحب فراش ہوگءے تھے.. جب یہ عاجز نیما جاتا تو بڑے اہتمام سے مولانا شفیق عالم کی خیریت دریافت فرماتے اور جب نیما سے مدرسہ آنے لگتا تو اہتمام سے مولانا کو سلام بھجواتے اگر شہر تشریف آوری ہوتی تو میزبانی کا شرف بھی مولانا ہی کو بخشتے.
مولانا شفیق عالم قاسمی مدرسہ بدرالاسلام میں حضرت مولانا ادریس صاحب کے زیر سرپرستی سن( 1957_61)انیس سو سنتاون سے انیس سو ایکسٹھ تک کل پانچ سال:عربی اول سے شرح جامی تک کی تعلیم حاصل کی. درمیان میں ایک ڈیڑھ سال مدرسہ بشارت العلوم نیما میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں .. حضرت مولانا ادریس صاحب نے اساتذہ کی قلت اور تعلیمی بہتری کے مد نظر آپ کو نیما بھیج دیا تھا، لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آپ سے بڑے کارنامے انجام دلوانے تھے، لہذا ایک مختصر حد پر آپ قانع نہیں ہوسکتے تھے، لہذا مزید حصول علم کے شوق میں نیما کی تدریس کو چھوڑ کر دوبارہ مدرسہ بدرالاسلام آگءے اور آپ کے آگے کا تعلیمی سلسلہ جاری رہا .. یہاں آپ کے اساتذہ میں حضرت مولانا ادریس صاحب کے علاوہ حضرت مولانا اسماعیل صاحب عظیم آبادی صاحب، حضرت مولانا عباس ندوی گیاوی، حضرت مولانا ازہر بھاگلپوری اور مولانا عبد الحمید بھاگلپوری (شاگرد خصوصی حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی) خاص طور پر قابل ذکر ہیں… مدرسہ کے اس وقت کے دیگر اساتذہ میں مولانا قمر الہدی قاسمی( صاحب زادہ مولانا ادریس، شاگرد حضرت شیخ الاسلام مدنی) اور قاری جمیل صاحب سرونجوی بھی تھے..
یہاں اخیر کے دو سالوں یعنی ( 1960_61)انیس سو ساٹھ اور ایکسٹھ میں آپ نے پوکھریا جامع مسجد میں امامت کے فرائض بھی انجام دیے. آپ چوں کہ شاندار حافظ قرآن تھے، اس لیے تراویح میں بھی کئی مرتبہ قرآن مجید مکمل فرمایا کر تے تھے. چنانچہ آپ نے جامع مسجد تریا جامع مسجد کھاتوپور اور ٹاؤن شپ میں بھی تراویح سنانے کا ایک زمانے تک اہتمام کیا. دوران امامت آپ محلے کے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دیتے تھے اس وقت کے شاگردوں میں حافظ تصور پوکھریا وغیرہ ہیں.
ازدواجی زندگی :
آپ حصولِ علم کے ساتھ امامت کے فرائض انجام دے رہے تھے… جب مدرسہ بدرالاسلام کی تعلیم کا آخری سال تھا اسی سال آپ کے والد بزرگوار جناب مقصود علی صاحب بیماری کی حالت میں بیگوسراءے تشریف لائے آئے… ڈھاکہ سے آپ کے پیر ومرشد حضرت حافظ جی حضور نے ایک خادم کو ساتھ کر دیا تھا. انہوں نے آپ کو بیگوسرائے پہنچایا.. مقصود علی مرحوم اس بیماری سے جانبر نہ ہوسکے بالآخر اسی سال اللہ کو پیارے ہوگئے
اسی سال تعلیمی دورانیہ کے اختتام پہ شعبان میں میں دارالعلوم دیوبند جانے سے قبل آپ نکاح کی سنت کی ادائیگی سے شرف یاب ہوئے. مشہور و معروف معالج اور مجاہد آزادی حکیم یاسین صاحب ہمدرد دواخانہ بیگوسرائے کی اکلوتی صاحبزادی بی بی صفورہ خاتون سے آپ کا نکاح مسنون عمل میں آیا..
