لاک ڈاون میں میرے معمولات اور حضرت مفتی عبدالرشید صاحب متعنااللہ بطول حیاتہم (خلیفہ:محی السنۃ حضرت اقدس مولانا ابرارالحق صاحب، ہرودئی، نوراللہ مرقدہ) سیو ، ضلع ودیشہ(ایم پی) کی خدمت میں حاضری

بقلم: (مفتی) محمداشرف قاسمی

تقریبا ایک ماہ سےشہر کے دواشخاص کا اصرار تھا کہ میں ان کی معیت میں حضرت مفتی عبدالرشید صاحب کی خدمت میں سیو ضلع ودیشہ (ایم پی) چلوں۔ حضرت کی زیارت اور ملاقات بندہ کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے۔ اس لیے ان کے اس قسم کے مطالبہ اور اصرارپر طبیعت میں کافی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ لیکن وہاں کے سفر کے لیے میں دو وجوہات(ایک ہمارے اکیڈمی ورک کی مصروفیت۔ دوسرے ایک ڈیڑھ سال قبل میرا ہائڈروسل کا آپریشن ہوا تھا، جس کے لیےمجھے Spinal anaesthesia کا انجیکشن لگاتھا۔ اس انجیکشن سے مستقل کمر میں درد رہتا ہے۔ نصف ساعت بھی کمر میں بغیر ٹیک لگائے نہیں بیٹھ سکتا ہوں۔
کرسی یا گاڑی کی سیٹ وغیرہ جس میں کولہے Hip کے اوپر کوئی نرم تکیہ نہ ہو تو بھی میں بے حال ہوجاتا ہوں۔جن) کی وجہ سے
میں وہاں کے سفر کے لیے تیار نہیں ہوپارہا تھا۔ کیوں کہ اس سفر میں تقریبا 5گھنٹےمجھے گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر سفر کرنا تھا۔ جس میں ہمارے اسپائنل بون پر کوئی ٹیک اور سہارا شاید نہ ملے۔ اس خیال سے ہی میں بے چین ہوجاتا تھا۔لیکن رفقاء کے اصرار پر میں نے اپنے اکیڈمک ورک کو موخر کرکے 26ستمبر کی شب میں اپنے برادر بزرگوار حضرت مولانا محمد معظم صاحب قاسمی متعنا اللہ بطول حیاتھم کی کتاب ” قندیل رہبانی،خانقاہ نعیمیہ (بہرائچ، یوپی،انڈیا) کے مہر وماہ کا تذکرہ” کے نوک وپلک کودرست کیا اور کچھ کام رہ گیا تو پھر بوقت تہجد 4بجے پورا کیا۔
ایک استفتاء کاجواب بھی لکھا تھا،لیکن ہمارے دارالافتاء کے ایک رفیق مفتی محمد سلمان ناگوری نے بذریعہ فون بتایا کہ حاشیہ نمبر3میں شامیہ کی عبارت نقل کرنے میں کچھ املاء کی غلطیاں ہیں۔ میں اس عبارت پر اطمنان کے لیے شامیہ کی طرف مراجعت کی کوشش کرہی رہا تھا کہ رفقاءسفر کے فون آگئے کہ گاڑی باہر کھڑی ہے۔ اسی اثنا شریک حیات نےچائے اورروٹ میز پر لاکررکھ دیا۔عجلت میں نہ پوری ایک کپ چائے پی سکا نہ ہی روٹ کاذائقہ لے سکا۔
