ہندوستانی سیاست کا معیار

شاداب انظار ندوی
۔۔۔۔سیاست نظام حیات کے اصولوں کا نام ہے
اس لیے کہ حدیث میں سیاست کے معنی : عدل و انصاف اور تعلیم و تربیت کے ہیں۔اور اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دو ہوجائیں ۔قرآن میں سیاست کے معنی ٰ : حاکم کا لوگوں کے درمیان میں حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دینا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اور رشوت وغیرہ کو ممنوع قرار دینا ہے ۔
۔۔۔مگر سیاست اپنے الفاظ ومعنی دونوں اعتبار سے۔بے معنی ہو چکا ہے ۔اب ظلم وبربریت ۔خودغرضی اور نا انصافی کا نام سیاست ہے ۔کونکہ ملکگیر سیا ستیں۔اب ملک کے لیے نہیں ۔اپنے مفاد کے لیے استعمال کر تی ہے۔قوموں مذہبیت تو ڈھونگ ہےجس کے سینے پر چڑھ کر سیاست کا گندا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ناعقلی اور ناسمجھی میں عوام اپنی قربانی دے بیٹھتی اور یہ سمجھتی ہے کے اس نے جو کیا وہ قوم وملت کے لیے کیا مگر ایسا نہیں ہے ہم میں سے اکثر سیاست کی زبان نہیں سمجھ پاتے۔کونکہ سیاست میں زبان کا کوئ اعتبار نہیں بلکے دل میں چھپے راز کا ہوتا ہے اور دل کے راز یاتو وہ جانتا ہے جس کے دل میں ہوتاہے یا اللہ۔
. . .آپ دیکھیں ہندوستانی سیاست پر پوری دنیا کی نظر ہوتی ہے کیونکہ یہاں سیاست گیم کی طرح کی جاتی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں جو ووٹرز ہیں ۔وہ خود مختار نہیں ہوتے ہیں ۔وہ اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ اس کے گاؤں کے جو سرغنہ لوگ ہیں ۔جو مشورہ دیں گے اس پر وہ عمل کریں گے ۔اسی لئے یہاں کی ریاستوں میں سب سے زیادہ ووٹ خریدے جاتے ہیں ۔یہاں تکہ معمولی وارڈ ممبر کے لیے بھی ووٹ باضابطہ خریدا جاتا ہے ۔اور پانچ سال کا درد یا تو 500 کے نوٹ سے یا داروں کی بوتلوں سے لوگ بھول جاتے ہیں ۔اور پھر پانچ سال تک یہ بکتے ہیں کہ اب کی بار ایسا نیتا لائینگے جو ہمارے لئے کام کرے اور سماج کے لیے کام کرنے والا ہوں ۔مگر وہ بچپن سے بڑھاپے کا سفر طے کر لیتے ہیں اور اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کر پاتے ہیں ۔
جب انسان اپنے اختیار کا خود استعمال کرے تو نفع اور نقصان کے اسباب کا علم ہو ۔مگر یہاں تو اخوت وہمدردی بھائی چارگی میں لوگ ووٹ دیتے ہیں ۔کے فلاں صاحب سے دوستی ہے محبت و الفت ہے وہ جدھر کہیں گے ہم ادھر ہی وٹ دیں گے ۔اور ہر گاؤں میں ایسے چند لوگ ہوتے ہیں جن کی مٹھی میں لوگ ہوتے ہیں اور ایسی ہی لوگوں کو وہ بڑے نیتاجو ٹکٹ لے کر آتے ہیں
اپنا دوست بناتے ہیں اور ان کی مٹھی گرم کرکے اپنا ووٹ بینک بڑھا لیتے ہیں یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کو اپنے ایک ووٹ کی اہمیت کا علم نہیں ہے ۔اور جو بڑے لوگ ہیں ۔سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں وہ ٰآپ سی ڈیل پیسے کے لئے نہیں ووٹ کے لئے کرتے ہیں ۔خود تو یہ سب ایک ٹیبل پہ ہوتے ہیں لیکن گاؤں کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں سیدھی سادھی عوام کو ہمیشہ بے وقوف بنانے کا اور گمراہ کرنے کا کام کرتے ہیں اور گاؤں کے آپسی بھائی چارگی اور تعلقات کا بیڑہ غرق کردیتے ہیں سیاست کے پتوں میں اہم پتا لوگوں کو آپس میں لڑا کر الجھا کر رکھنا ہوتا ہے۔ اس میں جو سیاسی لیڈر جتنا بڑا ماہر ہوتا ہے وہ اتنی دور تک سفر کرتا ہے گاؤں لیول کی سیاست اسی لیول پر ختم ہوجاتی ہے ۔
