اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی

شاداب انظار ندوی
اردو ہندوستان کی شیریں زبان ہے جس نے اس ملک کی تہذیب وثقافت کو بچا کر رکھا ہے ۔گلاب کا رنگ خوشبو لیے ہوئ ہے اردو زبان گوشے گوشے میں کثرت سے بولی جاتی ہے یہی وجہ ہے کے اردو ہندوستان کی شان ہے اسکا اپنا ہی ایک دلکش انداز ہے یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اپنے اندر آبشاروں کا ترنم، کوئل کی میٹھی کوک، گلاب کی خوشبو، سمندر کی گہرائی اور حنا کی خوشبو لیے ہوئے ہے۔ اردو زبان خدا کی اس وسیع و عریض کائنات کے گوشے گوشے میں بولی جاتی ہے اسکی حلاوت دو دلوں کو آپس میں جوڑنے کا کام کر تی ہے یہ رشتوں کو بخوبی نبھاناجانتی ہے اردو میں ایسی شیرینی اور لطافت ہے کہ غیر اردو دان طبقہ بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ اس زبان کی معصومیت لوگوں کے نظریات اور دل دونوں بدل دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کے اردو ہندوستان کا غرو اور اسکی ایجادات میں سے ایک ہے۔
اردو نےہندوستان کے نام کو چار جہان عالم میں روشن کیا ہے اور پوری دنیا میں ہندوستان کو پہچان دی ہے زمانہ دراز تک ہندوستان کی سرکاری زبان رہی اور آج بھی زمینی کاغذات پر اس کے نقش و نگار کندہ ہیں عدالت میں آج بھی اس کے الفاظ گونجتے ہیں۔ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کا ثبوت ہے وہ کچھ عرصے سے ہندوستان میں چھوا چھوت کا شکار ہو چکی ہے ۔اپنے ہی لوگ اسکو درگور کرنے کی وجہ تلاش کر رہے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے کسی اور ملک سے آکر یہاں بس گئ ہو ۔
جب کے اردو، جنوبی ایشیا کی ایک اہم اور بڑی زبان ہے۔ بر صغیر ہند کی آزادی کے بعد سے اس زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہ ہندوستان کی اٹھارہ (18) قومی زبانوں میں سے ایک ہے۔ اور تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو اردو کی ابتدا بارہویں صدی کے بعد مسلمانوں کی آمد سے ہوتی ہے ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقریباً 4 کروڑ40 لاکھ ہے۔ سب سے زیادہ اردو بولنے والے اُتر پردیش میں ہیں۔ اس کے بعد بہار، آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور کرناٹک کا نمبر آتا ہے۔ مشترکہ پورے ملک میں اردو بولنے والوں کی 85، فیصدی آبادی رہتی ہے۔صوبائی سطح پر اردو ذیل کی ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان ہے۔ یعنی پہلی سرکاری زبان علاقائی زبان ہے تو دوسری سرکاری زبان اردو ہے۔
۔ ۔ دہلی ۔اتر پردیش ۔بہار۔ تلنگانہ ۔آندھرا پردیش مغربی بنگال ۔
۔ ہندوستان میں بہت ایسے شہر ہیں جس کو لوگ اردو کے نام سے ہی جانتے ہیں دہلی لکھنؤ حیدرآباد کلکتہ ۔بھوپال اور بھی بہت سارے شہر ہیں ۔
یہی نہیں بلکہ ہندو مذہب کی بہت ساری کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے جیسے
راماین – (مغل سلطان اکبر کے دور میں)
مہا بھارت – رزم نامہ (مغل سلطان اکبر کے دور میں)
بھگوت گیتا – نغمئہ یزدانی۔ الہ آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اجے مالوی نے گیتا کو سنسکرت سے اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ اس طرح کے تراجم سے دو مذہبوں کے پیروکاروں کے درمیان اچھے رشتے قائم ہوں گے اور ہم آہنگی پیدا ہوگی۔
