آذربائی جان-آرمینیا جنگ (27/ستمبر2020ء تا حال)

تحریر : نگار سجاد ظہیر
آذربائی جان ایشیا کاوہ ملک ہے جو گزشتہ صدیوں میں روس اور ایران کے مابین فلیش پوائنٹ بنا رہا۔آذربائی جان کے شمال میں روس اور جارجیا،جنوب میں ایران ،مشرق میں کیسپئین سی اورمغرب میں آرمینیا ہے۔آج کل آذربائی جان ایک خود مختار ملک ہے۔جس کا صدر مقام باکو ہے۔آذربائی جان کا تاریخی پس منظر :
حضرت عمر کے عہد میں جب ایران فتح ہوا تھا تو آذربائی جان بھی فتح ہوا۔حضرت حُذیفہ بن یمان نے نہاوند سے آگے پیش قدمی کرکے آذربائی جان کو فتح کیا تھا،اس سے قبل یہاں ایران کے ساسانی بادشاہوں کی حکومت تھی۔ ساسانیوں کے عہد میں آذربائی جان کے حاکم کو مَرزُبان کہتے تھے۔حضرت حذیفہ نے مَرزُبان سے جس کا صدر مقام اردبیل میں تھا،معاہدہ کیا تھا۔یہ معاہدہ بلاذری کی فتوح البلدان میں موجود ہے۔ جس کی رُو سے ایرانی حاکم نے آٹھ لاکھ درہم (تاوان جنگ ) دینا منظور کیا اورحذیفہ نے وعدہ کیا کہ :
• کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
• نہ کسی کو غلام بنایا جائے گا۔
• آتش کدوں کو مسمار نہیں کیاجائے گا۔
• لوگوں کوان رسوم کی ادائیگی سے جوان میں رائج تھیں روکا نہیں جائے گا۔
اُس وقت کے آذربائی جان کا صدرمقام شِیز تھا ،اس شہر میں ایک مشہور آتش کدہ تھا جس کی زیارت کےلیے ساسانی بادشاہ تخت نشینی کے وقت آیا کرتے تھے۔
فتح کے بعد عرب مختلف علاقوں میں آباد ہوگئے،چوتھی صدی ہجری تک یہ مقامی آبادی میں بالکل گھل مل چکے تھے۔اموی خلافت کے دور میں ایران اسلامی ریاست کا ایک صوبہ تھا اورچونکہ آذربائی جان ایران ہی کاحصّہ تھا لہٰذا یہاں بھی اسلامی ریاست کی عملداری رہی۔
بنوعباس کے زمانے میں بھی یہی صورت حال رہی۔البتہ عباسیوں کے آخری زمانے میں جب مختلف علاقوں اورصوبوں کے مقامی امراء خودمختار ہونے لگے تو آذربائی جان پربھی غیر ملکی قوتوں نے قبضے کیے مثلاً ترکوں نے،خوارزم شاہ،سلاجقہ اورپھر منگولوں نے بھی ادھر کا رخ کیا ۔سقوطِ بغداد کے بعد آذربائی جان منگولوں کے قبضے میں چلا گیا۔ہلاکوخان کی آمد1256ءنے آذربائی جان کو ایک وسیع سلطنت کا مرکز بنا دیا،جو دریائے جیحون سے لے کر شام تک پھیلی ہوئی تھی ۔پہلے آذربائی جان میں منگولوں کا صدر مقام مَرَ اغہ تھا ،بعد میں تبریز ہوگیا۔
۔انیسویں صدی میں آذربائی جان میں روس کی دلچسپی ایک مستقل عنصر کے طورپر نظر آتی ہے۔ گرم پانی کی تلاش میں روس کی نظر ہمیشہ ایران پر رہی تاکہ خلیج فارس کی بندرگاہوں سے فائدہ اٹھا سکے۔ آذربائی جان میں روسی دلچسپی اور مداخلت نےدوبار جنگ کی شکل اختیار کی۔
پہلی روسی- ایران جنگ جو آذربائی جان کے مسئلے پر ہوئی۔1804ء سے1813ء تک کسی نہ کسی صورت میں جاری رہی ،اس کاخاتمہ "معاہدۂ گلستان” کی صورت میں ہوا۔ جنگ میں روس کی فتح ہوئی۔ معاہدۂ گلستان کے تحت داغستان ،جارجیااور آذربائی جان کے بیشتر حصوں پر روس کا قبضہ تسلیم کیا گیا۔مقامی حکومتیں جوKhanates کہلاتی تھیں یا تو ختم ہوگئیں یاانہوں نے روسی حاکمیت تسلیم کرلی۔
