بابری مسجد اور عدالت عظمی

شاداب انظار ندوی

بابری مسجد جو پچھلے 28 سالوں سے ہندوستانی سیاست کا مہرا بنی ہوئی ہے اس کو 9؍نومبر2019 کو ہندستانی عدالت عظمی نے ہندووں کے حوالے کردیا مگر مسلمانوں نے عدالت کے اس فیصلے کی تعظیم کی، اس ناحق فیصلے کو بھی اس لیے مان گئے کہ ملک میں امن وامان باقی رہے ورنہ سب کو معلوم تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے 1528 میں کروائی تھی چار سو سالوں تک مسلمانوں نے اس مسجد میں عبادت کی ہے اور اس کے میناروں سے اللہ اکبر کی صداگونجتی رہی ہے اور دنیا اس بات کی گواہ بھی ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ چار سو سالوں بعد لوگوں کو پتہ چلا کہ یہ رام جنم بھومی ہے جس کا ثبوت رام بھگتو ں کے پاس نہیں ہے مگر پھر بھی ہندوؤں نے1940 (انیس سو چالیس) میں اس میں مورتی رکھ دیں اس کے بعد یہ پاک سرزمین فساد کا اڈا بن گئی پھر کیا تھا گویا کہ سیاسی لیڈروں کے ہاتھ ووٹ بٹورنے کا نسخہ لگ گیا۔ووٹ کی راجنیتی کر نے والی پارٹیوں نے اپنی سیاسی کھچڑی بنائ اور لوگوں کو گمراہ کیا ۔اور اس جھگڑے نے  اس پر تالا لگا دیا  اور پھر معاملہ کورٹ میں انصاف کی دہائی لگاتا رہا اور تاریخ پہ تاریخ گزرتے ہوئے باون سال گزر گئے۔

پھر 52؍سال بعد 26؍دسمبر 1992کو ہندوستانی جمہوریت کا خون ہو گیا بی جے پی حکومت کی سربراہی میں مسجد کو شہید کر دیا گیا ۔لال کرشن اڈوانی، اوما بھارتی اور دیگر بی جے پی کے نیتا تماشائی بنے دیکھتے رہے جب کہ عدالت نے مسجد کو کوئی نقصان نہ پہنچانے کا حکم دیا تھا ۔اور یہ ساری چیزیں ثبوت کے ساتھ سی بی آئی کے پاس موجود ہے اور عدالت کے پاس بھی۔مگر 29؍ستمبر کے فیصلے نے قانون کی صداقت کا منہ نوچ کر لہولہان کردیا ہے پوری  دنیا میں ہندوستانی قوانین کو شرمسار کر دیا ہے ۔اور آزادئ ہند کے شہیدوں کی قربانی کو ضائع کر دیا ہے

۔۔۔۔ایسے فیصلوں سے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ عدالت عظمی ضمیر فروش ہو گئی ہے یا پھر اس ہندوستانی آئین کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جس کو بھیم راؤ امبیڈکر کی ٹولی نے بنایا اور ملک میں نافذ کیا تھا۔کیونکہ عدالت نے جو فیصلہ دیا ہے اس کی کوئی امید نہیں کر سکتا ۔اس مسجد کو ڈھانے والوں نے خود اعتراف کیا اور سینہ ٹھوک کر کہاں ہے جی ہاں اس کی شہادت میں میں شامل تھی ۔سادھوی پرگیا نے کہا میں نے اس کی عمارت کو چڑھ کر توڑا ہے اور مجھے اس بات کا فخر ہے میڈیا والے سے اس نے اعتراف کیا ہے ۔کیا عدالت بہری تھی جس نے اس بیان کو سنا نہیں؟ پون پانڈے جو شوسینا سے  تعلق رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کو شازش سے نہیں بلکہ پلان سے توڑا گیا تھا اور اس بات کا ثبوت سی بی آئی کی آفس میں موجود ہے ۔راجو گپتاہیں جنہوں نے بیان دیا کہ نہیں ہم لوگوں کی پلاننگ پانچ دن پہلے سے تھی  آٹھ سو لوگوں کی جماعت تھی جس میں کئ ذاتی کے لوگ تھے اور ہمارے وہاں جانے کا مقصد ہی مسجد کو شہید کرنا تھا  یہ سب ایک ویڈیوکلپ کے ذریعہ معلوم ہوئ ہے
اس قدر کھلے اور واضح ثبوت ہونے کے بعد بھی اگر عدالت کو یہ لگتا ہے کہ مسجد شہید نہیں کی گئی ہے بلکہ شہید ہوگئی ہے تو آپ ایسی عدالت کو کیا کہیں گے منصف یا قاتل؟

