مکان کوبھائی=وبھتیجوں میں تقسیم کرکے دینے کاوعدہ، ۸؍صفر۲۴ھ20/09/26ءکےفتوی سے رجوع

بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترمی ومکرمی مفتی صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
*مسئلہ نمبر1.*
ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں،ایک بہن کی شادی نہیں ہوئی،والدصاحب کی وراثت سے جن بہن کی شادی نہیں ہوئی تھی، انہیں ایک مکان دے دیا گیا۔ جن بہن کی شادی نہیں ہوئی تھی ان کی حیات میں ہی دو بھائیوں اوردو بہنوں کا انتقال ہوگیا۔ فی الوقت جن بہن کی شادی نہیں ہوئی تھی، اس بہن کا بھی انتقال ہوگیا، اب اس مکان کی رقم کی تقسیم کس طرح ہوگی؟ جن لوگوں کا انتقال بہن کی حیات ہی میں ہوگیا، کیا اس میں ان کا بھی حصہ رہے گا۔؟
*مسئلہ نمبر 2.*
بہن نے اپنی حیات میں ہی ہوش وحواس میں کہا تھا کہ: اس مکان کو بیچ کراس کی رقم دوباحیات بھائیوں اورایک مرحوم بھائی کی اولادکودوں گی۔غورطلب بات یہ ہے کہ اب اس مسئلہ پمسئلہ نمبر1 پرعمل کیا جائے؟ یامسئلہ نمبر2 پر عمل کیاجائے؟
برائے کرم تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں۔
عبد الباری قریشی
بھیکھن گاؤں، ضلع کھرگون (ایم پی)
*الجواب حامداومصلیاو مسلماامابعد*
1. سوال نامہ میں مرحومین کے ورثاء مثلا شوہر بیوی بچے وغیرہ کی تفصیل لکھنی چاہیے۔ سوالنامہ میں چوں کہ مرحومین کے ورثاء کی تفصیل نہیں بیان کی گئی ہے؛ اس لیے ان مرحومین کی متروکہ جائیدادمیں غیرشادی شدہ بہن کے حصہ کو نہیں بتایا جاسکتا ہے۔
اوربعد میں انتقال کرنے والی بہن کی متروکہ میں ان سے پہلے انتقال کرنے والے بھائی وغیرہ وارث نہیں ہوں گے۔
2.غیر شادی شدہ مرحومہ بہن کا کہنا کہ "اپنے مکان سے دو بھائی حیات اور وفات یافتہ بھائی کی اولاد کودوں گی۔”
یہ مرحومہ بہن کی طرف سے اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کے درمیان اپنے مکان کی قیمت کی تقسیم کاوعدہ ہے۔ یہ وصیت نہیں ہے۔ چونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں اپنے وعدہ کے مطابق اپنے مکان کو فروخت کرکے بھائیوں وبھتیجوں کے درمیان تقسیم نہیں کیا، بلکہ خود ہی مکان پرقابض ومتصرف رہیں۔ اس لیے ان کی موت کے بعد ان کے مکان
میں قانونِ شریعت کے مطابق باحیات بھائی اور بہ؛مرحومہ بہن کے وارث ہیں۔(1)
چچا اور پھوپھی کی موجودگی میں بھتیجے وبھتیجی اپنی مرحومہ پھوپھی کے وارث نہیں ہیں؛(2)
تجہیز وتکفین اور قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد مرحومہ کے مذکورہ مکان اوردیگر جملہ متروکہ (روپیہ، زیور وغیرہ) کوپانچ حصوں میں تقسیم کریں گے۔ دودوحصے باحیات بھائیوں کو اور ایک حصہ باحیات بہن کو بطور وراثت ملے گا۔(3)
تنبیہ ورجوع:
مورخہ۸؍صفرالمظفر ۱۴۴۲ھ مطابق26؍ستمبر 2020ءکو "بھائیوں اور بھتیجوں کے لیے ترکہ میں مرحومہ بہن کی وصیت” عنوان کے تحت اِسی سوالنامہ پرجواب لکھا گیا تھا، سوالنامہ میں وصیت کا مضمون نہیں ہے۔ لیکن راقم الحروف نے مرحومہ کی بات کو وعدہ کے بجائےوصیت سمجھ کر جواب تحریر کیا تھا۔جوکہ درست نہیں ہے۔ اس لیے مذکورہ عنوان کے تحت
۸؍صفرالمظفر ۱۴۴۲ھ مطابق
26؍ستمبر 2020ءکولکھے گیے فتوی سے رجوع کرتاہوں۔
(1)’’لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية‘‘. (4ج/ص378، الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لا یجوز، ط: رشیدیہ)
(2) لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا.(النساء، آیت نمبر: 7)
(3) وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ (سورہ نساء: آیت نمبر176)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
*کتبہ: (مفتی) محمد اشرف صاحب قاسمی*
خادم الافتاء شہر مہدپور ضلع اجین (ایم پی)
[email protected]
۱۲؍صفرالمظفر ۱۴۴۲ھ
30؍ ستمبر 2020ء
تصدیق:
مورخہ ۸؍صفرالمظفر ۱۴۴۲ھ
26؍ ستمبر 2020ء کو لکھے گیے فتوی کو کالعدم سمجھا جائے. فقط العبد (مفتی) (مفتی)محمد سلمان ناگوری
ناقل: (مفتی) محمد توصیف صدیقی
معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور
Comments are closed.