دوسری روس-ایران جنگ 1826ء تا28ءہوئی جس میں روس کو فتح حاصل ہوئی۔ جنگ کا خاتمہ معاہد ہ ترکمان چی پر ہوا جس کے نتیجے میں آذربائی جان کا بچا کھچا حصہ ،جو ابھی تک ایران کے پاس تھا روس کے قبضے میں چلا گیا لیکن ایران نے آذربائی جان پر روسی تسلط کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اس حوالے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ رہے۔
آذربائی جان پر یہ روسی تسلط 1917ء تک رہا۔1917ء کے کمیونسٹ انقلاب ا ور زار حکومت کے خاتمے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آذربائی جان کے قومی رہنماؤں نے آزاد ریاست کا اعلان کردیا۔محمد امین رسول زادہ کی مساوات پارٹی کی کوششوں سے آذربائی جان ڈیموکریٹک ری پبلک قائم ہوگئی۔
روس نے جلد ہی اپنے انقلابی معاملا ت پر قابو پالیا اور دوبارہ آذربائی جان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا ۔یوں آذربائی جان کی آزاد ریاست صرف دوسال قائم رہ سکی پھر رو س کے تسلط میں چلی گئی۔ریڈ آرمی کے اس حملے میں آذریوں نے شدید مزاحمت کی ۔تقریباً بیس ہزار آذری جان سے گئے ۔ 28/اپریل1920ء کو رو س نے آذربائی جان کو (SSR =Soviet Socialist Republic) قرار دیا گیا ۔اسی طرح آرمینیا اور جارجیا کے ساتھ کیا گیا اوراُن ریاستوں کا فرنٹ بنا کر کمیونسٹ روس کے ماتحت رکھا گیا۔
۔1936ء میں ایک معاہدے اور آئینی ترمیم کے تحت آرمینیا ،جارجیا اورآذربائی جان کو الگ الگ ریاست تسلیم کرکے انہیں بھی USSR کا حصہ بنا دیا گیا۔
آذربائی جان نے کبھی اپنی خودمختاری کی جدوجہد کوترک نہیں کیا لہٰذا جب 1991ء میں دس سالہ روس-افغان جنگ کے نتیجے میں USSR ٹوٹا تو آذربائی جان نے 30/اگست1991ء میں آزادی کا اعلان کردیا ۔اسی طرح آرمینیا نے ستمبر1991ء میں اپنی آزادی کا اعلان کیا
۔
آرمینیا کا تاریخی پس منظر:
آرمینیا ایشیا کا بلند ترین ملک ہے۔اس کے شمال میں جارجیا،جنوب میں ایران،مشرق میں آذربائی جان اور مغرب میں ترکی ہے۔
جب جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کا آغاز ہوا توآرمینیا ساسانیوں کے زیر تحت تھا لیکن ساسانی حکومت آرمینیا میں اپنے قدم مستحکم طورپر جمانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ساسانی بادشاہ، آرمینی عیسائیت کو ظلم وتشدد کاشکار بناتے رہے تھے۔ بہرحال دونوں طاقتوں نےیعنی بازنطینیوں اورساسانیوں نے آرمینیا میں مداخلت کا سلسلہ جاری رکھا۔
حضرت عمر کے زمانے میں جب شام فتح ہواتوعرب بار بار آرمینیا پر بھی حملہ آور ہونے لگے لیکن آرمینیا کی باقاعدہ فتح حضرت عثمان کے دور کی بات ہے۔بلاذری کی کتاب فتوح البلدان میں فتح آرمینیا کی تفصیلات موجود ہیں۔فاتح آرمینیا ،امیر معاویہ کے سپہ سالار حبیب بن مسلمہ تھے۔44ھ/ 645ھ میں آرمینیا فتح ہوا۔
۔جب36ھ/657ء میں امیر معاویہ اور حضر ت علی کے درمیان پہلی خانہ جنگی کاآغاز ہوا تو امیر معاویہ کو اپنی اُس فوج کی ضرورت پیش آئی جو آرمینیا میں تعینات تھی۔ چنانچہ مسلمان فوجوں سے خالی ہونے پر آرمینیا دوبارا اپنے پرانے آقا یعنی بازنطینی سلطنت کے تابع آگیا۔