مین گھر سے ایک چھوٹی سی تکیہ لے کر نکلا کہ سیٹ پر لگا لوں گا۔باہر نکلا تو معلوم ہوا کہ گاڑی اور اس کی سیٹ کافی آرام دہ ہے۔ ہم نے فتح مسجد (بس اسٹینڈ، مہدپور) میں پانچ بجکر 20منٹ کی جماعت میں شریک ہوکرنماز فجر ادا کی۔ اور نماز کے بعد حضرت اقدس مفتی عبدالرشید دامت برکاتہم کو بذریعہ فون اپنی روانگی کی اطلاع دی۔ مفتی صاحب نے راستے کی معلومات فراہم کی، جس میں ایک بات یہ بتائی کی نیٹ پر(مسجدِابرار سیو( Majsjideabrar Seu) کسی نے ڈال دی ہے، اس سے بھی راستے کی رہنمائی ہوجائے گی۔
ہم نے دوسرے کچھ لوگوں سے راستے کی معلومات لی۔ لیکن اصل معلومات کا انحصار نیٹ پر رہا ہے۔ نیٹ پر مختلف راستے اور مسافت میں سے ایک راستہ جس کی مسافت 284کلو میٹر تھی۔ دعا پڑھ کر اس کے مطابق
سفر کاآغاز کردیا گیا۔
کچھ آگے بڑھتے ہی میرے موبائل میں ماہ صفر سے متعلق میرے ایک فتوے پر نظر پڑی،جسے تحفظ سنت گروپ کے منتظم مولوی محمد مدثر خان صاحب نے دیوناگری رسم الخط میں لکھوادیا تھا۔ میں نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد سوشل میڈیا کے مختلف گروپس پر سینڈ کیا۔ پھر خیال تھا کہ بھائی و بھتیجہ کے لیے وصیت سے متعلق فتوی پر نظرثانی کرکے اسے حوالہ گروپس کروں، لیکن شامیہ کی طرف دوبارہ مراجعت نہ کر سکنے کی وجہ سے اسے مؤخر کردیا۔ اور ایک دوسرا فتوی "زندگی میں کسی ایک لڑکی لڑکے کو جملہ جائیداد دینے سے متعلق” فتوی کے نوک وپلک کو درست کرکے حوالہ گرو پ کیا۔ پھر محترم ابوالحسن صاحب نے مجلس شوریٰ کے تعلق سے ایک استفاء اورجواب لکھنے فرمائش کی۔ جسے میں نے راستے میں ہی تحریر کردیا۔ اور چوں کہ مقامی معاملات کے تعلق سے سوال تھا اس لیے اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے اسےدیوبند یا شاہی بھیجنے کا فیصلہ لیاگیا۔ لیکن جواب کی جلدی تھی اس لیے میں نے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کے عزیز شاگرد جناب مفتی محمد زبیر ندوی کو بہرائچ ارسال کردیا۔
نیٹ کے اشارے پر گاڑی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ کئی بارحضرت مفتی صاحب کا فون آیا۔ آخر کار ہم منزل پر پہونچ ہی گیے۔ ایک چھوٹا ساگاوں، دشت و کوہسار سے زیادہ بہترنام سے اس بستی کا نہیں ہوسکتا، اس بستی کواس کے علاوہ کسی دوسرے نام سے نہیں موسوم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اہل حق کے اختصاص واخلاص کی دولت نے دشت وبیابان کو بھی مرجع خلائق بنادیا۔ مدرسہ کی دیواروں پر پلاسٹر نہیں، مسجد کے اوپر صرف مسجد کی علامت کے طور پرچھوٹے چھوٹے مینارے ہیں، مفتی صاحب نے گاڑی دیکھتے ہی کھڑے ہوکر ہمارا استقبال کیا۔ سلام مصافحہ اور معانقہ کے بعد مہمان خانہ ( بغل ہی میں قدیم طرز کے لیٹ باتھ اٹیچ ایک چھوٹے سےکمرہ ) کی طرف کسی کی معیت میں روانہ کردیا۔ دوسرے زائرین کو رخصت کرنے کے بعد ہم لوگوں کو آپ کے فرشی دربار میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت کی تپائی کے سامنے جہاں طلباء یا دیگر زائرین بیٹھتے ہیں،وہیں دری پر راقم الحروف بیٹھنے کے لیے منحی ہوا ہی تھا کہ ایک مصلی لے کر حضرت والاحاضر ہوئے اور مجھے بیٹھنے کے لیے اس مصلی کو بچھادیا، میری اپنی بے وقعتی کے باوجود حضرت کی طرف سے اس طرح میرا لیے محبت آمیز رویہ دیکھ کر میں شرم سے پانی پانی ہواجارہاتھا۔
حضرت نے ہمارے دونوں رفقاء سفر سے فرمایا کہ میں آپ لوگوں سے اطمنان سے گفتگو کروں گا، اور آپ کی ہربات تفصیل سے سنوں گا، لیکن تھوڑی دیر میں مفتی صاحب (بندہ راقم الحروف ) سے بات کر لوں۔
گفتگو میں میرے احوال و خیریت معلوم کیا۔ پھر اپنا معمول بتا کہ۔ لاک ڈاؤن میں مدارس بند ہیں، طلباء کی تعلیم کا کافی نقصان ہو رہا تھا۔ اس نقصان سے عربی درجات کے طلباء کو محفوظ رکھنے کے لیےعلاقہ، ضلع و مضافات کے مدارس کی میٹنگ ہوئی، جس میں ایک بڑے مدرسہ کے بارے میں میں نے کہا کہ: یہاں جماعت پنجم تھی، ان کو دیوبند وغیرہ مرکزی مدارس میں درجہ ششم کے لیےجانا تھا۔ وہ دیوبند نہیں جاسکے تو اسی مدرسہ میں ششم کہ کتابیں شروع کردی جائیں۔
اورچہارم کے بچوں کے لیے پنجم کی جماعت قائم کی جائے جیساکہ پہلے سے قائم ہے۔ اس طرح تمام جماعتیں قائم کی جائیں، اور جماعت کے لحاظ سے الگ الگ مدارس میں بچوں کو بھیجا جائے، جماعت اول اور فارسی کے بچوں کی تعلیم کو حسب معمول اپنے متعلقہ مدارس میں ہی شروع کرائی جائے۔ اس رائے کو پسند کیا گیا، اسی مشورہ کے تحت درجات کو مختلف مدارس میں تقسیم کے وقت درجہ چہارم کے طلباء کو میرے مدرسہ میں بھیجا گیا، میرے ذمہ تین کتابوں کی تدریس ہے۔”
پھرمجھ سے پوچھا: لاک ڈاون میں آپ کے تجربات اور معمولات کیا ہیں؟
جواب: موسم گرما کی تعطیلات میں کئی ایک رسالے اور کتابیں لکھنے کا خاکہ تھا۔ جس میں ملک کے بڑے علماء کے مشورے سے "رام راج، خاکہ، نصب العین” نامی کتاب لکھنے کی پوری تیاری ہوچکی تھی۔
14مارچ کو ہمارے یہاں فرقہ وارانہ فساد ہوگیا، مسلم نوجوانوں کی مسلسل گرفتاریاں ہورہی تھیں۔انھیں حالات میں میں مع اہل وعیال دو ایک دن کے لیے 21مارچ کو مکسی ضلع شاجاپورچلاگیا۔ 22مارچ کو عوامی لاک ڈاؤن کااعلان ہوا، پھر اس کے بعد پورے 55دنوں تک میں اپنے مستقر سے دور مکسی میں
