گریٹراسرائیل:خواب یاحقیقت

سمیع اللہ ملک
کیانیتن یاہوگریٹراسرائیل کے خواب کی تکمیل کیلئے جلدمشرق وسطیٰ کانقشہ بدلنے جارہاہے اوربظاہردنیایہ سب ہوتادیکھتی رہ جائے گی؟اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش کے مطابق اسرائیل کی طرف سے غرب اردن کایکطرفہ الحاقبین الاقوامی قانون کی سب سے سنگین خلاف ورزی ہوگی۔مسلم دنیااوریورپی ممالک بھی فلسطینی غرب اردن کوزبردستی ہتھیانے کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت اورمخالفت کرچکے ہیں لیکن اس کاکوئی اثرنہیں ہواکیونکہ نیتن یاہوکواس انتہائی متنازع اقدام کیلئیامریکی صدرڈونلڈٹرمپ اور انتہائی مضبوط یہودی لابی کی پشت پناہی حاصل ہے۔یادرہے کہ اس وقت دنیاکی مکمل تجارت "آئل،ادویات اوراسلحیکی انڈسٹری”کے ساتھ الیکٹرانک کے ساتھ ساتھ دیگرزندگی کی ضروریات کو38کارپوریشنزکنٹرول کررہی ہیں اوریہ تمام عالمی کارپوریشنزیہودیوں کی ملکیت ہیں اورانہوں نے بڑی چابکدستی سے چین کے اندربھی بہت سے انڈسٹریزمیں سرمایہ کاری کررکھی ہے لیکن پچھلے دس برسوں سے چین نے بڑی حکمت کے ساتھ اپناکنٹرول بحال کرلیاہے جس کے بعد یہ کارپوریشنزبھی کھل کرسامنے آگئی ہیں اورہرصورت میں دنیامیں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی سبقت کونیچادکھانے کیلئے پہلے سے زیادہ متحرک ہوگئی ہیں۔اس حوالے سے یقیناامریکی سپرمیسی کوآلہ کارکے طورپراستعمال کرنے کیلئے سازشوں میں مصروف ہیں اوراسی تناظرکی تفصیل 20 ستمبرکو’’کیاتیسری جنگ عظیم کااسٹیج تیارہوچکاہے؟‘‘کے عنوان سے میں اپنے آرٹیکل میں تفصیلاً تحریرکرچکاہوں جس کوقارئین کی ایک بڑی تعدادمیں خاصی پذیرائی حاصل ہوچکی ہے۔
مشرق وسطی کے مبصرین اس بات پرمتفق ہیں کہ نیتن یاہوطاقت کے زور پرجوکچھ کرنے جارہاہے اس کے خطے کے امن و استحکام پرگہرے منفی اثرات پڑیں گے۔نیتن یاہوغرب اردن کااسرائیل کے ساتھ زبردستی الحاق کرنے کے بعداگرفلسطینیوں کووہاں سے بے دخل کرسکتاتوشاید کردیتا لیکن ایساممکن نہیں۔غرب اردن میں فلسطینیوں کی تعدادکوئی 25 لاکھ ہے۔اسرائیل کاحصہ بننے کی صورت میں فلسطینی اسرائیلی آبادی کاچالیس فیصدہوجائیں گے۔ نیتن یاہو چاہے توانہیں اسرائیلی شہریت دے کربرابری کے حقوق کاوعدہ کرسکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے اسرائیل میں فلسطینیوں کی تعدادبڑھ جائے گی جس سے یہودی اکثریت کوخطرہ ہوسکتاہے۔اس لیے نیتن یاہوفلسطینیوں کوبطورشہری برابرکے حقوق دینے کے بھی خلاف ہے لیکن اگراسرائیل نے فلسطینیوں کو اپنے ہی علاقے میں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی تواس سے غم وغصہ بڑھے گا۔جنوبی افریقامیں سفیدفام اقلیت نے ایک عرصے تک مقامی سیاہ فام آبادی پراسی طرح حکومت کی اوراس کااستحصال کیالیکن وہاں کے لوگوں کی جدوجہداورعالمی دباؤکے بعد بالآخر اس نظام کاخاتمہ ہوگیا۔ اسرائیل کیلئے آج کے دورمیں اسی طرح کاامتیازی نظام متعارف کرناناممکن نہیں تومشکل ضرورہوگا۔اس روش کے آگے جاکرخطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