حکیم یاسین صاحب مرنجا مرنج طبیعت کے مالک تھے. آپ کا مطب جو مین روڈ سرائے میں واقع ہے وہ علماء اور دانشوروں کا اجتماع گاہ بھی تھا… ضلع اور ملک سے بڑی شخصیتیں عام طور پر آپ کے مطب میں تشریف لاتی تھیں … ایک موقع پر بھارت رتن سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان آپ کے مطب میں جلوہ افروز ہوئے. عام طور پر حکیم سراج الدین صاحب جو کہ آپ کے بزرگ تھے، میر مجلس ہوا کرتے تھے اور دیگر حضرات کی تشریف آوری بھی ہوتی رہتی تھی … حضرت مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی دارالعلوم دیوبند جانے سے قبل جس زمانے میں دارالعلوم معینیہ سانحہ بیگوسرائے میں صدر مدرس ہوا کرتے تھے. عام طور پر آپ کے مطب میں تشریف لاتے تھے. مفتی صاحب کا آپ سے بڑا دوستانہ تعلق تھا. یہ عاجز جب دار الافتاء دار العلوم دیوبند میں حضرت مفتی ظفیرالدین صاحب کے زیر درس تھا. حضرت بارہا حکیم یاسین صاحب کی خیریت دریافت کرتے تھے اور مجھ سے حکیم صاحب کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے.. اسی طرح حضرت مولانا سید شاہ نور اللہ رحمانی صدر جمعیت علمائے بہار عہد شباب سے آخری ایام تک جب بھی بیگوسرائے تشریف لاتے تو حکیم یاسین کے مطب میں ضرور آپ کی تشریف آوری ہوتی اور آپ ہی کے یہاں قیام فرماتے …. حکیم صاحب نے تکمیل الطب کالج لکھنؤ سے باضابطہ طب کی تعلیم حاصل کی تھی پوری زندگی زندگی خدمت خلق، علماء نوازی صحت عامہ کے تحفظ، قوم کے فلاح و بہبود اور جمعیت علماء اور مدرسہ بدرالاسلا م کی تعمیر وترقی کے لیے سرگرم عمل رہے اور اسی میں زندگی کے لیل ونہار کو صرف کیا….
ازھر ھند دارالعلوم دیوبند میں :
مولانا شفیق عالم (٩١٦٢ ء) سن انیس سو باسٹھ میں مدرسہ بدرالاسلام سے تعلیمی سلسلے کو مکمل کرکے آگے کی تعلیم کے لیے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے… جانے سے قبل آپ کے خسر حکیم محمد یاسین صاحب نے اپنے قریبی بزرگ، دارالعلوم دیوبند کے رکن شوریٰ، بہار کے نائب امیر شریعت اور مختلف کتابوں کے مصنف حضرت مولانا عبد الصمد صاحب رحمانی رح کا علامہ بہاری کے نام تعارفی خط لا کر کے دیا. حضرت رحمانی اصلا تو بازید پور باڑھ سے تعلق رکھتے تھے لیکن مانڈر ضلع کھگڑیا میں مستقلا بودوباش اختیار کر لی تھی.. مانڈر ہی حکیم یاسین صاحب کا سسرال تھا. اسی وجہ سے حضرت رحمانی سے قربت تھی… مولانا شفیق عالم کے بارے میں حضرت مولانا عبدالصمد صاحب رحمانی نے حضرت مولانا محمد حسین صاحب بہاری رحمۃاللہ علیہ کو لکھا تھا کہ میں اپنے داماد عزیزم حافظ شفیق عالم کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں. دارالعلوم میں داخلہ اور تعلیم کے تمام مراحل آپ کی نگرانی میں انجام پائیں اور انھیں آپ کی مشفقانہ سر پرستی حاصل رہی. تو اس سے مجھے بڑی خوشی ہوگی. حضرت مولانا حسین صاحب نے حضرت نائب امیر شریعت کے سفارش کے مطابق ہمیشہ آپ کے ساتھ مشفقانہ اور عزیزا نہ برتاؤ کیا. داخلہ کے تمام مراحل طے ہوئے اور شرح وقایہ کے درجے میں آپ کا داخلہ مکمل ہوا…. گلشن قاسمی کے پرفضا اور علم پرور روحانی فضاؤں سے آپ اپنے مشام دل و جاں کو معطر فرماتے رہے..