رہا۔ جب گھر کی طرف باز گشت ہوئی تو گھر میں ہی 14دن کے لیے رسمی کورنٹائن رہا۔ ان حالات میں پہلے سے تیار منصوبہ کے مطابق کام نہیں کر سکا۔ البتہ ہمارے سلسلہ کے بزرگ اورہمارےدینی ودنیاوی محسن حضرت مولاناسید نعیم اللہ شاہ بہرائچی علیہ الرحمہ کی طرف منسوب "خانقاہ نعیمیہ،بہرائچ” کے فیوض وبرکات اوراس کے مہر و ماہ اور نقشبندیہ بزرگوں کے تذکروں پر مشتمل کتاب لکھنے میں مصروف ہو گیا۔ (اسی کے ساتھ جدید ادبی دنیا میں سرکاری اہمیت کی حامل بعض تحقیقی وتاریخی تحریریں بھی لکھنے میں برابر مصروف ہوں، لیکن حضرت کے سامنے اپنی اس غیرمفید مصروفیت کاتذکرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا، کیوں کہ مجھے احساس ہے کہ ہماری یہ محنت سونے کی کدال سے گھورکھودنے کے مترادف ہے۔)
اورشب روز کی مصروفیت کچھ اس طرح ہے کہ۔
فجر کی نماز کے بعد امام مسجد یا اورکچھ لوگوں کے ساتھ چائے کے ایک ہوٹل تک آتاہوں، وہاں چائے نوشی کے بعد گھر پہونچتا ہوں، کچھ قران مجید کی تلاوت کرتاہوں، تلاوت کے بعد لکھنے پڑھنے میں مصروف ہوجاتا ہوں، آٹھ بجے تک انفرادی لکھائی پڑھائی کرتاہوں، اسی اثنا ہمارے بچے میری میز پرچائے، روٹی، ٹوس لاکر رکھ دیتے ہیں۔ میں ایک طرف مختصر ناشتے سے فارغ ہوتاہوں، دوسری طرف محلہ کے کچھ بچے ایک ورقی عربی حروف تہجی کی تختی،قاعدہ بغدادی، نورانی قاعدہ، یسرن القرآن، ہماری کتاب اردو، ہندوستانی قاعدہ اردو، وغیرہ کتابیں لے کر ہمارے بچوں کے ساتھ میرے
گھرپرحاضرہوجاتے ہیں۔
ان چھوٹے بچوں کو میں نے ان کے والدین سے بات کرکے اپنے گھر پر بلوایا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے بچے بھی پڑھتے ہیں۔ چھوٹے بڑے تقریبا پچاس طلبہ و طالبات کو پڑھاتاہوں۔جن میں کچھ قرآن پاک ناظرہ پڑھتے، بعض طلباء کچھ سورتیں حفظ کرتے، مفتاح العربیہ اور دوسری کتابیں پڑھتے ہیں۔
مجموعی طورپرجودرسی کتابیں لاک ڈاون کے موقع پر میں پڑھاتا ہوں،وہ ان مذکورہ کتابوں کے علاوہ اس طرح ہیں۔
تعلیم الاسلام (اردو،ہندی) مسنون دعائیں،(اردو،ہندی)۔
شاہنامہ اسلام اردو،
رحمت عالمﷺاردو۔
ہمارے حضورﷺ ارد۔
اختری بہشتی زیور۔ اردو۔
(اوراس کا عربی حاشیہ اپنی بچی صفیہ کوپڑھاتا ہوں۔)
اردوریڈر(ایم پی گورنمنٹ کی ) درجہ اول تا ششم۔
مفتاح العربیہ، مکمل،
منہاج العربیہ مکمل،
مفتاح القرآن، مکمل،
قصص النبیین مکمل۔
علم الصرف،
علم النحو،
تمرین النحو،
تمرین الصرف،
آسان نحو مکمل،
آسان صرف مکمل،
میزان ومنشعب،
نحومیر،
معلم الانشاء، حصہ اول۔
مالابد منہ،
نورالایضاح،
قدوری۔(اپنی نور نظرعزیزی صفیہ بی سلمھا کو پڑھا ہوں)
جنرل انگلش ریڈر، اول تا ہفتم(محکمہ تعلیم ایم پی گورنمنٹ کی تیار کردہ)
جنرل ہندی اول تا پنجم ( محکمہ تعلیم،ایم پی گورنمنٹ کی تیارکردہ).