فوری طورپرشایدکوئی شدیدردِعمل سامنے نہ آئے۔عرب حکمران اوردیگرملک فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی دکھانے کی خاطر زبانی کلامی اسرائیل کی مذمت کریں گے لیکن عملی طورپر دنیانے بظاہرفلسطینیوں کواب ان کے حال پرچھوڑدیاہے۔بیشترممالک سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے پرامریکااوراسرائیل کے ساتھ ایک حدتک ہی محاذآرائی کی جاسکتی ہے لیکن فلسطینیوں کی خاطران سے لڑا ئی نہیں کی جاسکتی۔خودفلسطینی قیادت اتنی مایوس ہے کہ اس کاکہناہے کہ وہ اس کی سخت مخالفت کرے گی لیکن اسرائیل کے خلاف پرتشددمظاہروں کی حمایت نہیں کرے گی۔
امریکاسمیت عالمی برادری نوے کی دہائی سے اوسلومعاہدے کے تحت خطے میں دوریاستوں کے قیام کیلئے کوشاں رہی ہے لیکن دنیاکی نظرمیں نیتن یاہوکایہ اقدام فلسطینیوں کااپنی علیحدہ ریاست کادیرینہ خواب چکناچورکرنے کے مترادف ہے اورنیتن یاہوکی ان خواہشات میں ٹرمپ کے یہودی نژاددامادجیرالڈنے خوب رنگ بھراہے اورحالیہ عرب معاہدوں کیلئے سب سے زیادہ اس نے وہی کام کیاہے جوخلافتِ عثمانیہ کوپارہ پارہ کرنے کیلئے لارنس آف عریبیہ نے کیاتھا۔نیتن یاہواوران کے حمایتیوں کے نزدیک غرب اردن کاعلاقہ انتہا پسندیہودی عقیدے کے اعتبارسے اسرائیل کااٹوٹ انگ ہے اورملک کی سلامتی کیلئے بھی ناگزیرہے لیکن دنیاکے نزدیک اسرائیل نے ان علاقوں پر1967کی جنگ کے بعدسے قبضہ کررکھاہے۔پچھلی چنددہائیوں میں اسرائیل ان مقبوضہ علاقوں میںنئے زمینی حقائق قائم کرنے کی پالیسی پرگامزن رہاہے جس کے تحت وہاں مسلسل نئے گھراورفلیٹ تعمیرکرکے باہرسے یہودی خاندانوں کولالاکربسایاجاتارہاہے۔عالمی برادری کی نظرمیں یہ تعمیرات غیرقانونی ہیں۔اس کے باوجودآج غرب اردن کی ان شاہکاربستیوں میں کوئی پانچ لاکھ کے قریب اسرائیلی یہودی بستے ہیں۔نیتن یاہوکاخیال ہے کہ وہ طاقت کے بل پرگریٹراسرائیل کے خواب کوعملی جامہ پہنانے کیلئے تیارہے لیکن دنیاکی نظرمیں ان کا یہ عمل خطے کوتباہی اورجنگ کی طرف دھکیل رہاہے جس سے اسرائیل کے وجودکوبھی شدیدخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
دوقومی نظریہ تقسیمِ ہند کا اصل محرک بنایعنی مسلمان اورہندودوالگ قومیں ہیں جن کامذہب،ثقافت،تاریخ،رہن سہن اورتہذیب وتمدن سب یکسرمختلف ہے۔اس فلسفے کے تناظرمیں مملکتِ خداداد پاکستان معرضِ وجودمیں آیااورہندوستان دوالگ الگ ملکوں میں بٹ گیا۔ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے فروری1948 میں امریکاکے نام پیغام میں فرمایا تھا’’میں نہیں جانتاکہ پاکستان کے دستورکی آخری شکل کیاہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام کے بنیادی اصولوں کاآئینہ داراورجمہوری اندازکاہوگا۔اسلام کے اصول آج بھی ہماری زندگیوں میں اسی طرح قابل عمل ہیں،جس طرح1300سوسال پہلے تھے۔اسلام نے ہمیں وحدتِ انسانیت اور عدل ودیانت کی تعلیم دی ہیــ‘‘۔ یہ تھاوہ نظریہ جس کی بنیاد پرپاکستان وجودمیں آیا۔یہ کوئی نیانظریہ نہیں بلکہ بنیادی طورپریہ وہی نظریہ ہے جورسول کریم ﷺ نے آج سے تقریبا1450سال قبل انسانیت کودیاتھا۔اس کی روشنی میں دیکھیں توپاکستان کوئی معمولی ملک نہیں،اس کے قیام کی نوید1450سال قبل سنائی گئی تھی۔رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی کواہلِ عرب صادق اورامین کہتے تھے اوریہود ونصاریٰ بھی اس بات پرمتفق تھے کہ آپ ﷺ صادق بھی ہیں اورامین بھی،لیکن یہودیوں نے آپ ﷺکواللہ کاسچانبی ماننے سے صرف اس لیے انکارکردیاتھاکہ آپ ﷺحضرت اسماعیل علیہ السلام کی آل میں سے تھے۔یہودی خودکواللہ کی مقرب ترین اور بہترین قوم سمجھتے تھے،سارے انبیابنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے لیکن خاتم النببین ﷺکاتعلق بنی اسرائیل سے نہیں تھاجس کویہودنے ماننے سے انکارکیا،ان کی رائے میں اللہ نے عزت ووقارصرف بنی اسرائیل کوبخشاہے،لہذاجوبھی نبی مبعوث کیاجائے گااس کاتعلق لازمابنی اسرائیل سے ہی ہوگا۔یوں مسلمانوں سے یہودیوں کی جنگ شروع ہوئی جوآج تک جاری ہے۔
قیامِ پاکستان کے9ماہ بعدہی اسرائیل کے نام سے فلسطین کی سرزمین پراسرائیل کی ناجائزجبری ریاست قائم کی گئی۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم اورصیہونی تنظیم کے سربراہوں میں سے ایک ڈیوڈبین گوریان نے اپنی پہلی تقریرکرتے ہوئے کہاکہ ریاست اسرائیل کواگرکسی سے خطرہ ہے تووہ پاکستان ہے کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پرمعرضِ وجودمیں آیا ہے۔واضح رہے کہ14/اگست 1947کوپاکستان وجودمیں آیااور14مئی 1948کواسرائیل کی ناجائزریاست قائم کی گئی۔نومولودپاکستان کواسرائیل نے اپنے لیے سب سے بڑاخطرہ قراردیدیا۔گوریان نے کہاتھاکہ جس دن پاکستان ختم ہوجائے گااس دن اسلام کاخاتمہ ہوجائے گا۔ (خاکم بدہن)
پاکستان ایک نظریے کہ تحت وجودمیں آیااورنظریہ کوختم کرناچونکہ بچوں کے آسان کھیل جیسانہیں ہوتاتویہاں دشمن نے سفاک چال چلی۔ملک توڑنے کیلئے مذہب کی غلط ترجمانی کرتے ہوئے زبان،رنگ،نسل،قوم اورفرقوں کاسہارالیاگیا۔آج یہی غیروں کے ایجنڈے پراس نظریاتی ملک کوتوڑنے کی سازش کاحصہ بنے ہوئے ہیں۔ویسے تومسلمانوں کی تاریخ جرأت وبہادری سے عبارت ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اوروں کی طرح اس قوم میں بھی گلی محلوں سے لے کرسیاسی ایوانوں میں غدار لوگ پائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کوانتہائی خطرات کاسامناہے۔بھارتی سرحدہمیشہ سے ہی پریشانی کاسبب رہی ہے، اوردشمن افغان سرحدکوبھی استعمال کرتارہتاہے۔ایک طرف فوج طویل ترین سرحدوں کی حفاظت پرمعمورہے تودوسری طرف ملک میں انتہاپسندتنظیموں اوردہشتگردوں سے بھی نمٹ رہی ہے جبکہ کوئی قدرتی آفت آجائے،حتی کہ ابرِرحمت ہی کھل کربرس جائے توبھی انتظامیہ کومدد کیلئے فوج کی جانب دیکھناپڑتاہے۔
پاکستانی افواج ہمہ وقت متعدد محاذوں پربرسرِپیکارہے۔ایسے میں اب سی پیک کے خلاف امریکااسرائیل اوربھارت سے گٹھ جوڑ کرکے جہاں پاکستان کے گردگھیراتنگ کررہاہے وہاں امریکی دباؤاوردہمکیوں نے انتہائی گھمبیرصورتحال پیدا کردی ہے لیکن دوسری طرف ہماری نااہل سول حکومت کرپشن کے مقدمات میں الجھی ہوئی ہے۔لگ یوں رہاہے کہ ملک کی داخلہ وخارجہ امور بھی اب فوج کوہی دیکھنے ہوں گے۔سیاسی عدم استحکام بھی عروج پرہے۔سابقہ حکومت کے دورمیں اسلام آبادمیں ایک مذہبی جماعت کے دھرنے اوران کے مطالبات کے آگے گھٹنا ٹیک دینابھی عالمی سطح پربدنامی کاسبب بنا۔