اس وقت کے تمام جبالِ العلم سے کسبِ فیض کیا. چنانچہ آپ نے شرح جامی حضرت مولانا اصغر حسین صاحب کے صاحبزادے مولانا میاں اختر حسین صاحب سے پڑھی اور اور فوائد مکیہ،تا شاطبیہ، راعیہ حضرت قاری حفظ الرحمان صاحب (جو قاری عبدالرحمن مکی صاحب کے شاگرد تھے) سے پڑھی. شرح وقایہ مولانا نعیم صاحب سے اور نورالانوار وترجمہ قرآن مجید حضرت مولانا سالم صاحب قاسمی سے پڑھیں. …. آگے کے درجات میں آپ نے حضرت مولانا نا حسین احمد صاحب بہاری سے متعدد کتابیں پڑھیں… ان کے علاوہ بخاری شریف آپ نے حضرت مولانا سید فخرالدین علیہ الرحمہ، ترمذی شریف امام العقول والمنقول حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی، مشکوٰۃ المصابیح حضرت مولانا معراج صاحب ہدایہ اخیرین حضرت مولانا بشیر احمد خان سے جلالین حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب سے پڑھی اور حجۃ اللہ البالغہ حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی سے پڑھی.. مسلسلات اور اواءل سنبل کا درس حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی مظاہر علوم سہارنپور سے حاصل کی…ہر شخصیت اپنی جگہ باکمال تھی البتہ تخصص کی جہات الگ الگ تھیں. کہ
ہر گل را بوئے دیگر است
اس وقت آپ کے ساتھیوں میں حضرت مولانا قاری عثمان صاحب موجودہ صدر جمعیت علمائے ہند،اور حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب سابق ممبر پارلیمنٹ ،مولانا شمس تبریز خان آروی، مولانا یوسف خان میرٹھی مولانا حکیم مودود اشرف، مولانا سید احسان اللہ بنگلوری مولانا زین العابدین صاحب سید پوری،مولانا عرفان بھوپالی، مولانا عتیق الرحمن آروی اور مولانا شعیب رحمانی اور عزیزوں میں مولانا نفیل الرحمن سرونجوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.
جمعیۃ الطلبہ کے سکریٹری کی حیثیت سے :
دوران تعلیم ان کے اندر طلباء کے امور سے بھی دلچسپی رہی.. اساتذہ کرام خاص طور پر حضرت مولانا نا قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کے معتمد تھے اس لیے جمعیۃ الطلبہ کا آپ کو سیکریٹری منتخب کیا گیا آپ طلبہ کے امور کو بہتر طور پر انجام دیتے تھے اور طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان پل کا کام کیا کرتے تھے… دار العلوم دیوبند میں پہلے خشک روٹی کا رواج نہیں تھا مولانا شفیق عالم نے حضرت مہتمم صاحب کے سامنے اس معاملے کو پیش کیا اور ان سے یہ گزارش کی کہ وہ طلبہ جن کا امداد جاری نہ ہوا انہیں اگر مختصر معاوضے پر خشک روٹی مطبخ سے فراہم کردی جائے تو طلبہ کو بڑی عافیت ہو اور انھیں علمی یکسوئی حاصل ہو حضرت مہتمم صاحب نے اس درخواست کو شرف قبولیت عطا کیااور یہ سلسلہ جاری ہوگیا. اس وقت مطبخ کے ذمہ دار نواب صاحب تھے ان کا بھی تعاون رہا… یہ سلسلہ بفضلہ تعالیٰ کامیابی کے ساتھ جاری ہے جس سے طلبہ کو بڑی عافیت ہوتی ہے…وظیفہ میں خاطر خواہ اضافہ بھی آپ ودیگر احباب کی کوشش سے ہوا . اس کے علاوہ طلبہ بہار و اڑیسہ کی انجمن سجاد لائبریری کے بھی سکریٹری رہے…