تعلیم کی شکل ہوم ٹیوشن جیسی ہوجاتی ہے۔ لیکن میری طرف سے کسی بچے یا والدین سے کبھی بھی فیس یاہدیہ کا مطالبہ نہیں رہتا ہے۔ (بعض بچوں اور والدین کو ماہانہ ہدیہ دینے سے میں نے روک رکھا ہے۔)ان کتب کے علاوہ بھی کچھ کتابیں اپنے بچوں کو پڑھاتا ہوں۔
اوران بچوں و کتب کی تعلیم کے لیے :صبح آٹھ سے ساڑھے دس تک اور پھر مغرب سے عشاء تک کا وقت مقررکررکھا ہے۔ اگربڑی کتابوں میں کسی بچے کا سبق یاد نہیں ہوتا ہے تو اسے دوسرے وقت گھر پر بلاتا ہوں۔ رات و دن میں کسی وقت عربی کتابوں کے دروس کی آڈیو ریکارڈنگ کرکے بچوں کے والدین کو سینڈکرتاہوں۔طلباء آڈیورکارڈنگ سن کراپنے اسباق یاد کر لیتے ہیں۔
نیز بعض عربی معلمین بھی درسی کتب کی بعض چیزیں حل کراتے ہیں۔ جنہیں آڈیو ریکارڈنگ کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
دن میں ساڑھے دس گیارہ کے بعد کھانا کھاتا ہوں، اور پھر آرام کرتا ہوں۔ اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کرکے انفرادی مطالعہ اور لکھنے پڑھنے میں مصروف ہو جاتا ہوں۔ عصر کی نماز کے بعد کا وقت ملنے جلنے والوں سے ملاقات اور بازار سے سودا سلف لانے کے لیے فارغ رکھتا ہوں۔لیکن عصر کے بعد بھی عربی کے وہ بچے آجاتے
جن کے اسباق دن میں رہ گیے ہوں۔ اس طرح یہ ملاقات کا وقت بھی بچوں کی تعلیم میں مصروف ہوجاتاہے۔ عشاء کے بعد فورا سونے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور اکثر عشاء کے بعد ہی سو جاتاہوں۔ یہ لاک ڈاون میں میرے شب و روز کا معمول ہے۔ لاک ڈاون کے معمولات وتجربات میں کچھ باتیں ایسی ہیں جنھیں میں تحریری شکل میں ضبط کروں گا۔ان شاء اللہ
کیوں کہ کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بہت زیادہ اپنی ذات پر کام کا بوجھ ڈالتا ہوں۔ اتنا مصروف رہتا ہوں کہ اپنے عزیز و اقارب سے فون پربھی بات نہیں کرپاتا ہو ں ۔ حتی کہ بسا اوقات میرے معصوم بچے میرے اردگرد اپنے ابو سے بات کرنے کے لیے گھومتے رہتے ہیں۔ لیکن میں ان کو بھی وقت نہیں دے پاتا ہوں۔(اوپر پیش کی گئی درسی کتب پر سنجیدہ اور منطقی تبصرہ تقریبا دوڈیرھ سو صفحات پر مشتمل اپنی یادداشت”لاک ڈاون کی کچھ یادیں” میں لکھوں گا۔ ان شاء اللہ )
حضرت مفتی صاحب دامت برکاتہم نے ہماری گفتگو سننے کے بعد فرمایا ماشاء اللہ اور پھردعاؤں سے نوازا۔
اسی اثنادوسرے ملاقاتی اور زائرین آتے رہے سب کو مہمان خانہ میں انتظار کے لیے بیٹھنے کا حکم فرماتے رہے۔ ہمارے لیےدوپہر کے کھانے کادسترخوان حضرت مفتی صاحب نے سجایا۔ اور فرمایاکہ تفریحی پارٹیاں لوگ جنگل میں مناتے ہیں۔ اس جنگل کے ماحول میں یہ پارٹی کا کھانا ہے۔