۔لیکن یہ بازنطینی سیادت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی،حضرت معاویہ نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد (41ھ/661ء) آرمینیا کے لوگوں کو ازسرِ نو عربی سیادت قبول کرنے اور خراج اداکرنے کی دعوت دیتے ہوئے ایک خط تحریر کیا۔آرمینی امراء اس خط کی مخالفت کی جرات نہ کرسکے اس طرح آرمینیا دوبارا اسلامی خلافت کے ماتحت آگیا۔
یہی صورت حال عباسیوں کے دور میں رہی۔تاہم اندرونی طورپر فسادات اوربغاوتوں کا سلسلہ بھی چلتا رہتا تھا۔ترکوں اور سلجوقیوں کے حملے بھی ہوئے یہ کئی سو سالہ تاریخ ہے۔
عثمانی ترکوں نے مغربی آرمینیا کو چودھویں صدی کے آخری دس سالوں میں بایزید اوّل کے عہد میں فتح کیا اور مشرقی آرمینیا کو اس کے بعد کی دو صدیوں میں محمد ثانی(محمد فاتح) اورسلیم اوّل کے دور میں فتح کیا گیا۔ اس طرح پورے آرمینیا پر عثمانیوں کا قبضہ ہوگیا اور پہلی جنگ عظیم تک آرمینیا سلطنتِ عثمانیہ میں شامل رہالیکن صورت حال ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہی۔چودھویں صدی میں ممالیکِ مصر نے بھی آرمینیا پر قبضہ کیا۔ ایک وقت میں اس کے مغربی حصّے پر ایران کا قبضہ رہا ۔1828ء میں روس نے مشرقی آرمینیا کاحصّہ ایرانیوں سے چھین لیا ۔
۔جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو سلطنتِ عثمانیہ میں آباد کئی قومیتوں کی وفاداری ترکوں کے لیے پریشانی کا باعث تھی۔ آرمینیوں کی وفاداری شروع سے ہی مشکوک تھی،مذہباً وہ عیسائی تھے Armenian Orthodox curch سےوابستہ تھے،ان کا اس وقت کا مذہبی پیشوا (Catholicos)جو کہ روسی آرمینیا میں رہائش پذیر تھا،اس نے یہ اعلان کیا کہ زارِ روس تمام آرمینیوں کا محافظ ہے۔اس اعلان نے سارے آرمینیوں کا یہ مذہبی فریضہ بنادیا کہ وہ زارِ روس سے تعاون کریں۔چنانچہ بہت سے آرمینی ،رضا کارانہ طورپر روسی فوج میں بھرتی ہوگئے۔اس طرح سلطنتِ عثمانیہ کا مشرقی حصّہ ترکی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گیا۔
نوجوان ترکوں نے،جن کے ہاتھ میں پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت کی باگ دوڑ تھی، یہ طے کیا کہ ان آرمینیوں کو مشرقی جنگی خطے(Eastern war Zone) سے ہٹا کر مرکزی اناطولیہ میں لے آیا جائے یا شام پہنچادیا جائے۔چنانچہ 1915ء میں بہت بڑے پیمانے پر انتقال آبادی کا سلسلہ شروع ہوا دوملین (بیس لاکھ) آرمینیوں کو منتقل کیا گیا جس میں سے پانچ ،چھ لاکھ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ طلعت پاشا جو کہ وزیر داخلہ تھے اس نقل مکانی کے بھی نگران تھے۔اس واقعہ نے آرمینی اقلیت کو ترکوں سے دور کردیا۔ آج ان دونوں ممالک میں مغائرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے جسے آرمینیArmenian Genocide سے یاد کرتے ہیں اورعثمانی ترکوں کو اس بربریت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