کسی شاعر نے کیا ہی بہترین ترجمانی کی ہے
"وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے”

"اقرباء میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر”
انسانی دنیا پر اس سے بد ترین دن کبھی نہیں آیا ہوگا چاہے وہ دن بابری مسجد کی شہادت کا ہو یا کہ اس کے ساتھ حق تلفی کا۔

اس سے زیادہ شرم کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ سارے ثبوت ہونے کے بعد بھی عدالت نے ایسا پردہ ڈالا جیسے ان میں سے کوئی بھی گنہگار ہی نہیں  ۔عدالت عظمی نے تو جمہوریت کو روند ڈالا ہے۔ ہندوستانی عوام کے اعتماد کا قتل کر دیا ہے   جب انسان بے اعتماد ہو جاتا ہے اپنے گھر سے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے قریبی پولیس سے اورعدالت سے تب وہ آخری دم میں عدالت عظمی  کو اپنا مسیحا سمجھ کر آواز لگاتا ہے اور اپنا دکھڑا سناتاہے کہ اس کو انصاف مل جائے گا لیکن آج جو اس ملک کی عدالت عظمیٰ نے اپنا خوفناک چہرہ دکھایا ہے اس سے ہر انسان خائف ہے کہ اب وہ اپنے انصاف کے لیےکس دروازے کو کھٹکھٹائیں گے؟ جہاں اعتماد اور بھروسہ تھا وہ تو کھوکھلا اور خالی نکلا وہ ضمیر فروش اور پژمردہ نکلا ۔جو ایسی صورتوں کو جھٹلا سکتا ہے جس کی میڈیا گواہی دے رہی ہے ۔ پروین جین جو اس حادثے کے چشم دید گواہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم پانچ دسمبر سے سات دسمبر تک اس جگہ موجود تھے جب مسجد کو شہید کی گئی اور لوگوں سے کہا گیا کہ ثبوت کو چھپایا جائے تو لوگوں نے میڈیا پر حملہ کردیا اور میڈیا کرمچاری وہاں سے بھاگنے لگے کہا کے میں بھی بھاگ کر لال کرشن اڈوانی کے پاس آیا اور ان سے کہا اسکو روک لو مگر ایسا نہیں ہوا ۔مسجد کی ایک مینار جب شہید ہو گئ تو اومابھارتی نے یہ نعرہ لگایا ایک دھکا اور دو بابری مسجد توڑ دو یہ ساری باتیں رکارڈ میں موجود ہیں ۔

اسکے بعد بھی عدالت عظمی کا ایسا فیصلہ ہندوستانی میڈیا کا گرو بڑھاتا ہے وہ کہتے ہیں کے آپ نے مندر کے فیصلے کو مان لیا تو اسکو کیوں نہیں مان لیتے کے مسجد شہید نہیں کی گئ تھی ہوگئ تھی ۔ہم نے تو ملک کی امن وشانتی کے لیے اس کو مانا تھا نا کہ یہ سمجھ کر کے واقعی یہ رام جنم بھومی ہے ۔کیا ہماری خاموشی ہماری شرافت کا سودا کر وا دے گی؟ اور ہماری خاموشی پر یہ اپنے ظلم کی دیوار تعمیر کرینگے ۔نہیں ملک کی امن وشانتی کے لیے ہم ہمیشہ آواز بلند کر تے رہے ہیں اور کرتے رہینگے اور ملک کی سلامتی کے لیے قربانی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔

Comments are closed.