مشہور علمی شخصیات کے لیے استقبالیہ پروگرام :
مولانا شفیق عالم کی یہ خواہش رہتی تھی کہ دارالعلوم دیوبند میں موجود اکابر سے استفادہ کے ساتھ اگر واردین وصادرین علماء سے استفادہ کا کوئی موقع میسر آئے، تو اس موقع کو غنیمت جانا جائے. تاکہ طلبہ کے علم وفکر کا کینوس وسیع تر ہو سکے .. چنانچہ جمعیۃ الطلبہ دارالعلوم دیوبند کے ذمہ دار کے طور پر آپ نے کءی عظیم شخصیات کو طلبہ کے مابین خطاب کی دعوت دی اور انھیں استقبالیہ پیش کیا . ان میں ایک ممتاز نام مشہور حنفی محقق، فقیہ ومحدث علامہ زاھد الکوثری کے شاگرد شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کا ہے.. شیخ ابوغدہ باوجود اپنی جلالت شان کے علماء ھند سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور ان کے علوم و افکار کے ترجمان تھے اور اسی نسبت سے آپ نے متعدد بار انڈیا کا سفر کیا ایسے ہی ایک سفر پر جب دیوبند پہنچے تو مولانا شفیق عالم نے آپ سے طلبہ دارالعلوم کے مابین خطاب کرنے کی گذارش کی… شیخ ابوغدہ نے اس درخواست کو شرف قبولیت عطا کی اور دارالحدیث میں طلبہ سے تاریخی خطاب کیا، جس میں دارالعلوم دیوبند اور اس کے اکابر خاص طور پر علامہ کشمیری کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے طلبہ کو اپنے نام ور اکابر کی طرح بننے اور اس کے لئے صبر و استقلال کے ساتھ قربانیاں دینے کی ترغیب دی.. اور وقت کی قدر دانی اور شمع علم پر پروانہ وار نچھاور ہونے کی اہمیت پر انتہائی قیمتی خطاب فرمایا… اسی طرح مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی تشریف آوری بھی دارالعلوم دیوبند میں ہوتی رہتی تھی. حضرت علی میاں ندوی دار العلوم کے معزز رکن شوری تھے اور علمی جامعیت، بزرگی وتقوی اور خاندانی نجابت میں طاق تھے. مختلف جہات سے عالمی پیمانے کی شہرت کے حامل تھے… ایک مرتبہ جب آپ کی دیوبند تشریف آوری ہوءی تو ان سے بھی طلبہ کے لیے وقت لیا اور دارالحدیث میں تاریخی خطاب ہوا جس میں دارالعلوم دیوبند کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ : دارالعلوم ایک بحر ذخار ہے اس میں تموّج پیدا کرنا ہم جیسے طالب علموں کے کے لیے آسان نہیں، تاہم چونکہ آپ نے حسن ظن کی بنیاد پر اس طالب علم کو یاد کیا ہے اس لیے میں تو اقبال کی زبانی بس یہ عرض کروں گا کہ
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
حضرت ندوی چہل قدمی کے لیے بعد عصر قاسم پورہ روڈ پر چلتے ہوئے کچھ دور تک نکل گءے. آپ کے ساتھ طلبہ کا ہجوم تھا. درمیان میں مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا. مسجدِ طریق میں آپ نے رک کر نماز ادا کرنے کی خواہش کی.. چنانچہ طلبہ نے حضرت سے امامت کی خواہش کی… آپ نے مولانا شفیق عالم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ماشاء اللہ آپ حافظ قرآن ہیں اور شاندار تلاوت کرتے ہیں آپ ہی امامت کریں.. چنانچہ مولانا شفیق نے حضرت ندوی کے حکم سے مغرب کی امامت کی اور حضرت نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی..