مجھے یاد ہے 2013ء میں جب ہم ایران گئے تھے تواصفہان کے شہر میں جلفاکے مقام پر ایک آرمینی چرچ بھی دیکھنے گئے تھے۔ چرچ میں میوزیم بھی ہے ــ وہاں دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ایک جگہ جنگ عظیم اوّل کی کئی تصاویر نصب ہیں۔ساتھ ہی ٹی۔وی پر ان تصاویر کو متحرک صورتوں میں چلایا جارہا تھا ،انگریزی میں رننگ کمنڑی ہورہی تھی کہ کس طرح آرمینی باشندوں کو اُن کے قدیم وطن مالوف سے شام کے صحراؤں کی طرف بھیجا جار ہا ہے۔یہ متحرک تصاویر ترکوں کی وحشت اوربربریت کے طورپر پیش کی جاتی ہیں حالانکہ جنگی صورت حال میں اپنے مشرقی علاقوں کے دفاع کے لیے اس قسم کے اقدامات کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اتحادیوں نے آرمینیا کو آزاد علاقہ قرار دیا جب کہ یہ ترکوں کے قبضے میں تھا اور ترک کثیر تعداد میں یہاں آباد بھی تھے۔روس نے 1920ء میں آرمینیا پر حملہ کیا اوریہاں کمیونسٹ حکومت قائم کردی ،جیسی اذربائجان میں کی تھی۔
۔اس کے بعد روسی تسلط کا طویل دور آتاہے ۔جب 1991ء میںUSSR ختم ہواتوآذربائی جان کی طرح 21/ستمبر 1991ء کو آرمینیا نے اپنی آزادی کا اعلان کردیا ۔سوویت یونین سے نکلنے اور آزاد ہونے کے بعد دونوں ممالک آذربائیجان –آرمینیا میں تعلقات کشیدہ رہے اور یہ مسئلہ نگورنو قرہ باغ کا ہے۔
نگورنو قرہ باغ کا تنازعہ:
یہ ایک علاقہ ہے جو آرمینیا اورآذربائی جان کاسرحدی علاقہ ہے، یہ علاقہ نگورنو قرہ باغ سات ڈسٹرکٹ پر مشمتل ہے۔یہ آذربائ جان کا علاقہ ہے لیکن آبادی کی اکثریت آرمینی ہے۔فروری 1988ء میں یہ تحریک نگورنو قرہ باغ کے آرمینیوں نے چلائی کہ نگورنو کو آرمینیا میں شامل کیا جائے۔یہ ایک نسلی اورعلاقائی تنازعہ ہے۔جب یہ روس کاحصّہ تھا تو جوزف اسٹالن نے چاہا تھا کہ نگورنو کو سوویت یونین کے تحت ایک خود مختار علاقہ(Self-good type)بنادیں۔ اس طرح دیکھا جائے توان میں علیحدگی کے جراثیم روسی دور میں انجیکٹ کیے گئے۔
۔موجودہ تنازعہ 1988ء سے چلا آرہاہے۔آذربائی جان اور آرمینیا کی آزادی کے بعد بھی یہ مسئلہ سر اٹھا تا رہا۔اس حوالے سے دونوں ملکوں میں کئی جنگیں ہوئی ہیں۔1988ء،1992ء اور1994ء میں سیز فائر ہوا لیکن سرحدی کشیدگی برابر جاری رہی۔2016ء میں چار روزہ جنگ ہوئی۔اب27/ ستمبر2020ء سے جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں روس ابھی تک غیر جانبدار ہے وہ ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ وہ دونوں سائیڈ سے کھیل رہا ہے۔اس کے ارمینیا سے ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے۔ارمینیا میں ایک روسی ملٹری بیس بھی ہے ۔
۔ایران کھل کے سامنے تونہیں آیا لیکن اس کی ہمدردیاں آرمینیا کے ساتھ ہیں۔ترکی البتہ پوری طرح آذربائی جان کو سپورٹ کررہا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو ارمینیا کے وزیر اعظم اور روسی وزیر اعظم نے ترکی پر الزام لگایا کہ ترکی اپنے جہادی اذر بائ جان بھیج رہا ہے ۔اذر بائ جان اور ترکی دونوں نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے ۔
حالیہ جنگ کو ایک ہفتہ ہورہاہے ۔آذربائی جان میں کرفیو اور آرمینیا میں مارشل لاء نافذ ہے۔
نگار سجاد ظہیر
Comments are closed.