اگرہم تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیں تونظر آئے گاکہ امریکانے پاکستان کوہمیشہ ہی مایوس کیاہے۔سانحہ1971میں اس تاریخی بحری بیڑے کے دھوکے کوہم کبھی نہیں بھول سکتے جوامریکانے پاکستان کی مددکیلئے بھیجناتھا۔یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکاکے بیشتراموراسرائیل سے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔امریکااسرائیل کوامدادکے نام پراتنی خطیر رقم دیتاہے جس کاکوئی جوازنہیں۔14ستمبر2016کوامریکانے اسرائیل کے ساتھ 10سالہ فوجی امدادکا38ملین ڈالرکی مددکامعاہدہ سائن کیااوریہی اسرائیل پاکستان کواپنے لئے سب سے بڑاخطرہ قراردیاہے۔امریکاکی سلامتی کی پالیسی سے لیکرانتظامی امورتک سب یروشلم میں طے پاتے ہیں۔اقوام متحدہ،ورلڈ بینک،ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے اسرائیل کے اختیارمیں ہیں توامریکاکی پالیسیز پاکستان کے حق میں مفیدکیسے ہوسکتی ہیں؟
واضح رہے کہ پاکستان پورے عالم اسلام میں واحدنیوکلیئرپاورہے اوریہی اسرائیل کوکسی طورہضم نہیں ہوتی۔1981میں اسرائیل نے بھارت کی مدد سے کہوٹہ نیوکلیئر ری ایکٹر پر ناکام حملے کی سازش بھی کی جوکامیاب نہیں ہوسکی۔ان تمام معلومات اور تاریخی حقائق سے ثابت ہوتاہے کہ امریکاپاکستان اورمسلمانوں کا دوست ہوہی نہیں سکتا۔افغانستان،عراق ، لیبیا،شام،یمن،مصر، مراکش،لبنان،تیونس اورفلسطین میں امریکااوراسرائیل کاکردارسب کے سامنے ہے۔یہاں ہونے والی خونریزی کے پیچھے گریٹر اسرائیل کامنصوبہ ہے اور گریٹراسرائیل کی راہ میں بڑی حد تک رکاوٹ پاکستان ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کوختم کرنے کیلئے ان ممالک کی سرتوڑکوششیں جاری ہیں۔
برمامیں ہونے والے حالیہ فسادات اورمسلمانوں کی بدترین نسی کشی بھی اسی منصوبے سے متعلق ہے۔اگرآپ معاملات کابغور جائزہ لیں تواندازہ ہوگاکہ عراق،افغانستان سمیت
دنیاکے کئی ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کرنے والے امریکا نے برمامیں مسلمانوں کے قتل عام پرانسانی حقوق کاواویلاکرکے وہاں امن فوج بھیجنے کے مطالبہ کی آڑمیں بھی ایک بھیانک سازش میں مصروف تھا۔دراصل امریکااس خطے میں ایک محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈرہاتھاجواس کوافغانستان میں بدترین شکست کے بعدمطلوب تھی جوپاکستان سمیت،چین اورشمالی کوریاکی نگرانی کرسکے لیکن چین نے بروقت اس سازش کوبھانپ کر’’ون روڈون بیلٹ‘‘کے منصوبے کے تحت فوری طورپربرماکے ساتھ کئی تجارتی معاہدے کرکے امریکاکاراستہ مسدودکردیا۔مختصرا یہ کہ آنگ سان سوچی امریکاہی کاپیداکردہ ایک ایسا کردارہے جوبھارت کی مددسے میانمارمیں امریکاکی راہ ہموارکرناتھا۔اس اسرائیل کایہ سازشی دماغ ہے جودرحقیقت’’گریٹراسرائیل‘‘کی منزل کی طرف گامزن ہے لیکن اس سارے منصوبے کے پیچھے اگرکوئی براہِ راست رکاوٹ ہے تووہ کلمہ طیبہ کے نام پر27 رمضان کی مبارک شب کومعرضِ وجودمیں آنے والاایٹمی طاقت کاحامل ملک پاکستان ہے۔ربِ کریم ہمارے پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔
بروزجمعرات۱۴صفر الحرام۱۴۴۲ھ یکم اکتوبر ۲۰۲۰ء
لندن
Comments are closed.