اس حوالے سے ایک ممتاز نام مشہور انقلابی شاعر، صحافی اور ملی قاءد شورش کاشمیری کا ہے. وہ شورش جن کے”چٹان” کو کتنوں نے ہلانے کی کوشش کی لیکن وہ تو عرب کے فلسفی شاعر ابوالطیب متنبی کے اس شعر کے مصداق تھے
اناصخرۃ الوادی اذا ما زوحمت
واذا نقطت فاننی الجوزاء
اور یہ بھی زبان زد عام تھا کہ
شورش سے بریلی کی زمین کانپ رہی ہے. یہ شورش دیوبند تشریف لائیں اور طلبہ مستفید نہ ہو ں، یہ تو ناممکن ہے … طلبہ کے اصرار پر مولانا شفیق عالم نے دعوت دی. پہلے معذرت پھر اصرار شدید کے بعد دعوت قبول ہوءی.. اور طلبہ سے جو خطاب کیا تو سماں باندھ دیا. دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا. خطابت کی طغیانی میں مزار قاسمی کانقشہ اور حضرت نانوتوی وشیخ الہند کے سراپا کی منظر کشی دس منٹ کرتے رہے..فرمایا کہ زمانے کو آگے جانے دو. آگے جانے دو پھر مزار قاسمی کی گنج گراں مایہ کی قیمت تمہیں معلوم ہوگی .. اپنے استاذ ومربی اور زمیندار کے ایڈیٹر ظفر علی خان کے ان اشعار سے دیوبند کو خراج تحسین پیش کیا کہ :
شادباش وشاد ذی اے سرزمین دیوبند
ہند میں تو نے کیا ہے اسلام کا جھنڈا بلند
ان کے خطاب کے حوالے سے مولانا شفیق عالم کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا ساحر البیان خطیب نہیں دیکھا.
مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی جو جمعیت علماء کے جنرل سیکریٹری اور ممبر پارلیمنٹ ہونے کے ساتھ دارالعلوم کے معزز رکن شوری بھی تھے انھیں بھی مولانا شفیق عالم نے جمعیۃ الطلبہ کی طرف سے استقبالیہ پیش کیا اور ان کی درخواست پر انھوں نے طلبہ سے خطاب کیا..
اسی سال جمعیۃ الطلبہ اور اس کے ذمہ داروں کی حسن کارکردگی پر حضرت مہتمم صاحب نے اس بیچ کو توصیفی سند سے نوازا تھا. اس ممتاز پیچ کے ارکان مولانا شفیق عالم کے علاوہ مولانا شمس تبریز آروی، مولانا عرفان بھوپالی، مولانا سید احسان اللہ بنگلوری اور مولانا عتیق الرحمن تھے…. وقت نے بتایا کہ ان میں سے ہر ایک” ایں خانہ ہمہ آفتاب است” کے مصداق تھے.
امیر التبلیغ حضرت مولانا یوسف کاندھلوی کے ساتھ جماعت میں :
دارالعلوم دیوبند سے نسبت رکھنے والے اکابر نے جو مبارک تحریکیں بر پا کیں ان میں تبلیغی جماعت ایک ممتاز تحریک ہے، جو امت مسلمہ میں سوز دروں، فکر عمل، جوش عبادت پیدا کرنے اور ظاہر وباطن کو سنوارنے میں اپنی مثال آپ ہے… اس کے امیر داعی الی اللہ حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی صاحب کی دارالعلوم دیوبند میں اس تحریک کے تعارف اور تشکیل کے سلسلے میں تشریف آوری ہوءی.. متعدد طلبہ جنھوں نے نقد نام لکھوایا ان میں مولانا شفیق عالم بھی شامل تھے. یہ جماعت امیر تبلیغ کی امارت میں دیوبند کے قریبی بستی نونہ باڑی نامی بستی پہنچی اور تین دن مکمل کرکے واپس لوٹی.
مولانا کی شہادت ہے کہ میں نے بین طور پر محسوس کیا کہ ذکر اللہ کی گرمی سے ان کا سینہ دھونکنی کی طرح دھونک رہا ہے اور اس سے اسم ذات کی صدا واضح طور پر محسوس ہوتی تھی. تنہائی اور خلوت میں یہ آواز اور تیز ہوجاتی تھی.
علامہ ابراہیم بلیاوی رح کی نصیحت..
ایک مرتبہ جامع المعقول والمنقول علامہ ابراہیم بلیاوی نے مولانا شفیق عالم سے گوشت لانے کو کہا. مولانا بازار گئے اور دو کلو گوشت لاکر انھیں پیش کر دیا.. حضرت علامہ نے پوچھا مولوی صاحب کتنے کے لاءے انھوں نے کہا کہ اتنے کے… علامہ نے پوچھا دکان دار نے کتنے کا کہا اور تم نے کتنے کا کہا.. انھوں نے کہا کہ جتنا اس نے مانگا میں نے دے دیا… حضرت نے اس پر ناگواری ظاہر کی اور پھر محبت سے سمجھایا کہ مولوی صاحب! مول تول کرکے سودا خریدنا چاہیے، اگر بیوقوف نہیں بننا چاہتے ہو تو کءی دکان سے پوچھو. معاملہ کرنے میں جب پسینے اترنے لگیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت وبرکت نازل ہوتی اور قلبی اطمینان بھی میسر آتا ہے…مولانا بتاتے ہیں کہ میں نے علامہ کی نصیحت کو گرہ باندھ لیا اور اور تجارتی زندگی میں اس سے کافی فائدہ اٹھا یا.
حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی نے آپ کو تمام کتب حدیث :بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، موطین اور طحاوی کی اجازت دی اور اپنی خصوصی سند عطا کی جس پر ٢٤/شعبان ١٣٨٥ ھ درج ہے.. اس کا عنوان ہے. الاجازۃ المسندۃ لساءر کتب الحدیث عن شیخ المعقول والمنقول مولانا محمد ابراہیم البلیاوی، صدر المدرسین بدار العلوم الدیوبندیۃ…… آگے مضمون یہ ہے :فلما استجازنی الاخ فی اللہ المولوی محمد شفیق عالم النیموی ابن محمد مقصود علی المونگیری عن کتب السنن المتداولۃ مما قرء علی وعلی من اثق بھم من اساتذہ دارالعلوم حسب مااجازنی استاذی الکامل استاذ الاساتذہ وقدوۃ الجھابذہ شیخ الھند مولانا محمود الحسن……. آگے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک سند کے دو طرق ذکر فرمایا اور آگے لکھا کہ واسانید الشیخ عبد الغنی مذکورہ فی” الیانع الجنی ” فاجیز الاخ المولوی محمد شفیق عالم النیموی بامہات الست وغیرھا المتداولۃ فی دارالعلوم واوصیہ وایای بتقوی اللہ…. مذکورہ سند کو اب (٥٧)سال ہورہے ہیں… اتفاق کی بات ہے کہ اس خصوصی سند میں "الیانع الجنی” کاتذکرہ ہے، اس کے مصنف مشہور محدث علامہ محمد محسن بن یحییٰ الترھتی خضرچک بیگوسرائے کے رہنے والے تھے اور مولانا شفیق عالم کا وطن بھی بیگوسرائے ہے.
ملا اعلی میں دارالعلوم کی ہانڈی ۔
حکیم الاسلام قاری محمد طیب عام طور پر حجۃ اللہ البالغہ کا درس دیا کرتے تھے. اس کتاب میں ایک عنوان ہے "باب ذکر الملا الاعلیٰ… اس کے درس میں ملا اعلی کی تشریح کے درمیان اپنے والد بزرگ وار حضرت حافظ محمد احمد صاحب کے حوالے سے فرماتے تھے کہ حضرت حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتوی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے دارالعلوم کی ہانڈی ملا اعلی میں سو سال کے لئے پکاءی ہے. جب یہ عاجز (شفیق عالم) حضرت سے اس کا واضح مطلب پوچھتا تو آپ معنی خیز انداز میں مسکرا دیتے اور فرماتے کہ اس کی عملی تعبیر کیا ہوگی یہ سوسال کی تکمیل پر ہی واضح ہوگا… اللہ کی شان کہ اجلاس صدسالہ کے بعد دارالعلوم دیوبند میں جو قضیہ نامرضیہ پیش آیا اس نے واضح کردیا کہ حضرت کا مطلب کیا تھا! سبحان اللہ!
مولانا شفیق عالم کا اخیر کے دوسالوں تک لگاتار یہ معمول رہا کہ مغرب بعد تا عشاء حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب کے گھر” کاشانہ طیب” پر منعقد خاص علمی مجلس میں مسلسل شریک رہتے تھے اور ان کی زبان حق ترجمان سے نکلے والے انوار وحکم اور علوم ومعارف کے لولوء وجواہر سے اپنے دامان فکر و نظر کو سیراب کرتے رہے .
یہ وہ نورانی شخصیات تھیں جن کے بارے میں تو صرف یہی کہا جاسکتا ہے
پیدا کہاں ہیں ایسے فرشتہ مزاج لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
(جاری)
…………………………………………
رکن الاتحاد العالمی علماء المسلمین ،دوحہ قطروصدر جمعیۃ علماء ہند بیگوسرائے
Comments are closed.