کہنے اور دیکھنے میں دسترخوان بالکل سادہ بالکہ دہقانی نوعیت کا تھا۔ لیکن کھانے میں ایسی لذت ومحبت کااحساس ہوا کہ مجھے پچیس تیس قبل دیہات میں اپنے والدہ کے ہاتھ کی موٹی لیکن ممتا و پیار اور شفقت سے لبریز روٹیوں کی یاد تازہ ہوگئی۔مفتی صاحب اپنے گھرسے لالاکر ایک کے بعد ایک سامان طعام دسترخوان پررکھے جارہے تھے۔ سالن میں پرور کی سبزی، بڑے کا قیمہ، بکرے کا سالن، بڑی بڑی اور موٹی موٹی روٹیاں، چاول، مٹھائی میں باریک نقطی کے تازہ لڈو، اورایک پلیٹ میں نقطی،مزید تل وگڑ کی بنی تین قسم کی مٹھائیاں۔ نمکین میں نمک مکچر وکرکرے تھے۔
میں نے بہت ہی شوق ورغبت سے کھانا کھایا۔ الحمد للہ علی ذالک، اللھم اطعم من اطعمنی واسق من سقانی۔
ظہر کی نمازپڑھ کر واپسی کا پروگرام طے ہوا۔ دو بجے مدرسہ کی مسجد میں ظہر کی جماعت ہوتی ہے۔ ہم باجماعت نماز کے لیے مسجد ابرار پہونچ گیے، اسی مسجد کے نام کو سرچ کر کے راستہ میں کہیں بھی کسی سے بغیر کچھ پوچھے ہم یہاں تک پہونچے تھے۔ اس مسجد کی فرش پر معمولی قسم کا پلاستر ہے۔ پرانی قسم کی دریاں اور صفیں بچھی ہیں۔ جس کسی نے دست نبوت سے تعمیر ہونے والی
مسجدنبوی اور خلفاء راشدین کے دور کی مسجد نبوی کی تاریخ پڑھی ہوگی وہ اِس مسجد، اس کے فرش اورمصلوں کو دیکھ کر دور نبوی اور خیر القرون کے دور کی مسجد نبوی کے رنگ اور روحانیت کو اس مسجد میں ضرور محسوس کرےگا۔ نمازظہر کی امامت حضرت مفتی صاحب نے خود فرمائی۔ سلام پھیرتے ہی میری طرف متوجہ ہوکرفرمایا کہ” دس بارہ منٹ کچھ بیان کردیں۔”
میں صرف استفادہ اور اکتساب فیض کے لیے وہاں حضرت کی خدمت میں حاضر ہواتھا،اس لئے ذہنی طور پر بیان کے لیے بالکل تیارنہیں تھا۔ لیکن حضرت کی فرمائش کو حکم سمجھ کر انھیں سبق سنانے کے لیے میں نے حامی بھرلی۔ جب لوگ سنتوں سے فارغ ہوگیے تومفتی صاحب نے خود اپنے ہاتھ سے کرسی لگائی اور کرسی پر موٹا کپڑا بچایا۔ اور مائک آن کیا۔ میں کرسی کی طرف بڑھا۔ لیکن مفتی صاحب کھڑے ہوکر میرا تعارف کرانے لگے۔ تعارف کے کچھ جملے میرے حق میں ایسے استعمال فرمائے کہ جنھیں میں بزرگوں کی دعا ہی سمجھتا ہوں، ان محبت بھرےالفاظ وجملوں کو سن کر میں آمین کہتا رہا اوراللہ سے دعاکرتاہوں کہ اللہ تعالی بزرگوں کی زبان سے نکلے ہوئے ان الفاظ کو واقعہ بنا دے۔ میرا تعارف کراتے ہوئے اولا یوپی کے علماء وعوام کی دینی وملی خدمات کو بیان فرمایا، پھرمیرا تعارف کرایا،جس میں فرمایا کہ:
"یہ ملک کے چوٹی کے علماء میں سے ہیں۔پورے ایم پی میں صرف دو عالم ہیں جو تصنیف وتالیف کے میدان میں اتنے پڑے پیمانے پر کام کرتے ہیں۔ ایک مفتی محمد اشرف صاحب(بندہ راقم الحروف)دوسرے ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی۔”
پھرحضرت نے مجھے دعوت اسٹیج دی۔ میں نے اپنے دینی واصلاحی مفاد اورسامعین میں عوام و علماء دونوں کے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے آیت کریمہ
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (32)فاطر.