شہردہلی ابھی بھی اردو ادب اور طباعت کا بڑا مرکز ہے جب اتنی بڑی تعداد اردو بولنےوالوں اور سمجھنے والوں کی ہے تو کیوں حکومت اردوکے ساتھ سوتیلا پن دکھا رہی ہے ۔ اور چاہتی ہے کہ اسکولوں کے نصاب سے اردو کو ہٹا دیا جائے ۔
آخر کیوں اس ملک کی حکومت کے آنکھںوں میں ہی کھٹکتی ہے جبکہ یہ ہندستان میں پیدا ہوئ اور پروان چڑھی اور ہندستان کو پوری دنیا میں متعارف کرایا ۔اسی کی آغوش میں منشی پریم چند پروان چڑھے اور ابھی دورجدید میں ڈاکٹر اجے مالوی اردو کے ایک ایسے ادیب ہیں، جنہوں نے اردو میں ہندو مذہب کو پیش کرکے اردو کو مسلمان بنانے والوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے اور ان کو یاد دیلا یا ہے کے اردو ہندوستان کی زبان ہے مسلمانوں کی نہیں وہ الہ آباد کے قدیم تعلیمی ادارے اینگلو بنگالی کالج کے شعبہ اردو کے سر براہ ہیں۔ ان کا تعلق عظیم مجاہد آزادی پنڈت مدن موہن مالوی کے خانوادے سے ہے۔
۔ ۔ ۔ بی بی سی نیوز نے ہندوستانی سنیما کے سوسال پورے ہونے کے موقعے سے یہ خبر ٣مارچ٢٠١٢میں شائع کی کے مشہور نغمہ نگار جاوید اختر نے کہا کہ ’ پہلی بولتی فلم عالم آراء سے لے کر آج تک ہندوستانی فلموں میں اردو زبان نے رنگ بھرا ہے‘۔
انھوں نے کہا ’اردو کے ساتھ ایک مسئلہ ہے کہ جب تک وہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے آپ اسے ہندی کہتے ہیں اور جب آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تو آپ اسے اردو کہہ دیتے ہیں‘۔
اردو کی اس قدر خدمات ہونے کے باوجود بھی بہار سرکار نے اسکولوں میں اس کو اختیاری مضامین بنا دیا ہے جبکہ اردو بہار کی دوسری سرکاری اور بڑی زبان ہے ایسی صورت میں اختیاری بنا دینا اس کے قتل کر دینے کے برابر ہے
اس وقت جو بہار حکومت اردو کے ساتھ سلوک کررہی ہے
ایسا ہی ہے جیسے آج سے چودہ سو سال پہلے کفار مکہ آپنی بیٹیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے اس نفرت کی آندھی کے چلنے میں کہیں نہ کہیں ہمارا بہت بڑا رول ہے ہم نے بھی اردو کو لاوارث اور یتیم بنایا ہے ہمارا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس سے کوسوں دور ہوتا جا رہا ہے ہماری بے اعتنائی حکومت کی نفرت کو بڑھاوا دیتی ہے اور ہم اس کا سبب بنتے جا رہے ہیں ۔اگر اس کی حفاظت کی طرف ہمارے اقدام نہ اٹھے تو اس کے ذمہ دار ہم ہی ہوں گے ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو کو مٹنے سے بچا لیں تواس کی حفاظت ایسی کرنی پڑے گی جیسی ہم اپنے سازو سامان کی کرتے ہیں۔ اگر آپ چوروں کو اپنے خزانے کا دربان بنا دینگے تو آپ کے سامان کی حفاظت نہیں اسے لوٹ کر لے جائیں گے اردو کے ساتھ ہمارا کچھ اسی طرح کا رویہ ہے ہم نے اسے لٹیروں کے ہاتھ میں دے دیا جو اسے لوٹ لینا چاہتے ہیں
ہم اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اٹھائیں گے اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دیں گے اگر اردو سے ناآشنا رہے تو دین کےبہت سارے مسائل سے ناآشنا رہ جائیں گے اس لئے کہ ہندوستان میں اسلامی کتاب کا ایک بڑا ذخیرہ اردو میں ہی موجود ہے اگر ہم نے اردو کی طرف توجہ نہیں دی تو ہمارے بچے دین سے دور ہو جائیں گے اور ہندوستان سے اردو کا خاتمہ ہوجائے گا اور ہم ہی اس کے ذمہ دار ہوں گے
اسی پس منظر میں آنند نارائن ملا نے بہت عمد شعر کہا ہے
ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ
اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی
Comments are closed.