اور صوبائی لیول کی سیاست میں مسلمان کٹھ پتلی کی طرح استعمال کیا جاتا ہے آزادی کے بعد سے ابھی تک مسلمانوں کو صرف سپورٹ کرتے ہوئے دیکھا ہے اپنے لئے لڑتے نہیں دیکھا جب کہ اس سے کم فیصد میں رہنے والے لوگوں نے اپنی پارٹی بنائی اور ہندوستانی سیاست کے حصہ دار بنے ۔اور ہم مسلمانوں کے رہنماؤں نے ہمیں صرف ووٹ بینک رہنے دیا جس کو ہر پانچ سال کے بعد سیاسی پارٹیاں استعمال کرتی ہے اور بیک فٹ پر دھکیل دیتی ہے ۔اور ہمارے بڑے یہ کہہ کر ہمیں سمجھا دیتے ہیں کہ ہم سیکولر پارٹیوں کو ووٹ کریں گے اور اس طرح ہمارے ووٹ ہی ہمارے لئے کفن کا سامان بن جاتے ہیں ہندوستانی سیاست میں اب جمہوریت کی نہیں مذہبیت کی بو آتی ہے جس نے ملک کی فضا کو خراب کر کے رکھ دیا ہے اور ہندوستانی فضا کے خراب ہونے کی وجہ سیاسی پارٹیاں ہی ہے چاہے وہ پارٹیاں ہو جس کو ہم سیکولر کہتے ہیں یا وہ پارٹی جسکی ہم مخالفت کرتے ہیں ۔اگر سیاست سے اسی طرح ہمارا فقدان رہا تو سیکڑوں بابری مسجد ہندوستان میں نظر آئے گی ۔اور یہ سب ہماری شرافت اور گنگا جمنی تہذیب کی پاسداری میں ہوگا ۔ اور آنے والی نسلیں ہم پر تھوکے گی کہ ہم نے خود ہی ان کے لئے قبر کھود رکھا ہے ۔آنے والی نسلوں کو ہم غلامی کی زنجیر میں باندھ دیں گے ۔اگر ہم نے آواز نہیں اٹھائی اور ملک کے سیاست میں حصہ نہیں لیا ۔تو سیاسی دنیا سے ہمارا تسلسل ختم ہو جائے گا ۔اور ہمارے بہت سارے حقوق سلب کر لیے جائیں گے ۔جس کی کوشش بھی کچھ دنوں سے کی جارہی ہے جس کو ہم نے سی اے اے این آر سی اور اس طرح کے موضوع میں دیکھا ہے ۔جس کی وجہ سے ہماری ماؤں نے کئی مہینوں تک ذلت کی زندگی گزاری ہے ۔جو ہمارے گھروں کی رونق ہے اس کو انہوں نے سڑک پر نکلنے پر مجبور کر دیا ۔یہ ہمارے لئے کہیں سے بھی فخر کی بات نہیں ہوگی ۔اگر اپنی آنے والی نسلوں کا تحفظ چاہتے ہیں تو ملک کی سیاست کی دھارا بدل لنی ہوگی شروعات وہاں سے کرنی پڑے گی جہاں سے اختتام ہوا ہے یعنی ایمان کے ساتھ میدان میں آنا پڑے گا ۔ اور اپنی اخلاقی تعلیمات سے سیاست کا چراغ روشن کرنا ہوگا اور دنیا کو اسلام کے فیض سے فائدہ پہنچانا ہوگا ۔ورنہ ہندوستان نےجو سیاست کا رخ کر لیا ہے وہ مسلمانوں کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہوگا ۔اور اگر آج اس پر قابض نہ ہوسکے توصبح قیامت تک اس کی امید نہیں کی جائے گی اور آج ہم ایمان کے ساتھ میدان میں آگئے تو
اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ مومنوں کو ناکام نہیں کرتا ۔اور اللہ کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا
Comments are closed.