کی مختصرتشریح پیش کی۔ اور اپنی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی کی۔ (جسے دو ایک دن کے بعد صاحب زادے چودھری محمد انس سلمہ یو ٹیوب پرڈال دیں گے۔ ان شاءاللہ)
نماز ظہر کی ادا ئیگی اور بیان کے بعد کئی لوگ سلام ومصافحہ کرنے لگے۔ کچھ لوگ میرا نام لے کرکہتے” آپ ہی مفتی محمد اشرف ہیں۔ ”
پھر ہماری روانگی ہوئی ،سلام ومصافحہ اور معانقہ کرکےگاڑی میں بیٹھ جانے کے بعد حضرت والا اپنے مسند سے دوبارہ گاڑی کہ طرف تشریف لائے اور حضرت تھانوی رحمة الله عليه کا ایک کتابچہ”علماء کرام سے خطاب ” ہدیہ کہتے ہوئے عطا فرمایا۔
سفرِ واپسی کی شروعات تین بجے ہوئی، دونوں رفقاء سفرکے موبائل کی بیٹری تقریبا ڈسچارج ہورہی تھی۔ میرے موبائل میں گاڑی کاجارجر پن لگ گیا، اس لیے واپسی میں میرا موبائل ڈسچارج نہیں ہوا۔ جس کا مجھے یہ فائدہ ہوا کہ سفر کی روداد میں سے کچھ باتیں میں موبائل کے ذریعہ راستہ بھر لکھتارہا۔ حضرت سے گفتگو میں دو باتیں بہت اہم معلوم ہوئیں۔ ایک”موجودہ نکبت و وپستی سے مسلمانوں کے نکلنے کاراستہ۔ دوسرا:اردو اوردوسری زبانوں کی تعلیم۔
پہلے موضوع پرحضرت سے ہوئی اپنی گفتگو کو میں نےلکھنا شروع کیا۔بیرسیا(ضلع:بھوپال) ہائی وے پر بنی ایک نئی مسجد تک پہونچتے پہونچتے اسے مکمل کر لیا۔ اذان مغرب سے دس پندرہ منٹ قبل ہم اس مسجد میں پہونچ گیے وہاں عصرکی نماز ادا کی، تھوڑی دیر کے بعد مغرب کی اذان ہوئی، باجماعت نمازمغرب کی ادا ئیگی کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے۔ اوردوسرے موضوع پر لکھنا شروع کردیا۔ شاجاپور سے چھبیس کلو میٹر پہلے میں نے اس مضمون کو بھی مکمل کرلیا۔ یہاں معلوم ہوا کہ رفقاء سفر کے موبائل کی بیٹری ڈسچارج ہوچکی ہے۔ اورہم راستہ بھٹک گیے ہیں۔ پہلے بھی کچھ اشاروں میں رفقاء نے میرے موبائل سے نیٹ کے راستہ کی رہمنائی چاہی تھی، لیکن میں توجہ نہیں دے سکا تھا۔ لیکن ایسے حالات میں تو بہر صورت راستہ کی معلومات کے لیے اپنا موبائل چھوڑنا پڑے گا۔ چنانچہ میں نے اپنا موبائل ان لوگوں کے حوالے کردیا۔ موبائل سے وہ رہنمائی حاصل کرتے ہوئے جانب منزل روانہ ہوگیے۔ یہی روداد سفر مجھے پہلے لکھنا تھا، لیکن خیال تھا کہ شاجاپور سے مہدپور تک میرے موبائل پر یہ مضمون بھی مکمل ہوجائے گا۔ اس لیے پہلے اور بعد کے بجائے جس مضمون پر ذہن چل رہا تھا، اسی مضمون کو میں نے لکھنا شروع کردیا۔ اور یہ پہلا مضمون ایک دن کی تاخیر سے اب تیار ہورہا ہے۔
اللہ تعالیٰ بزرگوں کے سائے کو تادیر قائم رکھے اور ان سے استفادہ کی توفیق ارزانی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

کتبہ محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء: شہر مہد پور، ضلع اجین، ایم پی۔
شب 28ستمبر2020۔

[email protected]

Comments are closed.